ن لیگ کیلئے آزمائش

تحریر: انور ساجدی
کنٹرول پاکستانی سیاست ایک بار پھر سمت کھوبیٹھی ہے جو لوگ شریک اقتدار نہیں ہیں وہ اکٹھے ہوکر عمرانی حکومت کو گھر بھیجنا چاہتے ہیں تاکہ ان کیلئے مستقبل قریب میں اقتدار کے مواقع پیدا ہوجائیں بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں لفظ اقتدار استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ آج تک کسی سیاستدان کو اقتدار اور اختیار منتقل نہیں ہوا۔
جنرل پرویز مشرف ایک لحاظ سے صاف گو آدمی تھے کئی مرتبہ کہا کہ پاکستان میں مغربی جمہوریت رائج نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ ایک اسلامی ملک ہے اسلام کی حدودوقیود کے اندر جو نظام قائم ہے آپ اسے جمہوری کہہ سکتے ہیں اس انوکھے نظام کی بنیاد فیلڈ مارشل ایوب خان نے ڈالی تھی انہوں نے ہی طے کیا تھا کہ اقتدار سیاست اور معیشت پر یک طرفہ قبضہ ہمیشہ جاری رہے گا اپنے وقت کے سیاستدانوں کو انہوں نے آمرانہ قانون ایبڈو کے ذریعے پابندی عائد کردی تھی 1972 سے 1977 تک بھٹو نے تبدیلی لانے کی کوشش کی ملک کا پہلا متفقہ آئین بھی بنایا اس میں آئین شکنی کی سزا سنگین غداری رکھی لیکن دفعہ 6 آئین اور پارلیمانی نظام نہ آئین کا تحفظ کرسکا اور نہ ہی اپنے خالق کو کو بچاسکا آئین کے نفاذ کے چار سال بعد جنرل ضیاء الحق نے اسے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا اور گیارہ سال تک بلاشرکت غیرے حکمرانی کی انہیں 1985 میں مجبوراً آئین بحال کرنا پڑا لیکن انہوں نے خود اپنے مقرر کردہ وزیراعظم کو برطرف اور آئین کو معطل کردیا انہوں نے پہلے آئین کا حلیہ بگاڑ کررکھا اس کے بعد اسے بحال کیا صدر کو حکومتوں اور پارلیمنٹ کو برطرفی کا اختیار دیا اور عوامی نمائندگی کیلئے دفعہ 62 اور 63 کو مستقل طور پر آئین کا حصہ بنایا صدارتی اختیار کے تحت صدر غلام اسحق خان نے دو اور فاروق لغاری نے اپنی ہی حکومت کو برطرف کردیا۔
جب صدر زرداری آئے تو انہوں نے خاموشی کے ساتھ 18 ویں ترمیم بنائی لیکن میاں صاحب نے ضد کرکے دفعہ 62 اور 63 نکلنے نہ دیا پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ خود میاں صاحب اس کی زد میں آکر تاحیات نااہل اور قید کی سزا کے مستحق ٹھہرے زرداری نے حکومت بنائی لیکن انہیں اقتدار منتقل نہیں کیا گیا حتیٰ کہ ریاست کے صدر مملکت کو غدار قرار دے کر ان کے خلاف میمو اسکینڈل کھڑا کیا گیا نواز شریف میثاق جمہوریت کی دھجیاں بکھیر کر زرداری کے خلاف مدعی بن گئے اس ناقابل فراموش خدمت کے عوض 2013 کے انتخابات میں انہیں وزیراعظم بنایا گیا لیکن اقتدار نہیں سونپا گیا ان کے مقابلے میں سابق کرکٹ کپتان اور سابق پلے بوائے عمران خان کو اسلامی چوغہ پہنا کر کھڑا کیا گیا ان کے راستے کے کانٹے دور کرنے کیلئے پانامہ اسکینڈل سامنے لایا گیا جس کے تحت نواز شریف کو ذلیل و خوار کرکے اقتدار سے باہر نکالا گیا 2018 کے انتخابات میں کوشش بسیارکے باوجود عمران خان اکثریت حاصل نہ کرسکے لیکن زبردستی ان کی اکثریت بنائی گئی اور انہیں وزیراعظم بنایا گیا۔
عمران خان بھی نواز شریف کی طرح یہ سمجھوتہ کرکے آئے تھے کہ وہ فارن پالیسی کو ہاتھ نہیں لگائیں گے داخلی اور خارجہ سیکورٹی ان کا مسئلہ نہیں ہوگا کشمیر پر جو بیانیہ طے کیا جائے گا وہ اس پر من و عن عمل کریں گے بلکہ حکومت چلانے کی جو پالیسی طے کی جائے گی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا بس انہیں پانچ سال کیلئے وزیراعظم رہنے دیا جائے چنانچہ آج جو ملکی حالات ہیں ایک بے اختیاروزیراعظم کے دور میں اس سے زیادہ کیا توقع کی جاسکتی ہے اب جبکہ حکومت کو سوادو سال پورے ہوچکے ہیں اور تاریخ کی بدترین حکومت ثابت ہوچکی ہے تو اس کی اصلاح کی بجائے اسے زبردستی قائم رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے اس ضد کی وجہ سے مہنگائی اور معیشت کی صورتحال مزید خراب ہورہی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ حسب سابق مولانا سے کہہ دیا گیا ہے کہ آپ زور لگائیں اگر 2 لاکھ لوگ سڑکوں پر آگئے تو ہم عمران کی حمایت سے ہاتھ اٹھالیں گے ساتھ ہی یہ ہدایت ہے کہ ہم نواز شریف کے خلاف جو کرنا چاہیں وہ آپ راستے میں نہ آئیں سوال یہ ہے کہ کرپشن کے سوا نواز شریف سے ایسا کون جرم سرزد ہوگیا جو وہ قابل گردن زدنی ٹھہرے شاید یہ کوئی اندر کی یا آپس کی بات ہے جن کے بارے میں لوگوں کو علم نہیں ہے نواز شریف کو مزید پھنسانے کیلئے ان کے خلاف غداری کا مقدمہ بھی قائم کیا گیا ہے جس کی زیادہ سے زیادہ سزا موت اور کم سے کم عمر قید ہے لیکن وقار سیٹھ نے آئین توڑنے کے جرم میں جنرل پرویز مشرف کو موت کی جو سزا سنائی اسے کوئی ماننے کو تیار نہیں اور نہ ہی مشرف کی واپسی کیلئے زور لگایا جارہا ہے یہ پاکستانی انصاف کا دوہرا معیار ہے نواز شریف نے گھبرا کر آخر ہاتھ پیر مارنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا حاصل فی الحال اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم ہے میاں صاحب کی ساری امیدیں مولانا سے وابستہ ہیں کیونکہ انہیں آصف علی زرداری پر اعتماد نہیں ہے میاں صاحب کا خیال ہے کہ وہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھاکر کسی وقت بھی مقتدرہ کے ساتھ اتحاد کرسکتے ہیں ان کا یہ خیال زیادہ غلط نہیں ہے کیونکہ پی ڈی ایم کے قیام کے بعد زرداری سے خفیہ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے توقع بھی یہی ہے کہ جب پی ڈی ایم اجتماعی استعفوں کا فیصلہ کرے گی تو زرداری یہ فیصلہ ماننے سے انکار کریں گے اسی طرح وہ جلسہ اور ریلیوں سے اختلاف نہیں کریں گے لیکن جب سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا فیصلہ کیا جائے گا تو وہ اس سے اختلاف کریں گے عین ممکن ہے کہ وہ اسی مرحلے میں اتحاد سے الگ ہوجائیں گزشتہ شب جاتی امرا میں مولانا نے ملاقات کے بعد مریم بی بی کے ہمراہ جو پریس کانفرنس کی اس میں ان کا غم و غصہ ترشح تھااور ان کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ انہیں اپنے کسی پارٹنر پر غصہ ہے لہٰذا اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے دو ستون مولانا اور ان لیگ ہونگے دونوں کو زرداری کی حرکات و سکنات پر اچھے خاصے شکوک و شبہات ہیں مولانا کو یہ کھوج لگانے کی ضرورت ہے کہ رحمن ملک آج کل کہاں ہیں اور ان کی خفیہ سرگرمیاں کیا ہیں؟
لیکن اگر زرداری نے دغا کیا تو ان کے ساتھ کچھ اچھا نہیں ہوگا اب تو ان کے مقابلے میں ن لیگ نے پنجاب کارڈ استعمال کرنا شروع کردیا ہے زرداری لاکھ کوشش کریں لیکن سندھ حکومت نہیں بچے گی اور ان کے خلاف کرپشن کے مقدمات بھی ختم نہیں ہونگے کیونکہ حکومت کے موثر ہتھیار نیب کا استعمال اور غداری کے مقدمات ہیں میاں نواز شریف ذہنی اعتبار سے تیار ہیں کہ ن لیگ کے کئی اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی دباؤ بڑھنے پر ساتھ چھوڑ دیں گے لیکن اب انہیں اس کی پرواہ نہیں ہے وہ تحریک چلانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور حکومت نے بھی طاقت کے استعمال کا فیصلہ کرلیا ہے 16 اکتوبر کو گوجرانولہ میں مریم بی بی کا جو جلسہ ہوگا اس سے حکومتی منصوبوں کا پتہ چلے گا اگر بلاول نے مولانا کی درخواست کے باوجود اس جلسہ میں شرکت نہیں کی تو ان کی راہیں جدا ہوسکتی ہیں مجوزہ تحریک لیگی کارکنوں کیلئے بھٹی میں جل کر کندن بن کر ابھر نے کا موقع ہے دیکھیں لیگی متوالے آزمائش میں کس حد تک پورا اتریں گے کیونکہ تحریک سے پہلے اور تحریک کے دوران تمام لیگی قیادت جیلوں میں ہوگی اور کارکنوں کو خود تحریک چلانا پڑے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں