آخر کب تک

تحریر: انور ساجدی
یہ بات نہایت اطمینان بخش ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غداری کا الزام پشتونخوا بلوچستان اور سندھ سے سفر کرتے ہوئے پنجاب کی طرف نکل گیا ہے غداری کا یہ نسخہ سب سے پہلے اس شخصیت کے خلاف استعمال کیا گیا جو آل انڈیا مسلم لیگ کے بانیوں میں سے تھے وہ 1913 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بنے شاید یہ حیرانی کی بات ہو کہ ہندوستان کے پہلے وزیراعظم اور عظیم سیاستدان جوہر لال نہرو کئی سال تک ان کے پولیٹیکل سیکریٹری رہے 1937 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد وہ متحدہ بنگال کے وزیر اعظم منتخب ہوئے 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں مسلم لیگ کا جو اجتماع ہوا اس میں محمد علی جناح نے مولوی صاحب سے کہا کہ وہ قرار داد لاہور پیش کریں چنانچہ یہ اعزاز بھی ان کو حاصل ہوا اس قرار داد کو 1946 میں قرار داد پاکستان کا نام دیا گیا حالانکہ اس میں ہندوستان کی مسلم اکثریتی علاقوں کیلئے خود مختاری کا مطالبہ کیا گیا تھا 1954کو ہونے والے انتخابات میں مولوی صاحب نے جگتوفرنٹ بنا کر حصہ لیا اور مشرقی پاکستان اسمبلی کی 310 میں 301 نشستوں پر کامیابی حاصل کرلی ان کے فرنٹ نے مغربی پاکستان کے اہم نمائندوں خواجہ ناظم الدین نورالامین سمیت مسلم لیگ کے اہم رہنماؤں کو شکست سے دو چار کردیا تھا مغربی پاکستان کی مقتدرہ کو یہ قبول نہ تھا چنانچہ دو ماہ بعد مولوی اے اے کے فضل الحق کو نہ صرف وزارت اعلیٰ سے برطرف کردیا گیا بلکہ ان پر غداری کا الزام بھی عائد کردیا گیا ان کی جگہ جدی پشتی غدار میر جعفر کے پڑپوتے سکندرمرزا کو دھونس دھاندلی کے ذریعے وزیر اعلیٰ بنایا گیا بنگال کے عظیم رہنما اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مغربی بنگال میں ایک تقریر کی جس میں تقسیم بنگال کو ہدف بنایا گیا دوسرا الزام یہ تھا کہ اردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے بہت جلد یہ مقدمہ داخل دفتر ہوگیا اور 1955 کو مولوی صاحب کو پاکستان کا وزیرداخلہ مقرر کیا گیا 1956 میں انہیں مشرقی پاکستان کا گورنر بنایا گیا تاہم 1958 میں مارشل لاء کے نفاذ کے بعد انہیں نظر بند کردیا گیا اور وہ چار سال تک اذیت سہنے کے بعد ڈھاکہ میں انتقال کرگئے۔
مولوی صاحب کو شیر بنگال کا لقب بھی ملا تھا ان کے بغیر تحریک پاکستان کی کامیابی ناممکن تھی لیکن مغربی پاکستان کی مقتدرہ نے سازش کرکے پاکستان کی سمت تبدیل کردی جو آج تک جاری و ساری ہے۔
ایوب خان جو کہ ریحانہ ہری پور کے ہند کو بولنے والے تھے ان کی بنیادی تعلیم ایف اے تھی جبکہ انگلستان کے سینڈہرسٹ فوجی کالج سے انہوں نے ایک کورس کیا تھا وہ پنجابی اشرافیہ کے ہاتھ لگ گئے ان کے دور میں ”نظریہ پاکستان“ ایجاد کیا گیا اور اسے بطور ہتھیار استعمال کیا گیا یہ نظریہ ایوب خان کے دو خصوصی معاونین الطاف گوہر اور قدرت شہاب نے تخلیق کیا تھا جبکہ مسلم لیگ کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں کیلئے ایک ملک بنایا جائے جب یہ ملک بن گیا تو وہ نظریہ مکمل ہوگیا اس کے بعد اس نظریہ کی ضرورت باقی نہ رہی لیکن بدقسمتی سے آج تک اس نظریہ کو چلایا جارہا ہے جو کہ اصل میں نظریہ ضرورت ہے۔
1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نیپکے قائدین پر ملک دشمنی کے دیگرالزامات کے علاوہ ایک الزام یہ تھا کہ وہ نظریہ پاکستان کے مخالف ہیں حیدر آباد ٹریبونل میں جب غداری کا یہ مقدم چلنا شروع ہوا تو ٹریبونل کے ایک جج نے فرد جرم عائد کرتے ہوئے میر غوث بخش بزنجو سے کہا کہ آپ نظریہ پاکستان کے مخالف ہیں اس پر میر صاحب نے جج سے سوال کیا کہ ذرا آپ فرمایئے کہ یہ نظریہ ہے کیا؟ تو جج صاحب نے کہا کہ یہ تو مجھے بھی پتہ نہیں ہے اس طرح حیدر آباد سازش کیس ایک مذاق بن کر رہ گیا۔
مملکت خداداد میں بغاوت کا پہلا کیس راولپنڈی سازش کیس تھا جس میں فوجی افسران کے علاوہ شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض بھی شامل تھے انہوں نے قید تو بھگتی لیکن غداری اور بغاوت کا یہ مقدم اپنی موت آپ مرگیا۔
متحدہ بنگال کے ایک اور وزیر اعظم جو کہ کچھ عرصہ کیلئے پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے تھے حسین شہید سہروردی کو بھی مغربی پاکستان کی مقتدرہ نے غدار قرار دیا تھا تاہم غداری کا سب سے بڑا مقدمہ عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے خلاف قائم کیا گیا جو تاریخ کے صفحات میں اگر تلہ سازش کیس کے نام سے درج ہے شیخ مجیب نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے کیا تھا تاہم اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے اور بنگالی کو نظر انداز کرنے پر وہ مایوس ہوگئے انہوں نے 1954 میں جگتو فرنٹ کے پلیٹ فارم میں مشرقی پاکستان اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوگئے جب مولوی فضل الحق کی حکومت برطرف کردی گئی تو ان کی مایوسی مزید بڑھ گئی شیخ مجیب نے فروری 1966 میں لاہور کے مقام پر اپنے مشہور چھ نکات پیش کئے جن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ 1940 کی قرار داد کے مطابق پارلیمانی نظام قائم کیا جائے اور ملک میں پارلیمنٹ کو سپریم ادارہ تسلیم کیا جائے دفاع اور خارجہ امور کے سوا تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کئے جائیں دونوں صوبوں کی الگ الگ کرنسی رائج کی جائے مشرقی پاکستان کے زر مبادلہ کو مغربی پاکستان نہ لایا جائے واضح رہے کہ اس زمانہ میں زرمبادلہ کا واحد ذریعہ پٹ سن تھی جو مشرقی پاکستان میں پیدا ہوتی تھی 6 نکات میں یہ بھی شامل تھا کہ ٹیکس لگانے کا اختیار صوبوں کو دیا جائے مشرقی پاکستان کی الگ پیرا ملٹری فورس قائم کی جائے 22 فروری 1966 کو عوامی لیگ کی مرکزی کمیٹی نے ان نکات کی منظوری دیدی مئی 1966 کو ایوب حکومت نے ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت شیخ مجیب الرحمن کو گرفتار کرلیا دسمبر 1967 کو حکومت نے اعلان کیا کہ اگر تلہ سازش پکڑی گئی ہے جس کے سرغنہ شیخ مجیب ہیں ان کے ساتھ 35 افراد کو بھی گرفتار کرلیا گیا جن میں نیوی کے افسران بھی شامل تھے 19 جون 1968 سے ڈھاکہ کی کھلی عدالت میں مقدمہ کی باقاعدہ کارروائی شروع ہوگئی حکومت نے سینکڑوں گواہان کی فہرست پیش کردی جبکہ 11 سلطانی گواہ بھی پیش کئے گئے جوں جوں مقدمہ آگے بڑھتا گیا گواہان منحرف ہوتے رہے خود شیخ مجیب الرحمن نے اس بات کی تردید کی کہ وہ مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے انہوں نے کہا کہ ایوب خان نے 6 نکات سے گھبراکر غداری کا مقدمہ قائم کیا ہے انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان کو توڑنا نہیں چاہتے بلکہ ایک صحیح فیڈریشن بنانا چاہتے ہیں تاکہ یہ ملک آئین اور پارلیمانی سپرمیسی کے تحت قائم رہے ابھی یہ مقدمہ پائیہ تکمیل تک نہیں پہنچا تھا کہ ملک میں طلباء کی تحریک شروع ہوگئی کچھ عرصہ بعد سیاسی رہنما بھی اس میں کود پڑے جن میں ذوالفقار علی بھٹو جو کہ ایوب خان کے وزیر خارجہ رہے تھے اور ایئر مارشل اصغر خان جو کہ ایوب خان کے دور میں ایئر فورس چیف تھے خاص طور پر نمایاں تھے تحریک سے گھبراکر ایوب خان نے راولپنڈی میں کل جماعتی کانفرنس بلائی اور اعلان کیا کہ وہ 1969 کے صدارتی انتخاب میں امیدوار نہیں ہونگے22 فروری 1969 کو حکومت نے اگر تلہ کیس واپس لے لیا اور شیخ مجیب ایک آزاد شہری کی حیثیت سے ڈھاکہ گئے ایوب خان کے بعد آرمی چیف یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالا انہوں نے دسمبر 1970 میں عام انتخابات کروائے جن میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 جیت لیں جبکہ مغربی پاکستان کی 138 میں سے 80نشستیں بھٹو کو ملیں لیکن یحییٰ خان نے اکثریتی جماعت کو اقتدار منتقل نہیں کیا انہوں نے 23 مارچ کو ڈھاکہ میں قومی اسمبلی کا افتتاحی اجلاس طلب کیا تھا لیکن اس کی جگہ فوجی آپریشن شروع کردیا گیا اور شیخ مجیب کو گرفتار کرکے مغربی پاکستان منتقل کردیا چنانچہ انتخابات کے ایک سال بعد 16 دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ وقوع پذیر ہوا اگر یہ کہا جائے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا خیال جنرل ایوب خان نے پیش کیا تھا تو بے جا نہ ہوگا انہوں نے اگر تلہ سازش کیس بناکر مشرقی پاکستان کے عوام کے ذہنوں میں ڈال دیا کہ ان کی آزادی ممکن ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
موجودہ دور میں جبکہ نواز شریف ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں موجودہ حکومت نے ان پر غداری کا الزام عائد کیا ہے اور انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے اپنے دور میں کھٹمنڈو میں نریندر مودی سے خفیہ ملاقات کی تھی جبکہ حال ہی میں انہوں نے لندن میں دو بھارتی سفارت کاروں سے خفیہ ملاقات کی ہے شکر ہے کہ نواز شریف کا تعلق پنجاب سے ہے جو پاکستانی مقتدرہ کا مرکز ہے ان کے خلاف مقدمہ کے اندراج میں تاخیر اس لئے ہورہی ہے کہ حکومت خوفزدہ ہے کیونکہ پنجاب کے عوام اس کے خلاف سخت ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں جس طرح غداری کے باقی مقدمات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھااگر نواز شریف کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے تو اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ نواز شریف کے خلاف کوئی مقدمہ بنتا نہیں ہے حکومتی وزیر اور مشیر قائد ن لیگ کو کاؤنٹر کرنے کیلئے بے تکے الزامات لگا رہے ہیں ویسے تو اس بات کی ضرورت عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی کہ سندھ کے ایک وزیراعظم کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا پنجاب سے بھی کسی کو قربانی کا بکرا بنایا جائے تو حساب برار ہوجائے گا لیکن ایسا ممکن نہیں ہے بدقسمتی سے پاکستان کو ایک من گھڑت اور جعلی نظریہ کے تخت چلایا جارہا ہے آئین موجود ہے لیکن اس کی حرمت نہیں ہے پارلیمان قائم ہے لیکن اس کی بالادستی تسلیم نہیں کی جارہی ہے نواز شریف نے تو یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر کب تک آپ ملک کو آمرانہ طریقہ سے چلائیں گے؟یہ سوال کہاں غداری کے زمرہ میں آتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ حکومت کی شدید ناکامی کے بعد نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے تاکہ عوام اپنا فیصلہ خود کرسکیں یہ پتلی تماشہ کب تک چلتا رہے گا؟یہاں پر آصف علی زرداری کو داد دینا چاہئے کہ انہوں نے 18 ویں ترمیم بناکر شیخ مجیب کے 6 میں سے چار نکات نافذ کردیئے یہی بات ناگوار گزرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں