پنجاب کے اندر نئی آوازیں

تحریر: انورساجدی
اس سے قطع نظر کہ میاں نوازشریف کا حالیہ بیانیہ کس حد تک خطرناک ہے آیا اس سے ریاست کے اندر ایک نیا مناقشہ اورتصادم شروع ہوگا جس کے نتائج ایک اور ڈائریکٹ کنٹرول کی صورت میں نکل سکتا ہے یا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے اس کا انحصار میاں صاحب کی قوت ارادی اور دیگرسیاسی قوتوں کے رویہ پر ہوگا غالباً یہ پاکستان کی تاریخ کاپہلا واقعہ ہے کہ پنجاب کے اندر ایک مقبول سیاسی رہنما نے مقتدرہ کواس طرح سے علی الاعلان چیلنج کیا ہے ورنہ تو پنجاب کے سیاسی قائدین نے ہمیشہ آنکھیں بند کرکے مقتدرہ کا ساتھ دیا ہے حتیٰ کہ پارلیمان توڑنے آئین کو روندنے اور نظریہ ضرورت کے غیر انسانی اور غیر حقیقت پسندانہ نظریہ کو بھی پنجاب کے لیڈروں نے ہمیشہ تسلیم کیا1954ء میں ون یونٹ کا قیام ہو1958ء کا مارشل لا ہوبنگال پر یحییٰ خان کی فوج کشی ہو بلوچستان پر لشکر کش ضیاء الحق کے غیر منطقی فرسودہ اور قرون اولیٰ کے نظریات ہوں پنجاب نے ہمیشہ آمروں کاساتھ دیا حتیٰ کہ جب ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی اور جنرل پرویز مشرف نے نواب اکبرخان بگٹی کو شہید کیا تو پنجاب سے اس طرح کی صدائے احتجاج بلند نہیں کیا گیا جو اس ریاست کی وحدت کیلئے ضروری تھا نوازشریف نے پہلی مرتبہ73سالوں کے واقعات سانحات اورالیموں کاکھوج لگانے اور ذمہ داروں کا یقین کرنے کیلئے ایک ٹروتھ کمیشن قائم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔حالانکہ میاں صاحب جانتے ہیں کہ 1985ء سے 2017ء میں اپنی برطرفی تک بہت سارے غیر جمہوری اقدامات میں وہ خود شریک رہے ہیں اگر ٹروتھ کمیشن بنا اور اس کی رپورٹ مرتب ہوگئی تو میاں صاحب کااپناکرداربھی قابل ستائش نہیں ہوگا اس کے باوجود انہوں نے ایک صحیح مطالبہ کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سیاہ ماضی کوترک کرچکے ہیں 1977ء کے مارشل لاء کی حمایت 1983ء میں پنجاب حکومت میں شمولیت 1985ء میں وزیراعلیٰ بننے 1988ء میں جونیجو کی برطرفی میں ضیاء الحق کا ساتھ دینے1990ء میں آئی جی آئی بناکر محترمہ کی حکومت کوہٹانے کی کوشش ان تمام واقعات پرمیاں صاحب معافی مانگنے اورحقیقت تسلیم کرنے پر راضی نظرآتے ہیں ان کی طرف سے حقیقی جمہوریت کے قیام آئین اور پارلیمان کی بالادستی کاجو موقف اپنایا گیا ہے وہ کوئی معمولی قدم نہیں ہے کہاں 1950ء اور1960ء کی دہائی میں صوبوں کا نام لینا اور صوبائی خودمختاری کی بات کرنے کوغداری تصور کیاجاتا تھا اور کہاں آج پنجاب کے اندر سے اس طرح کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔1960ء کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی کے لیڈر میرغوث بخش بزنجو نے ایک کرنسی نوٹ پر لکھا تھا ”ون یونٹ توڑ دو“ اس عمل کو جرم قرار دے کر میرصاحب کی طویل قید کی سزاسنائی گئی تھی۔
اگرچہ بھٹو صاحب نے1973ء کا آئین بناکر صوبوں کواختیارات دیئے لیکن انہوں نے بھی نیپ کے قائدین پرغداری کے مقدمات بناکر ان پر حیدرآباد جیل میں مقدمہ چلایا تھا میاں صاحب کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے18ویں ترمیم کی منظوری میں آصف علی زرداری کا ساتھ دیا جس کے نتیجے میں صوبوں کوکامل اختیارات ملے یہ الگ بات کہ مرکز اور مقتدرہ نے مل کراسے تسلیم نہیں کیا زرداری نے نیا این ایف سی ایوارڈ جاری کرکے صوبوں کے وسائل بڑھائے لیکن صوبوں میں یہ صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ان وسائل کواپنے عوام کی حالت بہتر بنانے پر خرچ کرسکیں چلیں آج نہ سہی کل صوبے ضروری کامل خودمختاری اور اپنے وسائل کو عوام پرخرچ کرنے کی صلاحیت حاصل کرلیں گے بنیادی سوال یہ ہے کہ پارلیمانی نظام کو چلنے دیا جائے اور صوبوں کو ڈائریکٹ کنٹرول کرنے کا سلسلہ ترک کیاجائے بدقسمتی سے مرکزیہ سمجھتا ہے کہ صوبے مضبوط ہوئے تو مرکز کمزور ہوجائیگا۔حالانکہ 50سالوں تک صرف مضبوط مرکز رہا لیکن اس کے باوجود قوموں کی برادری میں ریاست اتنا پیچھے کیوں چلی گئی آج پاکستان کا شمار پسماندہ ترین ممالک میں ہوتا ہے ہیومن ڈیولپمنٹ کے انڈیکس میں یہ چند آخری غریب ممالک کی فہرست میں شامل ہے پاکستان وسائل کے اعتبار سے دنیا کا20واں بڑا ملک ہے لیکن آج یہ گندم،چینی،کپاس اور دالیں درآمد کرنے پر مجبور ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکمرانوں کی پالیسیاں ناقص ثابت ہوئی ہیں لہٰذا اصل مرض کیا ہے؟اس کا کھوج لگانے اورصحیح علاج شروع کرنے کی ضرورت ہے۔میاں نوازشریف کا بظاہر یہی کہنا ہے کہ وہ ناقص پالیسیوں اور نظام کو صحیح کرنے کیلئے ایک ملک گیر تحریک شروع کررہے ہیں لیکن خدشہ ہے کہ اس تحریک کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں آجائیں گی سب سے بڑی رکاوٹ خود ان کی جماعت مسلم لیگ ن میں پیدا شدہ انتشار ہے پارٹی کے وہ اراکین اسمبلی جو ہمیشہ طاقت اور اقتدار کے ساتھ رہنے کے عادی ہیں وہ جلد داغ مفارقت دینا شروع کردیں گے پنجاب اسمبلی کے پانچ اراکین پہلے ہی حکمران جماعت سے مل چکے ہیں کم از کم ایک تہائی ارکان پرواز کیلئے تیار ہیں اسی طرح قومی اسمبلی کے20فیصد اراکین بھی ساتھ چھوڑدیں گے ایک اور رکاوٹ نئے اپوزیشن اتحاد میں اعتماد کابحران ہے کیونکہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے یہ جو خواجہ سیالوکٹی نے آصف علی زرداری کے بارے میں بیان دیا ہے یہ انہوں نے زرداری کے دست راست انکے قابل اعتبار وکیل فاروق ایچ نائیک کے کہنے پر دیا ہے جو خواجہ سیالکوٹی کے برادرنسبتی ہیں اس کا مقصد ایسے حالات پیدا کرنے ہیں کہ پیپلزپارٹی کو بہانہ ملے کہ وہ خود کوتحریک سے دور رکھے اگرچہ میاں نوازشریف نے اس بیان کی وضاحت کی ہے اور خواجہ سیالکوٹی نے معذرت بھی کی ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ شائد بلاول کوئٹہ جلسہ میں شرکت نہ کریں انکی جگہ پارٹی کے کسی اور لیڈر کو بھیج دیا جائیگا۔امکانی طور پر مرکزی حکمرانوں نے زرداری اور مولانا سے درپردہ رابطے شروع کردیئے ہیں تاکہ انکو تحریک کاحصہ بننے سے روکا جاسکے مولانا تو بات نہیں مانیں گے لیکن زرداری کا کوئی اعتبار نہیں اگرانہیں سندھ حکومت برقراررکھنے اور مقدمات میں ریلیف دینے کی یقین دہائی کروائی گئی تو پکی بات ہے کہ وہ تحریک کا اس طرح ساتھ نہیں دیں گے جس طرح ساتھ دینا چاہئے یا عمران خان کی حکومت گرانے کی حد تک نہیں جائیں گے حساب کتاب کے مطابق اگرعمران خان کی حکومت قبل از وقت گرگئی تو سارا فائدہ ن لیگ کو جائیگا پیپلزپارٹی کو سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے اگر عام انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی کو زیادہ سے زیادہ سندھ حکومت دوبارہ مل سکتی ہے یا اسکی قومی اسمبلی کی نشستوں میں کچھ اضافہ ہوجائیگا وہ اس پوزیشن میں نہیں ہوگی کہ مرکز میں حکومت بناسکے۔عمران خان حکومت قائم رہنے کا پیپلزپارٹی کو سب سے زیادہ نقصان سینیٹ الیکشن میں ہوگا کیونکہ مارچ میں ہونیوالے الیکشن میں پیپلزپارٹی اپنی اکثریت کھوسکتی ہے۔
لہٰذازرداری اتنے اناڑی یا کچھے کھلاڑی نہیں کہ وہ عمران خان کو گراکر یا مقتدرہ کو ناراض کرکے نوازشریف کے برسراقتدار آنے کیلئے راہ ہموار کریں وہ ایسا کھیل کھیلیں گے کہ آئندہ انتخابات میں انہیں پنجاب سے آبرومندانہ نشستیں حاصل ہوجائیں تاکہ سندھ کو ملاکر وہ سینیٹ میں اپنی موجودہ نشستیں برقراررکھ سکے اورایسے حالات پیدا کریں کہ مرکز میں پیپلزپارٹی کے بغیر کوئی کامیاب مخلوط حکومت نہ بن سکے۔
دل ہی دل میں زرداری خوش ہیں کہ ن لیگ مقتدرہ سے ٹکرلے اور دونوں ادھ موا ہوکر بیٹھ جائیں تاکہ انہیں زیادہ سے زیادہ فائدہ مل سکے یہ بات تو طے ہے کہ مقتدرہ ایک وقت میں تمام سیاسی قوتوں کے ساتھ لڑائی نہیں لڑے گی اسے کچھ طاقتوں کو ساتھ ملانا پڑے گا اور سب سے موذوں طاقت زرداری اور پیپلزپارٹی ہیں اگر پی ڈی ایم ایسی تحریک نہ چلا سکی کہ حکومت رخصت ہوجائے تو ساری سیاسی جماعتیں سراسر نقصان میں رہیں گی اور سب سے زیادہ نقصان ن لیگ کو ہوگا اس صورت میں نوازشریف کو اکیلے سردھڑ کی بازی لگاکر سارے نظام کوبدلنے کی تحریک چلانا پڑے گی کیونکہ نوازشریف کے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچے گا ویسے بھی حکمران اندر سے تقسیم ہیں اور نوازشریف اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔