آخری جنگ

تحریر: انور ساجدی
ویسے تو ہمارے حکمران جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس کا آسان حل 1973 کے آئین کا خاتمہ ہے کیونکہ اس کی موجودگی میں نہ تو وحدانی طرز حکومت آسکتی ہے اور نہ ہی صدارتی نظام لاگو ہوسکتا ہے نام نہاد فیلڈ ایوب خان کو جب اپنی مرضی کا نظام لانا تھا تو انہوں نے 1956 کا آئین منسوخ کرکے مارشل لاء نافذ کردیا جب حکمرانی کو طول دینا مقصود ہوا تو صدارتی نظام نافذ کرکے بی ڈی ممبروں کے ذریعے صدر بن بیٹھے ایوب خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے دوسری مدت کیلئے جو صدارتی انتخاب کروایا وہ نہ صرف جعلی تھا بلکہ اپنی جیت کیلئے انہوں نے بانی پاکستان کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح کو بھی ملک دشمن اور غدار قرار دیدیا الزام یہ تھا کہ خدائی خدمت گار بادشاہ خان محترمہ کے طرفدار تھے اور ایوب خان کے انتخابی اشتہار کے مطابق باچا خان آزادپشتونستان بنانے کی کوشش کررہے تھے۔
یحییٰ خان نے بھی ایک نام نہاد عبوری آئین لیگل فریم ورک آرڈر کے ذریعے 3 سال ملک کو چلایا اور توڑ بھی دیا پاکستان دولخت ہونے کے بعد بھٹو کو اقتدار غیر قانونی طریقے سے منتقل ہوا اسی وجہ سے انہیں 20 دسمبر 1971 کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ اختیار کرنا پڑا پاکستان ٹوٹنے کے بعد ہونا یہ چاہئے تھا کہ ازسرنو انتخابات کروانے چاہئیں تھے لیکن مغربی پاکستان کو پاکستان قرار دے کر 1970 کے عام انتخابات کی بنیاد پر منتخب ہونے والی اسمبلی سے کام چلایا گیا 1973 کا دستور بھی اسی اسمبلی نے بنایا اور منظور کیا اس وقت کی اپوزیشن نے نئے انتخابات کا مطالبہ اس لئے نہیں کیا کہ بحران بہت بڑا تھا اور ریاست کو بچانا بھی تھا بھٹو نے اگرچہ ایک پارلیمانی اور فیڈرل آئین بنایا لیکن اس پر کبھی عملدرآمد نہیں کیا انہوں نے بنیادی حقوق ہمیشہ معطل رکھے اور آئین کی بجائے ایمرجنسی کے ذریعے حکومت کی ایک ٹوٹے ہوئے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اتنی طاقتور تھی کہ بھٹو جیسے شخص کو بھی اقتدار میں شریک کیا گیا لیکن اقتدار منتقل نہیں کیا گیا انہیں مجبور کیا گیا کہ بلوچستان و سرحد کی حکومتیں برخاست کی جائیں اور بلوچستان پر فوج کشی کی جائے بالآخر ضیاء الحق نے 5 جولائی 1977 کو ان کا تختہ الٹ دیا اور 4 اپریل 1979 کو پھانسی پر لٹکادیا ضیاء الحق نے آئین کو معطل کردیا صوبے تو برائے نام رہنے دیئے لیکن ان کے فوجی گورنر مقرر کئے پارلیمنٹ کی جگہ مجلس شوریٰ اور صوبائی اسمبلیوں کی جگہ صوبائی کونسلیں قائم کی گئیں ان میں ایک ایسی مخلوق نامزد کی گئی جو آج تک کسی نہ کسی شکل میں مسلط ہے آج کے سب سے بڑے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف اگرچہ ضیاء الحق کے دور میں لاہور سے بلدیاتی انتخاب ہار گئے تھے اس کے باوجود ضیاء الحق نے انہیں پنجاب کا فنانس منسٹر مقرر کردیا ضیاء الحق نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ملک کی نظریاتی اور سرحدوں کے ذمہ دار مسلح افواج ہیں سیاستدانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ضیاء الحق نے اسلامی نظام کے نام پر جو نظام وضع کردیا برسوں بعد بھی وہ قائم ہے انہوں نے پاکستان کو ایک نیا ڈاکٹرائن دیا جس میں طے کیا گیا تھا کہ اقتدار میں شراکت تو ممکن ہے لیکن اختیارات کی منتقلی ناممکن ہے اسی اصول کے تحت جب محمد خان جونیجو نے افغانستان میں قیام امن کیلئے جینوامعاہدے پر دستخط کردیئے تو ضیاء الحق نے اپنے ہی وزیراعظم کو برطرف کردیا۔
ضیاء الحق کے بعد لولی لنگڑی سول یا جمہوری حکومتیں قائم ہوتی رہیں لیکن ان کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا گیا اور نہ ہی کام کرنے دیا گیا بینظیر کو یہاں تک مجبور کیا گیا کہ ضیاء الحق کے وزیر خارجہ لیفٹیننٹ جنرل سابق جی او سی مشرقی پاکستان صاحبزادہ یعقوب علی خان عرف یعقوب خان کو وزیر خارجہ رکھا جائے بینظیر کو ملک دشمن اور سیکورٹی رسک تصور کیا جاتا تھا انہیں بڑی مشکل سے ایٹمی پلانٹ کے معائنہ کی اجازت دی گئی تاہم اس موقع پر انہیں تضحیک کا نشانہ بھی بنایا گیا کہا جاتا ہے کہ جنرل مرزا مسلم لیگ نے ان سے پوچھا کہ کشمیر کی آزادی کے بارے میں آپ کا کیا پلان ہے اس پر محترمہ نے کہا کہ جنرل صاحب آپ پلان بنائیں جب کشمیر پر حملے کاپروگرام ہوا تو میں آپ کا ساتھ دونگی یہ سن کر جنرل بیگ اور ساتھیوں کارنگ فق ہوگیا بینظیر کا یہ حال کیا گیا کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ لاہور میں انہیں خوش آمدید نہیں کہیں گے۔
بینظیر کے بعد ضیاء الحق کے جانشین میاں نواز شریف کو جعلی انتخابات کے ذریعے وزیر اعظم بنایا گیا لیکن اپنے بندے کو بھی چلنے نہیں دیا گیا سپریم کورٹ سے بحالی کے باوجود جب وحید کاکڑ نے سوٹی اٹھاکر کہا کہ استعفے پر دستخط کرو گے کہ نہیں؟ تو میاں صاحب نے ڈر کے مارے دستخط کردیئے۔
1997 میں جب میاں صاحب دوسری بار وزیراعظم بنے تو جنرل مشرف سے ان کی نہ بنی کارگل کے مسئلہ پر اختلافات ہوئے اور انہوں نے مشرف کو برطرف کرکے جنرل بٹ کو آرمی چیف بنایا لیکن کمانڈروں نے یہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا مشرف بعد میں چیف ایگزیکٹو اور وردی سمیت صدر بن گئے لیکن اصل میں وہ برطرف تھے اور ان کے سارے اقدامات غیر آئینی تھے سنا ہے کہ اٹک جیل جاکر میاں صاحب کو پہلی بار احساس ہوا کہ سیاستدانوں کے ساتھ کیا کیا زیادتیاں ہوئی ہیں اٹک جیل میں چوہے چھوڑے گئے تھے اور مچھروں کی بھی بڑی بہتات تھی یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی پہلی سزا نہ بھگت سکے اور سعودی فرمانروا کے ذریعے جلاوطنی پر آمادہ ہوگئے۔
تیسری اور آخری بار وزیراعظم بننے کے بعد انہیں قبول نہیں کیا گیا حالانکہ واپس آکر وہ زرداری کے خلاف میمو اسکینڈل کے مدعی بن گئے تھے شاید اسی کے صلے میں انہیں ایک اور موقع دیا گیا لیکن پھر پانامہ اسکینڈل کے ذریعے ان کا بوریا بستر گول کردیا گیا میاں صاحب کا کمال ہے کہ انہوں نے حکومت کو جل دے کر لندن جانے میں کامیابی حاصل کرلی آخری مذاکرات کی ناکامی کے بعد میاں صاحب نے آخری جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا اگر وہ ملک کے اندر ہوتے تو کوٹ لکھپت جیل کے ماحول میں وہ کبھی آخری جنگ لڑنے کا فیصلہ نہ کرتے لیکن وہ لندن میں بیٹھ کر خمینیبننا چاہتے ہیں بدقسمتی کی بات ہے کہ ماضی میں سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں اور یہ خدشہ موجودہ تحریک کے دوران بھی ہے کسی کو یقین نہیں کہ زرداری دل و جان سے پی ڈی ایم کی تحریک کا ساتھ دیں گے وہ حکمرانوں کو جھکاکر کسی بھی مرحلہ پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں لیکن زرداری نے ایک دائمی کام کرنا ہے تو انہیں دغا بازی سے کام نہیں لینا چاہئے کیونکہ اپوزیشن کی پیٹھ میں چھرا گونپنے کے بعد خود ان کی سیاست بھی ہمیشہ کیلئے رخصت ہوجائے گی اس وقت حالات بہت پیچیدہ اور گھمبیر ہیں ریاست کا معاشی بوجھ بہت بڑھ گیا ہے خود انحصاری کیلئے اسے سندھ اور بلوچستان کے وسائل درکار ہیں چاہے یہ ساحل ہو جزیرے ہوں گیس کے ذخائر ہوں یا سونے کی کانیں اس کے بغیر گزارہ مشکل ہے اس لئے عمران خان کو ڈمی وزیراعظم بناکر ایسے فیصلے کروانے مقصود ہیں کہ سندھ اور بلوچستان مستقبل کے منصوبوں کے سامنے مزاحمت نہ کرسکیں اگر زرداری کو 1973 کا آئین 18 ومیں ترمیم اور صوبوں کے وسائل بچانے ہیں تو انہیں آئین کی بالادستی کیلئے کام کرنا ہوگا ورنہ پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں کی بقاء خطرے میں پڑ جائے گی زرداری وقتی فوائد کا نہ سوچیں بلکہ سویلین بالادستی اور آئین کے تقدس اور پارلیمنٹ کی بالادستی کیلئے جدوجہد کریں۔