کس کی کشتی ڈوبنے والی ہے؟

تحریر: انور ساجدی
تاریخی محاورہ ہے کہ
”ڈوبتے کو تنکے کا سہارا“
جب کوئی گہرے پانیوں میں ڈوب رہا ہو تو وہ تنکوں کا سہارا ڈھونڈ تا ہے لیکن یہ تنکے اکثر ہاتھ نہیں آتے بعض اوقات اپنے دوست اور سرپرست یہ تنکے بھی پرے ہٹادیتے ہیں یہ بات واقعات سے ثابت ہے کہ جب کوئی بحری جہاز ڈوبنے لگتا ہے تو سب سے پہلے چوہے جان بچانے کیلئے ادھر ادھر بھاگتے ہیں لیکن ان کا بچنا مشکل ہوتا ہے یہ جو فیصل آباد سے پی ٹی آئی کے ایم این اے راجہ ریاض کے استعفیٰ کا اعلان ہے یہ بھی چوہوں جیسی حرکت ہے موصوف زرداری کے دور میں پنجاب کے سینئر وزیر تھے اور انہیں ڈپٹی چیف منسٹر کا درجہ حاصل تھا لیکن جب پنجاب میں پیپلز پارٹی کی کشتی ڈوبنے لگی تو راجہ صاحب نے چھلانگ مار کر پی ٹی آئی کی کشتی پکڑ لی ڈھائی سال ہونے کو آئے ہیں روز واویلا مچا رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ویسے تو پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین پارلیمنٹ اپنی قیادت اور حکومت سے نالاں ہیں یہ چونکہ دیگر جماعتوں کے ”الیکٹیبلز“ ہیں اس لئے انہیں ایسے بے رحمانہ رویہ کا تجربہ نہیں ہے اگر اس ”مخلوق خدا“ نے دیکھا کہ تحریک انصاف اور اس کی حکومت کی کشتی ڈوب رہی ہے تو وہ پہلے چھلانگ ضرور ماریں گے جو گیم شروع ہونے والی ہے اس کے آگے بڑھنے سے ہی پتہ چلے گا کون فائدہ اور کون خسارے میں ہوگا الیکٹیبلز گیم اور ہوا کا رخ دیکھ کر ہی فیصلہ کریں گے گیم کیا ہے؟ اس کا انحصار ایمپائر کی جانبداری اور غیر جانبداری پر ہے لوگوں کو یاد ہوگا کہ 2014 کے دھرنے کے دوران عمران خان روز کہتے تھے کہ جس دن ایمپائر نے انگلی اٹھائی ن لیگ کی حکومت اسی دن گئی لیکن دھرنے کے دوران ایمپائر نے انگلی نہیں اٹھائی البتہ نئے ایمپائر نے 2018 کے عام انتخابات میں انگلی اٹھاکر عمران خان کی جیت کا اعلان کیا نہ صرف یہ بلکہ اس نے 2017میں نواز شریف کو فاؤلپلے کا مجرم قرار دے کر گیم سے آؤٹ کردیا نواز شریف اور اس کے خاندان کی جس طرح تذلیل اور تضحیک کی گئی بھٹو خاندان کے بعد یہ دوسری مثال ہے لیکن سلیکٹرزنے فاشغلطی کی وہ ریس میں ایسے گھوڑے کو لائے جو دوڑنہیں سکتا تھا چل نہیں سکتا تھا اس لئے ان کی ساری پریکٹس رائیگاں گئی لیکن سلیکٹرز اور ایمپائرداد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ہار نہیں مانی اپنے سلیکشن کی نالائقیاں بھانپ کر انہوں نے متبادل انتظامات شروع کردیئے میاں جی کو ضمانت دلوائی چھوٹے میاں مریم بی بی اور اس کے میاں کو بھی قید سے آزاد کردیاپھر رات کی تاریکی میں مذاکرات کرکے میاں صاحب کو باہر بھیجنے کا راستہ ہموار کردیا ایسے حالات پیدا کئے گئے کہ خود عمران خان اور اس کی کابینہ کو اجازت دینی پڑی اگر میاں صاحب صبر سے کام لیتے تو وزیراعظم اور کابینہ کو ابھی تک پتہ نہ ہوتا کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے سارا بھانڈہ تو انگوروں نے پھوڑا شاید میاں صاحب نے کافی دنوں سے انگور نہیں کھائے تھے اس لئے قطر کے خصوصی جہاز میں بیٹھتے ہی حکم صادر کیا کہ انگور لائے جائیں بھلا اتنا بیمار شخص ادویات لینے کی بجائے انگور کیسے کھا سکتا ہے؟وزیراعظم کے بقول جب میاں صاحب کا جہاز یو اے ای کی حدود میں پہنچا تو انہیں خیال آیا کہ جہاز کو اتارکر میاں صاحب کو واپس بلایا جائے لیکن دیر ہوچکی تھی اور انہیں معلوم نہیں تھا کہ یو اے ای خود اس کھیل میں شریک تھا چنانچہ میاں صاحب عافیت سے لندن پہنچ گئے کہا جاتا ہے کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ پہنچ کر انہوں شکرانے کے نوافل ادا کیں اور سکھ کا لمبا سانس لیا یہ تو میاں صاحب یا ایمپائر کو پتہ تھا کہ یہ ایک نیا این آر او اور مستقبل کا متبادل انتظام بھی تھا حالات سے ثابت ہے کہ 7 ستمبر تک میاں صاحب کا ایمپائر سے روابط قائم تھے یہ واقعی میں ٹوٹ گئے یا کوئی پلان بنایا گیا اس کا کس کو علم نہیں ہے البتہ ن لیگ کی قیادت میں پی ڈی ایم جو جلسے شروع کرے گی تب پتہ چلے گا کہ ہوا کا رخ کس کی جانب ہے بظاہر وزیراعظم نے جلسوں کی اجازت دیدی ہے لیکن اندر سے وہ انہیں ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں گوجرانوالہ میں پیپلز پارٹی کی کارنر میٹنگ پر حملہ اور گرفتاریاں گھویا ریہرسل تھا عام اندازہ یہی ہے کہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت 16 اکتوبر کو اچھی خاصی رکاوٹیں کھڑی کرے گی لیکن چونکہ گوجوانوالہ ن لیگ کا سیاسی قلعہ ہے اس لئے شہر کے لوگ پیدل بھی آسکتے ہیں اگر جلسہ گاہ میں پانی چھوڑا گیا تو لوگ جی ٹی روڈ بند کرکے ایک بڑا جلسہ کریں گے حکومت کیلئے مسئلہ یہ ہے کہ جب مریم بی بی کی جاتی امرا سے ایک بڑا جلوس لیکر روانہ ہونگی تو انہیں کیسے گوجرانوالہ جانے سے روکا جائے حکومت کے بعض اکابرین تصادم بھی چاہتے ہیں تاکہ اپوزیشن کا پہلا شو ناکام ہوجائے دوسری جانب بلاول بھٹو بھی گوجر خان سے ایک بڑی ریلی کے ہمراہ گوجرانوالہ جائیں گے بعض مبصرین کو خدشہ ہے کہ بلاول کی ریلی کہیں شہباز شریف کی ریلی کی طرح منزل مقصود کو پہنچ نہ پائے کیونکہ زوال کے باوجود پیپلز پارٹی جی ٹی روڈ پر ابھی تک اتنی گئی گزری نہیں کہ ہزاروں لوگوں کو اکٹھا نہ کرسکے جب بلاول روانہ ہونگے اور راستے میں لوگ روک کر ان کا استقبال کریں گے تو انہیں ڈیڑھ سو میل کا فاصلہ طے کرنے میں 10 گھنٹے لگ جائیں گے تب تک پی ڈی ایم کا جلسہ ختم ہوچکا ہوگا لہٰذا قمرالزمان کائرہ کو چاہئے کہ وہ بلاول کو سیدھے جلسہ گاہ لے جائیں اگر پیپلز پارٹی کا دورہ پلان تاخیر سے پہنچنے کا ہے تو الگ بات ورنہ پارٹی کا گوجرانوالہ سے پہلے وزیر آباد میں جلسہ کا جو پروگرام ہے وہ بھی صحیح منصوبہ بندی نہیں ہے کیونکہ اس کی وجہ سے بھی تاخیر ہوگی پیپلز پارٹی نے کراچی میں 18 اکتوبر کے جلسہ کیلئے شہر میں لاکھوں پرچم اور بینر آویزاں کردیئے گئے ہیں اور جلسہ کو پی ڈی ایم سے منسوب کردیا گیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے بارے میں خدشات ابتدائی طور پر درست نہیں ہیں آگے چل کر کیا ہوگا؟ یہ تو آگے ہی پتہ چلے گا۔
پارٹی کے شریک چیئرمین علیل ہیں ڈاکٹروں کے مطابق انہیں نمونیا ہوگیا ہے امکان یہی ہے کہ وہ ایک دو ماہ تک صاحب فراش رہیں گے اور سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیں گے زرداری کو معلوم ہے کہ حکومت انہیں علاج کیلئے باہر جانے کی اجازت نہیں دے گی اس لئے وہ ملک میں رہ کر علاج معالجہ بھی کروا رہے ہیں اور دیگر گزارہ بھی چلا رہے ہیں آصف کو ہر وقت بلاول کی پریشانی لگی رہتی ہے ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ بلاول زیادہ احتیاط نہیں کرتے اس لئے ان کی جان کو خطرہ ہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ بلاول کو سیاست کرنی ہے اور سیاست میں جان کا رسک لینا پڑتا ہے ان کی والدہ جب 18 اکتوبر 2007 کو واپس آئی تھیں تو کارساز کا ہلاکت خیز دھماکہ ہوا تھا جس میں وہ بال بال بچ گئی تھیں اس کے باوجود وہ خوفزدہ نہیں ہوئیں اور لیاقت باغ کا جلسہ کر ڈالا جہاں دشمنوں نے مل کر ان کی جان لے لی وہی دشمن پھر اکٹھے ہیں گزشتہ ماہ تحریک طالبان کے مفرور ترجمان احسان اللہ احسان نے بلاول کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ تیار رہیں ہم انہیں جلد ان کی والدہ کے پاس بھیج دیں گے اس طرح کا خطرہ مریم کے سوا اور کسی رہنما کو نہیں ہے لہٰذا جیسے کہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ اپوزیشن کی تحریک کے دوران دہشتگردی ہوسکتی ہے بعیداز امکان نہیں کہ ایسا ہوجائے کوئی شیخ رشید سے پوچھنے والا نہیں کہ وہ اپنے ادراک سے ایسا کہہ رہے ہیں یہ ان کے پاس کسی منصوبے کی اطلاع ہے اگر ان کا مقصد اپوزیشن کو ڈرانا دھمکانا ہے تو یہ الگ بات ہے اگر ان کے پاس کوئی اطلاع ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ ملکی مفاد میں ذمہ دار لوگوں کو اس سے آگاہ کریں کیونکہ خدانخواستہ کوئی بڑا المیہ ہوگیا تو شیخ صاحب پھنس سکتے ہیں اور انہیں شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے باقی صوبوں کا معلوم نہیں لیکن سندھ حکومت سیکورٹی کے معاملہ میں زیادہ سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی اس کی لاابالی سے مولانا عادل کا نقصان ہوا اب جبکہ پی ڈی ایم کا جلسہ ہورہا ہے تو اس طرح کے انتظامات نظر نہیں آرہے ہیں جو ضروری ہے اگر دشمنوں نے کام دکھانا ہوا تو وہ کراچی جلسہ کے دوران دکھائیں گے تاکہ ساری بدنامی پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت کے کھاتے میں لکھ دی جائے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ جتنا بولتے ہیں اتنا عمل کرکے نہیں دکھاتے ان کی گورننس بھی ایک سوالیہ نشان ہے انہیں چاہئے کہ وہ جلسہ عام کی سیکورٹی انتظامات خود سنبھالیں اور ذاتی طور پر نگرانی کریں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ سندھ واحد صوبہ ہے جہاں مخالف حکومت ہے باقی تین صوبوں میں سیکورٹی کے معاملات سنگین ضرور ہیں لیکن اتنے نازک نہیں جو سندھ اور باالخصوص کراچی میں ہیں کراچی میں ہزاروں دہشتگرد آزادانہ طور پر دندناتے پھر رہے ہیں محترمہ کی ریلی پر حملے میں ان دہشتگردوں نے لشکر کی صورت میں حصہ لیا تھا صحافی ڈینئل پرل کا قتل بھی القاعدہ کے ہاتھوں یہیں پر ہوا تھا ڈاکٹر عافیہ اور اس کا شوہر عمار بلوچ کافی عرصہ تک کراچی میں مقیم رہے جبکہ القاعدہ کے آپریشن چیف خالد محمد بھی نائن الیون سے قبل کراچی میں موجود تھے اب تو ان کی جگہ داعش نے لی ہے احسان اللہ احسان بہ یک وقت کئی گروپوں کیلئے کام کرتا ہے مخالفین اسے کوئی بھی ٹاسک دے سکتے ہیں لہٰذا سندھ کے وزیر اعلیٰ کو چوکنا رہناچاہئے اگر گوجرانوالہ اور کراچی کے جلسے بہ خیر و خوبی ہوگئے تو لندن میں شروع مذاکرات میں تیزی آسکتی ہے جس کا نتیجہ جنوری فروری میں نکل سکتا ہے مریم بی بی اسی لئے پر امید ہیں کہ جنوری سے پہلے تبدیلی آجائے گی انہیں معلوم ہے کہ مذاکرات کن نکات پر ہورہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں