اب کے نظرآتے ہیں کچھ آثار جدا۔

تحریر: انور ساجدی
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ آئندہ چند ماہ حالات خطرناک حد تک بگڑجائیں گے کہیں فرقہ وارانہ فسادات سراٹھائیں گے کہیں سیاسی کشیدگی انتشار کی صورت اختیار کرسکتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ جناب عمران خان بات چیت گفت وشنید اور ڈائیلاگ پریقین نہیں رکھتے جبکہ سیاسی ماحول کو ٹھیک رکھنے کیلئے یہ چیزیں اہم کردارادا کرتی ہیں دیکھنے میں آرہا ہے کہ جب سے اپوزیشن نے حکومت کیخلاف تحریک چلانے کااعلان کیا ہے حکومت حواس باختہ ہوگئی ہے تحریک سے پہلے اسکے غیر سنجیدہ وزیر اورمشیرجلتی پر تیل چھڑکنے کاکام کررہے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم زمینی حقائق کاادراک نہیں رکھتے اور نہ ہی گزشتہ حکومتوں وزرائے اعظم کے انجام سے انہوں نے کوئی سبق سیکھا ہے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں تحریک انصاف کے لائرزونگ سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے فرمایا کہ ”جمہوریت میں ہوں“ لیڈر میں ہوں متنخب میں ہوں ایک کروڑ ستر لاکھ لوگوں نے مجھے ووٹ دیا ہے ایسی اناپرستی اور میں ہوں کی گردان کئی سابق وزرائے اعظم کرچکے ہیں لیکن وہ عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے وزیراعظم کو معلوم نہیں کہ
”ایک اسٹیٹس مین“کو بازاری زبان استعمال نہیں کرنا چاہئے لیکن مخالفین کیخلاف وہ وزیراعظم کے عہدے کا ”ڈیکورم“ بھول جاتے ہیں اور فوراً ڈی چوک کے کنٹینرپر چڑھ جاتے ہیں حالانکہ کوئی انہیں بتائے کہ برداشت اور شائستگی بذات خود ایک بڑی طاقت ہوتی ہے عمران خان کو دیکھ کر1977ء میں پی این اے کی تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کی باتیں یاد آجاتی ہیں جب تحریک زوروں پر تھی تو بھٹو نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا۔
بے شک میں کمزور ہوں
لیکن جس کرسی پر بیٹھا ہوں
وہ تو مضبوط ہے
لیکن چند ماہ کے دوران یہ کرسی نہ رہی
ابھی تو عمران خان کیخلاف تحریک شروع نہیں ہوئی اور انکی گھبراہٹ کا یہ عالم ہے جب ملک بھر میں تحریک عروج پر ہوگی تو اس وقت وہ کیا کریں گے؟
اگرچہ خبرمصدقہ نہیں ہے لیکن سنا ہے کہ وہ واپوزیشن کے خلاف اپنی ٹائیگر فورس کو میدان میں اتاریں گے اگر انہوں نے ایسا کیا تو یہ سنگین غلطی ہوگی کیونکہ اس سے حالات مزید گھمبیر ہوجائیں گے سیاسی کارکن دست گریبان ہوجائیں گے اور ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا ہوجائے گی انتشار کسی بھی حکومت کیلئے سودمند نہیں ہوتی بلکہ اس سے اپوزیشن کوفائدہ ملتا ہے۔عمران خان کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ مہنگائی اور بیڈگورننس نے انکی مقبولیت زمین بوس کردی ہے اس کا اندازہ کوئی دو روز قبل راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہونیوالے تحریک انصاف کے جلسہ کی ناکامی سے لگایا جاسکتا ہے بطور سیاسی جماعت تحریک انصاف عوام میں اپنی مقبولیت کھوچکی ہے۔وزیراعظم کو یہ ادراک بھی نہیں کہ مہنگائی نے جہاں عوام کی کمرتوڑدی ہے وہاں پر انکی حکومت کی کمر بھی ٹوٹ چکی ہے انکے وزیر اور مشیر روز ”سب اچھا“ کی رپورٹ پیش کررہے ہیں ان کی سوشل میڈیا کی ٹیم غیر مناسب اور ناشائستہ پروپیگنڈے کرکے وزیراعظم کو تصویر کا غیر حقیقی رخ پیش کررہی ہے کوئی وقت تھا کہ وزیراعظم صبح وشام کہتے تھے کہ انکی کامیابی کاسہرا سوشل میڈیا کے سر ہے اسی وجہ سے انہوں نے پرنٹ میڈیا کو نیچا دکھانے کیلئے اسکے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کردیں اور وزیراطلاعات بنتے ہی فواد چوہدری نے ایڈیٹروں سے ملاقات کے دوران اپنا موبائل لہراتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ہے میڈیا پرنٹ میڈیا کی کوئی حیثیت نہیں ہے ساتھ ہی حکومت نے ٹی وی چینلوں پر ہلہ بول دیا اور پیمرا کے کالے قانون کا اس طرح استعمال شروع کردیا جو جنرل ایوب خان اور جنرل ضیاء الحق پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈی ننس کا بے دریغ استعمال کرتے تھے لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ سوشل میڈیا تو مخالفین بھی استعمال کریں گے اور جوں جوں حکومت کی کارکردگی کا پول کھلتا جائیگا مخالفین کا پروپیگنڈا بھی زور پکڑے گا صرف دوسال میں مخالفین نے تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کو چاروں شانے چت کردیا چونکہ تحریک انصاف کی ٹیم کے پاس اپنے دفاع کیلئے ٹھوس مواد نہیں ہے اس لئے وہ بدکلامی سے کام لے رہی ہے اس سے تو عوام کومطمئن نہیں کیاجاسکتا۔
اس حکومت کی ایک اور کمزوری یہ ہے کہ یہ علی الان کہہ رہی ہے کہ ادارے اسکی پشت پر کھڑے ہیں سوال یہ ہے کہ جب کسی حکومت کی کارکردگی صفر ہو ادارے اسکے لئے کیا کرسکتے ہیں وزیراعظم کی طرف سے یہ شیخی بگھارنا کہ اگرنوازشریف کی طرح کوئی انٹیلی جنس سربراہ ان سے استعفیٰ مانگتا تو وہ اسے برطرف کردیتے لگتا ہے کہ وزیراعظم پاکستان کی حالیہ تاریخ بھی بھول بیٹھے ہیں آخر کب تک ایک دن جب ان کی حکومت سے حساب لیا جائیگا تو ان سے بھی استعفیٰ طلب کیاجائیگا اور اگر انہوں نے انکار کردیا تو وہ ملک کے پہلے باہمت اورباکمال وزیراعظم ہونگے۔
ایک وہ راولپنڈی کے متروکہ وزیر ہیں وہ اداروں کا نام لیکر مخالفین کو ڈراتے ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ جمہوریت بھی فوج ہے اور استحکام بھی فوج ہے یہ درست ہے کہ ملکی استحکام کیلئے فوج کا اہم رول ہے لیکن اگر حالیہ آڈٹ میں یہ ثابت ہوگیاکہ ریلوے کے حسابات میں بہت زیادہ گڑ بڑ ہوئی ہے اگرثابت ہوگیا کہ اربوں کی بے قاعدگی سے ریلویز ناکام ترین وزارت ہے تو ادارے شیخ صاحب کو بچانے کیلئے کیا کرداراداکرسکتے ہیں قصور تو شیخ صاحب کا بھی نہیں ہے ان کا مستقبل تحریک انصاف سے وابستہ ہے اور اس جماعت کا مستقبل روشن دکھائی نہیں دے رہا ہے اس لئے شیخ صاحب سخت مایوس ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ یہ انکی عوامی نمائندگی کاآخری سال یا آخری باری ہے۔
جہاں تک اپوزیشن کا تعلق ہے توگوجرانوالہ اور کراچی کے جلسوں میں بڑے بے قائدین کی شرکت کے اعلانات کے باوجود اندرونی صفوں میں مکمل ہم آہنگی نہیں ہے بلاول نے ایک بارپھرشرط پیش کی ہے کہ مولانا تحریک کے دوران مذہبی کارڈ استعمال نہیں کریں گے لیکن حالات جس نہج پرجارہے ہیں یہ ہوہی نہیں سکتا کہ مولانا نازک معاملات کو نہ چھڑیں مثال کے طور پر دوروز قبل جامعہ فاروقیہ کے سربراہ مولانا عادل کی شہادت ہوئی یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس موضوع پر بات نہ کی جائے اور جیسے کہ خدشہ ہے اسی طرح کے اور واقعات ہوسکتے ہیں جن میں مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ہدف بنایا جاسکتا ہے لہٰذا ان معاملات پر بات تو ہوگی لیکن پی ڈی ایم کے لیڈروں کا فرض ہے کہ وہ فرقہ وارانہ دہشت گردی کیخلاف ہم آواز ہوکر اسکے سامنے دیوار بنیں کیونکہ اگر فرقہ وارانہ فسادات شروع ہوگئے تو حکومت سے زیادہ اپوزیشن کی تحریک کو نقصان پہنچے گا اسی طرح اپوزیشن کو ہرحال میں صبر کا دامن تھامے رکھنا ہے ن لیگی رہنماؤں نے جس طرح پنجاب اسمبلی میں پانچ منحرف ارکان کے ساتھ سلوک کیا اس رویہ سے گریز کیاجائے اگرچہ عوام منحرف نمائندوں کے بہت خلاف ہیں اور ممکن ہے کہ انہیں گلی کوچوں میں عوام کے غیض وغضب کا سامنا کرنا پڑے لیکن اراکین اسمبلی کو چاہئے کہ وہ ناشائستگی کا مظاہرہ نہ کریں تحریک کے کسی مرحلے میں ن لیگ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں سے استعفیٰ کا آپشن استعمال کرے گی اور قوی امکان ہے کہ اسکے ایک تہائی اراکین استعفیٰ نہیں دیں گے ایسے اراکین کیخلاف عوام اور حلقہ کے لوگ سڑکوں پر نکل کر ان کا احتساب کریں گے مبصرین کا اندازہ ہے کہ استعفوں کے معاملہ سے پیپلزپارٹی اختلاف کرے گی لیکن اگر پیپلزپارٹی نے استعفوں کاآپشن استعمال نہ کیا تو مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے انتخابات میں اسے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی کیونکہ اسکے اراکین ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے بک سکتے ہیں لہٰذا سب کو نئے انتخابات پر زور دینا چاہئے یہ جو حکومتی اکابرین کہتے ہیں کہ ہم اپوزیشن کا مقابلہ کریں گے اور استعفیٰ نہیں دیں گے اس کا انحصار اپوزیشن کی تحریک میں عوام کی شرکت پر ہے اگر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو حکومت کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا اور اسکے تمام سرپرست اور ساتھی اسے چھوڑدیں گے جہاں تک نئے انتخابات کاسوال ہے ان کا انعقاد مشکل نہیں ہے لیکن نوازشریف نے سسٹم بدلنے کا جواعلان کیا ہے البتہ وہ بظاہر ناممکن ہے کیونکہ اسکے لئے ایک بڑی جنگ لڑنا پڑے گی یعنی ام الحرب اسکے بغیر مکمل تبدیلی لانا ممکن نہیں ہے زیادہ امکان یہی ہے کہ اپوزیشن رہنما بھی نئے انتخابات اور اس سے پہلے انتخابی اصلاحات پراکتفا کریں گے۔انکی پہلی ترجیح موجودہ حکومت سے جان چھڑانا ہے وہ اس پر ضرور سمجھوتہ کریں گے اگر حکومت ختم ہوئی تو تحریک انصاف فائٹ بیک نہیں کرسکتی زیادہ ترامکان یہی ہے کہ یہ پانی کے بلبلے کے کی طرح بیٹھ جائے گی کیونکہ اسکی جڑیں ابھی تک گملوں میں ہیں زمین کے اندر پیوست نہیں ہیں عمران خان کا اپنا کیا ہے وہ ولایت جاکر باقی ماندہ زندگی مزے سے گزارسکتے ہیں اور انکشافات سے بھرپور ایک بیسٹ سیلر کتاب لکھ سکتے ہیں یہی ان کا آخری کارنامہ ہوگا ذوالفی بخاری چونکہ ولایت میں موجود ہیں لہٰذا انکے عالیشان قیام وطعام کا اچھا بندوبست کرسکتے ہیں کیونکہ ذوالفی کے پاس کافی حساب،کتاب موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں