علامہ اشرفی۔صوبائی جزائر

تحریر: انور ساجدی
مولانا علامہ طاہر اشرفی کو کون نہیں جانتا وہ عالم دین کتنے ہیں یہ تو علمائے کرام ہی جانتے ہیں لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ دین اور دنیا میں توازن قائم رکھنے کے ماہر ہیں وزیرعظم عمران خان نے حال ہی میں انہیں اپنا مشیر نامزد کیا ہے جو ان کی کابینہ میں انتہائی بھاری بھرکم اضافہ ہے علامہ کی تقرری ان کے سعودی عرب کے یاترا کے بعد ہوئی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم بذریعہ علامہ صاحب اپنے ناخوشگوار تعلقات سعودی عرب کے ساتھ ٹھیک کرنا چاہتے ہیں غالباً یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سعودی حکمران نے ایک بریلوی مکتبہ فکر کے علامہ پر دستشفقت رکھا ہے ورنہ اس سے پہلے سعودی بادشاہوں کی مہمان نوازی اور فیاضی سے صرف سلفی مسلک کے لوگ ہی مستفید ہوتے تھے اب چونکہ سعودی ولی عہد نے امریکہ کی ہدایت پر وہابی مسلک ترک کردیا ہے۔اس لئے اس مسلک کے لوگ اتنے اہم نہیں رہے ورنہ علامہ طاہر اشرفی کی جگہ پروفیسر ساجد میر اور علامہ ابتسام الٰہی ظہیر ہی وہاں جاتے اور شاہی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے اس ضمن میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکام بالا نے بھی سلفی مسلک اور مکتبہ دیوبند سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے اس کا پہلا ثبوت اس وقت ملا تھا جب شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم تھے اور علامہ خادم رضوی نے دھرنا دے کر فیض آباد انٹر چینج بند کردیا تھا۔
علامہ رضوی صاحب نے دھرنے کے دوران اپنے دو آتشی خطاب میں حکومت کیلئے جو القابات استعمال کرتے تھے اس سے ان کی بہادری ظاہر ہورہی تھی یہ دھرنا بھی حکام بالا نے ختم کروایا تھا اورشرکاء میں زادراہ بھی تقسیم کیا تھا اسی دوران میلاد کی کئی محافل کے انعقاد سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ چل کر بریلوی مکتبہ فکر سے کام لینا ہے اس کے اسباب و عوامل تو عام لوگ نہیں جانتے لیکن اتنا ضرور پتہ ہے کہ ضیاء الحق نے افغانستان میں امریکی ڈالروں کے ذریعے جو جہاد لڑا تھا اس میں دیوبندی درس گاہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کا بہت بڑا کردار تھا ان کی افرادی قوت کے بغیر یہ جہاد لڑنا ناممکن تھا اس زمانے میں جہادی مولانا سمیع الحق کو اپنا روحانی استاد کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے تھے نہ صرف یہ بلکہ جہاد اور خانہ جنگی سے افغانستان کی تاراجی کے بعد جب امریکہ کو قیام امن کیلئے طالبان کی ضرورت پڑی تو مولانا صاحب نے فراخدلی کے ساتھ اپنے شاگردوں کے مسلح جتھے افغانستان روانہ کردیئے تھے یہ جتھے بینظیر کے وزیر داخلہ مرحوم جنرل نصیر اللہ بابر کی نگرانی میں قندھار اور جلال آباد گئے تھے اور انہوں نے ایک سال سے کم عرصے میں پورے افغانستان کو فتح کرلیا تھا کابل کی فتح کے بعد لاہور کے لوگ پھولے نہیں سماتے تھے کہ رنجیت سنگھ کے بعد انہوں نے ایک بار پھر افغانستان پر فتح کے جھنڈے گاڑھ دیئے ہیں جنرل ضیاء الحق نے تو علماء کی ایک بڑی تعداد کو اپنی کابینہ میں بھی شامل کیا تھا تاہم جنرل پرویز مشرف نے تو ایل ایف او کی منظوری کے بدلے میں دو حساس صوبے پشتونخوا اور بلوچستان علمائے کرام کے حوالے کردیئے تھے اس زمانے میں ایم ایم اے کا مطلب ”ملا ملٹری الائنس“ سمجھا جاتا تھا۔
طالبان کے زوال اور سعودی عرب میں تبدیلیوں کے بعد ایم ایم اے منتشر ہوگیا جماعت اسلامی کہیں کی نہ رہی جبکہ الائنس کے دیگر ستارے ہمیشہ کیلئے ڈوب گئے معلوم نہیں کہ دیوبندی مکتبہ فکر کو چھوڑ کر بریلوی مکتبہ فکر کو کیوں ساتھ لیا گیا ہے طاہر اشرفی ایک متنوع مزاج کی شخصیت ہیں زرداری کے دور میں ان سے اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں سید ممتاز شاہ کے کمرے میں ملاقات ہوئی اس زمانے میں مولانا صاحب کو شوگر کی بیماری نہیں لگی تھی اس لئے وزن 150 کے جی سے زیادہ تھا وہ کرسی کے سامنے ایک اسٹول رکھتے تھے خودکرسی پر براجمان ہوتے تھے جبکہ ان کی توند شریف اسٹول پر محو استرامت ہوتی تھی۔
جو لوگ سید ممتاز شاہ کو جانتے ہیں وہ ان کی محفلوں سے بھی ضرور واقف ہونگے اس میں صرف رند شریک ہوتے ہیں عام لوگ نہیں جاسکتے رندوں کی اس محفل کے روح رواں طاہر اشرفی تھے البتہ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے صحافیعبدالقادر حسن مقابلہ کی کوشش کرتے تھے لیکن کہاں علامہ صاحب اور کہاں عبدالقادر حسن اب جبکہ مکتبہ دیوبند کے چمکتے ہوئے ستارے مولانا فضل الرحمن نے عمرانی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے تو بریلوی مکتبہ فکر کی ضرورت دوچندہوگئی ہے اگر حنیف طیب 92 سال کے نہ ہوتے تو انہیں بھی پاور کاریڈور میں شامل کیا جاتا لیکن پیرانہ سالی کی وجہ سے وہ کوئی فعال کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں چنانچہ علامہ اشرفی اور خادم رضوی سے کام چلایا جارہا ہے اگرمولانا فضل الرحمن باز نہ آئے تو خادم رضوی کو میدان میں اتارا جاسکتا ہے سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا اور حکام بالا کے آخری مذاکرات کیوں ناکام ہوئے اس سلسلے میں تحقیق کی ضرورت ہے اگر مولانا سے کہا گیا تھا کہ وہ نواز شریف کے ساتھ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ راستے سے ہٹ جائیں سوال یہ ہے کہ پاور شیئرنگ کی بجائے مولانا نواز شریف کے سامنے ڈھال یا دیوار بن کر کیوں کھڑے ہوئے ہیں حالانکہ لانگ مارچ اور دھرنے کے دوران ن لیگ نے انہیں بہت بڑا دھوکہ دیا تھا کھوج لگانے ضرورت ہے کہ مولانا اور نواز شریف کی قربت کی اصل وجہ کیا ہے یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ عمران خان کی مخالفت دونوں میں قدر مشترکہ ہے لیکن کامیابی کے بعد شراکت اقتدار کا بھی کوئی فارمولہ یا معاہدہ طے پایا ہے؟ یا اس معاہدے کا اس وقت ڈرافٹ تیار کیا جارہا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اپوزیشن عمران خان کا تختہ الٹ کر نئے انتخابات چاہتی ہے لیکن نئے انتخابات پیپلزپارٹی کے حق میں نہیں ہیں اس لئے شک ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک سے پہلے یا تحریک کے دوران زرداری ساتھ چھوڑ سکتے ہیں کیونکہ نئے انتخابات کی صورت میں پیپلزپارٹی زیادہ سے زیادہ سندھ حکومت دوبارہ حاصل کرسکے گی یا قومی اسمبلی میں اس کی نشستوں کی تعداد میں کچھ اضافہ ہوسکتا ہے جبکہ نئے انتخابات صرف ن لیگ اور مولانا کیلئے سود مند ثابت ہونگے اگر آئندہ چند ماہ کے دوران انتخابات کا انعقاد ہو اتو تحریک انصاف سکڑ کر ق لیگ کے برابر آجائے گی پنجاب کی 60 فیصد نشستیں ن لیگ کے حصے میں آئیں گی اسی طرح کے پی کے اور بلوچستان میں جے یو آئی کا کافی فائدہ ہوگا اور اس کے بغیر دو صوبوں میں کوئی بھی مخلوط حکومت نہیں بن پائے گی تیسری جماعت جس کو فائدہ پہنچے گا وہ اے این پی ہے سب سے زیادہ نقصان میں ق لیگ اور بلوچستان کی باپ پارٹی رہے گی ق لیگ کے تو معدوم ہو جانے کا خطرہ ہے لیکن عام انتخاب تک پہنچنے کیلئے بہت کچھ ہونا باقی ہے عمران خان اپنے ساتھیوں اور سرپرستوں کے ساتھ مل کر اپوزیشن کی تحریک کو ناکام بنانے کیلئے آخری حد تک جائیں گے وہ ن لیگ کی پوری قیادت کو جیلوں میں ڈال دیں گے تاکہ پنجاب میں عوام کچھ سڑکوں پر لانے والا کوئی نہ ہو اس مقصد کیلئے ان کی نظرمریم نواز پر ہوگی کیونکہ وہی پنجاب کے عوام کو سڑکوں پر لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں اگر زرداری کے اندرون خانہ کوئی ڈیل نہ ہوئی تو دوسرے نمبر پر بلاول کی گرفتاری کا خطرہ ہے کیونکہ بلاول سارے پاکستان خاص طور پر سندھ کے عوام کو سڑکوں پر لانے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں حکومت کو پورا موقع دیا جائے گا کہ وہ عوامی تحریک کو ناکام بنائے اس کے باوجود اگر لوگ سڑکوں پر آگئے تو ساتھی اور سرپرست عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور وہ یکہ و تنہا رہ جائیں گے پیپلز پارٹی کی پوری کوشش ہوگی کہ ان ہاؤس تبدیلی آجائے تاکہ ان کی سندھ حکومت قائم رہے اور سینیٹ میں اپنی طاقت برقرار رکھ سکیں اسی لئے وہ موقع پاکر جل دے سکتی ہے تاہم اس مرتبہ وہ مولانا کے ہاتھ پوری طرح بیعت کرچکے ہیں اور اس بار انہیں دھوکہ دینا مہنگا پڑسکتا ہے ایک بات لوگوں کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے کہ ن لیگ جو 1988 سے ابتک پسندیدہ جماعت تھی اس سے ایسی کونسی غلطی سرزد ہوگئی جو وہ قابل گردن زدنی ٹھہری حالانکہ جو باتیں ن لیگ اس وقت کررہی ہے وہ اپوزیشن میں رہ کر عمران خان نے بھی کی تھی پھر کیا وہ ہے کہ ان پر مہربانیاں اور ن لیگ کے ساتھ حشرسا مانیاں۔
عمران خان کو یہ فضیلت ضرور حاصل ہے کہ حکام بالا جو فیصلہ کریں وہ اعتراض نہیں کرتے مثال کے طور پر سندھ کے دو جزیرے ہر قیمت پر وفاق کو چاہئے کیونکہ سمجھا جارہا ہے کہ ان جزیروں پر سی پیک جتنی عالمی سرمایہ کاری آئے گی جس کے بغیر اداروں کا گزارہ مشکل ہے حکومت نے ان جزیروں کو قبضہ کرنے میں ایک منٹ کی تاخیر بھی نہیں کی حالانکہ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ طے نہیں ہے کہ سمندری جزائر کی ملکیت وفاق کی ہوگی یا صوبوں کی اگر یہی عمل بلوچستان میں اپنایا گیا تو وہاں پر کوئی جگہ نہیں بچے گی کیونکہ پوری ساحلی پٹی کو جزائر قرار دے کر اس پر قبضہ کرنا بہت آسان ہے وہاں کی صوبائی سرکار میں اتنا حوصلہ کہاں کہ وہ اس کی مخالفت کرے ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت صوبائی خود مختاری کو نہیں مانتی اگر اس کے ہاتھ مضبوط ہوگئے تو وہ ضرور پارلیمانی نظام کو بدلنے کی کوشش کرے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں