ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی دس سال بعد اسلام آبادآمد، مقاصد کیا ہیں؟

تحریر: عبدالرزاق برق
افغان حکومت کے مفاہمتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ موجودہ پاکستان حکومت کے دوران پہلی دفعہ دس سال بعد اسلام آباد کے تین روزہ دورے پر آئے ڈاکٹرعبداللہ کا وفد جو کہ 60 افراد پر مشتمل تھا اسلام آباد کے نور خان ائر بیس پر حکومت پاکستان کی طرف سے والہانہ استقبال کیا گیا اور ساتھ ہی اسلام آباد میں بڑی سڑکوں پر ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور شاہ محمود قریشی کی حمایت میں بڑے بینرز لگائے گئے تھے۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اسلام آباد کے دورے کے بارے میں سب سے بڑا سوال یہ کیا جارہا ہے کہ یہ کس مقصد کے لئے آئے تھے؟کیا ڈاکٹر عبداللہ کابل سے خالی دامن اسلام آباد آکر اپنا دامن بھر کے واپس اسلام آباد سے کابل لوٹ گئے؟ڈاکٹر عبداللہ کے دورے کے متعلق یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں کیوں ایک ملکی صدر کی حیثیت سے پروٹو کول دیا گیا؟اور ڈاکٹر عبداللہ کو ایک زبردست پروٹوکول حکومت پاکستان کی جانب سے دیے جانے پر افغان میڈیا میں تنقید کیوں کی گئی؟ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے حالیہ اسلام آباد کے تین روزہ دورے کے دوران ایک تقریب میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے شمالی اتحاد کے ایک سابقہ رہنما احمد شاہ مسعود کو کیوں ایک قومی شہید کہا۔؟افغانستان کے سابق وزیر خارجہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کا پاکستان کے آرمی چیف کے ساتھ ون ٹو ون ملاقات کرنے کے بارے میں بھی سوال کیے جاتے ہیں۔ کہ اس کا کیا معنی ہوسکتا ہے۔ کہ شمالی اتحاد کے ایک رہنما دس سال کے بعد کیسے آرمی چیف سے ملاقات کررہے ہیں؟ کیونکہ اسی ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو حکومت پاکستان نے کئی بار انہیں اسلام آباد آنے کی دعوت دی تھی۔ لیکن ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اس لئے پاکستان کے دورے پر نہیں آئے کہ بقول مبصرین کے انڈیا اس کے پاکستان آنے سے ناراض ہوسکتا تھا؟مبصرین کا کہنا ہے کہ اس بار ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اس لئے اسلام آباد کے دورے پر آئے ہوسکتا ہے کہ حکومت پاکستان نے پردے کے پیچھے افغان مسئلہ کے حل کے لئے انہیں یقین دہانی کرائی ہو اور یہ یقین دہانی اس بارے میں بھی ہوسکتا ہے کہ آنے والی افغان حکومت میں طالبان کے ساتھ ایک حکومت بنائی جائے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے اسلام آباد آنے کے مقاصد کے بارے میں اس وقت اسلام آباد اور کابل میں دو رائے پائے جاتے ہیں۔
ایک یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے آج سے چھ مہینہ قبل ایک تجویز دی تھی کہ افغانستان کے اندر ایک عبوری حکومت قائم کی جائے وہ افغانوں کو مخاطب ہو کر کہا کہ میری بات غور سے سنیں کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہو میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ افغانستان میں امن قائم کرے۔ اس سے قبل بھی عمران خان نے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں بھی تجویز دی تھی۔ پاکستانی وزیر اعظم کی جانب سے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے تجویز دینے پر افغان حکومت نے شدید رد عمل دیکھاتے ہوئے اسلام آباد میں مقیم اپنا سفیر کو مشورے کے لئے کابل طلب کیا۔ لیکن کئی دن کے بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عمران خان کی طرف سے افغانستان میں ایک عبوری حکومت کی تجویز کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ میڈیا نے عمران خان کی تجویز کو غلط مطلب لیا ہے۔ اس کے بعد افغان حکومت کے کہنے پر افغان سفیر کابل سے اسلام آباد واپس آئے خود افغان صدر کے الیکشن کے دوران یہ محسوس ہورہا تھا کہ ایک پیالے کے نیچے دوسرا پیالہ موجود ہے۔ بقول مبصرین کے افغانستان کے موجود ہ صدر پر دباؤ ڈالا گیا۔کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو مفاہمتی امن کونسل کاچیئرمین مقرر کیا جائے۔ اور انہیں مذاکراتی ٹیم کا ایک ایسے وفد کا سربراہ بنایا جائے کہ اشرف غنی حکومت کا مکمل نمائندہ نہ ہو۔ اُس وقت طالبان نے بھی اس بات پر زور دیا تھا کہ ہم افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات نہیں کرتے بلکہ ہم ایسے مذاکرات میں شرکت کریں گے جس میں افغان سیاسی رہنما اور تمام افغان گروپ شامل ہو۔ کیونکہ بقول طالبان کے وہ کابل ادارے کو تسلیم نہیں کرتے۔ طالبان کی یہ اسرار اور فارمولہ غالباًپاکستان اور امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کے بنیاد پر طے کیا گیا ہے۔
اب بظاہر قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان جاری مذاکرات میں ایک قسم کا تعطل پید ہوا ہے بقول مبصرین کے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورہ اسلام آباد کے ساتھ ہی یہ ممکن ہے کہ طالبان کو امریکہ کی طرف سے گرین سگنل دے کر قطر میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان تعطل کا شکار مذاکرات دوبارہ شروع ہوجائے۔ اور یہ عمل جا کر عمران خان کی پہلے سے دی گئی تجویز جو کہ ایک افغان عبوری حکومت کے لئے دی تھی کو طالبان اور ڈاکٹرعبداللہ عبداللہ دونوں عملی جامہ پہنائیں۔اسی افغان عبوری حکومت کے بارے میں پاکستانی انٹیلی جنس کے ایک سابق سربراہ اسد درانی نے یہ کہا تھا کہ افغانستان میں طالبان ایک عبوری حکومت میں شامل ہونگے جس میں اشرف غنی کی شراکت نہیں ہوگی۔
بقول مبصرین کے اسلام آباد افغانستان کے موجودہ صدر محمد اشرف غنی کوبطور صدر اب زیادہ برداشت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ کئی پاکستان ریٹائرڈ جرنیلوں نے بھی یہ کہا تھا کہ اشرف غنی کو ہٹایا جائے اور ایک عبوری حکومت کی تشکیل کی جائے اگر چہ اس حوالے سے اب تک افغان صدر نے کوئی خاص رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔ اس وقت خطے میں یہ جو افغان مسئلے کے حل کے لئے کوششیں جاری ہیں اس کے پیچھے ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکہ کے وزارت خارجہ کے نمائندہ خاص برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کھڑے ہیں۔ کابل میں افغان حکومت کے ایک ماہر نے کہا کہ خود زلمے خلیل زاد اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
بعض مبصرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ کئی مہینے قبل جب پاکستانی وزیر اعظم افغانستان کے بارے میں ایک عبوری حکومت کے بارے میں ایک تجویز دی تھی اس کو زلمے خلیل زاد کی حمایت حاصل ہے۔بعض مبصرین یہ سوال بھی کرتے ہیں کہ کیوں حکومت پاکستان اشرف غنی اور طالبان کے بجائے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو بہتر مانتے ہیں۔ اس کا جوا ب مبصرین یہ دیتے ہیں کہ افغانستان میں طالبان اکیلے حکومت نہیں بنا سکتے۔ اور نا ہی اکیلے حکومت چلا سکتے ہیں پاکستان چاہتا ہے کہ طالبان افغانستان کے کئی قومی رہنماؤں اور قومی گروپوں کو نئے بننے والی حکومت میں شامل کیا جائے اب اگر افغانستان میں شمالی اتحاد کی نئی حکومت بنتی ہے تو موجودہ افغان حکومت کی سکیورٹی ادارے اور پشتون ایک طرف ہوجائیں گے اور اس کی جگہ پر طالبان آئیں گے۔ اور ایک بار پھر 1990 کی طرح صورت حال افغانستان میں پیدا ہوگی۔ اور افغانستان کے اندر عام پشتون بامر مجبوری طالبان حکومت کی حمایت کریں گے کیونکہ اس کے پاس دوسرا راستہ ہی نہیں۔
ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے اسلام آباد کے دورے کے بارے میں دوسرا رائے یہ کہ حکومت پاکستان نے اس لئے ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو اسلام آباد آنے کی دعوت دی تاکہ نئی آنے والی افغان حکومت میں طالبان کو شامل کیا جائے۔ کیونکہ حکومت پاکستان پر دباؤ ہے کہ امریکہ کے منعقد ہونے والے الیکشن سے پہلے افغان مسئلے کا کوئی حل نکالا جائے۔تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنے امریکی عوام کو یہ دکھاسکیں کہ دیکھو میں نے افغان مسئلے کو ایک حد تک حل کرنے کی کوشش کی لہٰذا امریکی عوام کی طرف سے ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دیا جائے۔
اگر چہ اس وقت اسلام آباد اورکابل میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورے کے بارے میں یہ سوال بھی پوچھا جارہا ہے کہ اس دورے کا کس کو فائدہ پہنچا اور اس بارے میں مبصرین کا کہنا کہ سب سے زیادہ فائدہ حکومت پاکستان کو پہنچا کہ آنے والے وقت میں افغانستان کے اندر ایک پاکستان دوست حکومت وجود میں آئے گی۔ حکومت پاکستان نے افغان امن مذاکرات شروع کرنے سے قبل طالبان کو اسلام آباد بلایا اور طالبان کو قطر میں جاری امن مذاکرات میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا۔ اور یہ کردار حکومت پاکستان نے ایک زبردست طریقے سے ادا کیا۔ اور پاکستان کا امن مذاکرات میں ایک فعال کردار ادا کرنے پر امریکہ کی طرف سے بہت کچھ ملیں گے۔ اور نئی آنے والی افغان حکومت پاکستان دوست ہوگی۔ جس سے پاکستان اور افغانستان دونوں کے عوام کوفائدہ پہنچے گا۔ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اسلام آباد کے دورے کے دوران بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔
خود افغان صدر کے نمائندہ خاص محمد عمر داؤدزئی بھی بہت خوش تھے اور انہوں نے اس دورے کو ایک کامیاب دورہ قرار دیا۔ افغانستان میں نئی آنے والی ایک عبوری حکومت کے بارے میں اسلام آباد اور کابل میں سب سے بڑا سوال کیا جارہا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں نئے بننے والی عبوری حکومت افغانستا ن میں چلے گی؟ او رخطے میں انڈیا جس نے افغانستان میں بہت سرمایہ کاری کی ہے انڈیا کا مستقبل کیسے ہوگا۔ کیوں کہ زلمے خلیل زاد افغان مسئلے کے لئے کئی دفعہ انڈیا کا دورہ کرچکے ہیں اس وقت کابل میں انڈیا کے موجود ہ کردار کے بارے میں مبصرین کا کہنا کہ انڈیا طالبان کی نئی افغان عبوری حکومت کی شرکت کے خلاف شمالی افغانستان میں لوگوں کے اندر اسلحہ تقسیم کر رہے ہیں۔
اس سلسلے میں میڈیا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے تعلقات امریکہ انڈیا، ایران، روس، اور چین کے ساتھ بہت اچھے ہیں۔ پاکستان نے ڈاکٹر عبداللہ کے نئے تعلقات اسلام آباد میں اتنے بہتر انداز سے قائم کیے کہ ایک طرف انہیں ایک صدر کی حیثیت سے پروٹوکول دیا گیا اور دوسری طرف ڈاکٹر عبداللہ کا نورخان ائیر بیس پر ایک اچھے طریقے سے والہانہ استقبال کیا گیا۔ اب اگر افغانستا ن میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی سربراہی میں ایک حکومت بنتی ہے تو اس کا سارا کریڈٹ براہ راست حکومت پاکستان کو جاتا ہے۔ جنہوں نے پہلے طالبان کو دس دن کے لئے اسلام آباد بلا کر انہیں قطر میں جاری مذاکرات میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا۔
اور دوسری طرف اس وقت افغانستان کی اہم شخصیت جس کو خود موجودہ افغان حکومت کے صدر اشرف غنی نے بہت زیادہ اختیارات دیے ہیں یہ شخصیت ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ساتھ اسلام آباد میں افغانستان میں امن لانے کے لئے کامیاب مذاکرات کیے۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے موجود ہ کوششیں کہ وہ افغانستا ن میں تمام گروپوں پر مشتمل ایک حکومت بنانے کے لئے کس کے اشارے اور کس قیمت پر کر رہے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حکومت پاکستان افغانستان میں ایک حکومت جس میں تمام گروپ شامل ہوں۔ کے قیام کے لئے جو کوششیں کر رہے ہیں یا کردار ادا کررہے ہیں اس کام کو سرانجام دینے کے لئے اسے امریکہ کی حمایت حاصل ہے۔
جب امریکہ کے اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان کے موجودہ مسئلے کے حل کے لئے کوششیں صرف انتخابی مہم کے لئے ہوں۔ تو پھر امن کی یہ کوششیں کیسے کامیاب ہونگی؟ کیونکہ خود ایک سپر پاور ملک افغان مسئلے کے حل میں مخلص نہ ہو تو پھر افغانستان میں نئی عبوری حکومت مستقبل میں کیسے چلے گی؟ اور اسے کامیابی کیسے حاصل ہوگی؟لیکن ایک بات طے ہے کہ افغانستا ن میں جنگ نہیں رکے گی۔اور اس جنگ میں عام افغانوں کا خون بہتا رہے گا۔ اور امریکی فوجیں بھی افغانستان سے نہیں نکلیں گے۔ اب اگر افغانستان میں نئی حکومت وجود میں آئے گی تو اس افغان حکومت کے خلاف داعش اور دیگر مسلح گروپس کی طرف سے جنگ جاری رہے گی۔