نوازشریف کا بے باکانہ چیلنج

انور ساجدی
آندھی تھی کہ نہیں طوفان تھا کہ نہیںلیکن جلسہ کافی بڑا تھا وزراء نے رات دعویٰ کیا تھا کہ شرکاء کی تعداد20ہزار سے زیادہ نہیںلیکن آزاد ذرائع نے60ہزار بتائی ہے اتنی رکاوٹوں کے باوجود پی ڈی ایم کے پہلے جلسہ میںان لوگوں کی شرکت ایک بڑی کامیابی ہے جلسہ بدانتظامی کی وجہ سے تاخیر سے شروع ہوا اس لئے کافی لوگ چلے بھی گئے گوجرانوالہ میںپاور شو سے قطع نظریہ اجتماع کئی حوالوں سے تاریخی حیثیت اختیار کرگیا یہ پہلا موقع ہے کہ ن لیگ کے قائد میاںنوازشریف نے ہزاروں لوگوں کے سامنے مقتدرہ کو بہ بانگ دہل چیلنج کیا ان کاویڈیوخطاب پابندی کی وجہ سے ٹی وی چینلوں نے نہیںدکھایا اسی وجہ سے مریم نواز اور بلاول نے میڈیا کی زبان بندی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا کہنے کوتو جمہوریت ہے لیکن آزادی اظہار پر بے شمار پابندیاں ہیں ملک بھر کے میڈیا پر غیراعلانیہ سنسر شپ نافذ ہے میاںنوازشریف نے اے پی سی میںبھی سخت تقریر کی تھی لیکن جلسہ میںان کا انداز بیان زیادہ جارحانہ اور زیادہ بے باکانہ تھا انہوںنے73سالوں میںجمہوری نظام کے عدم استحکام ملک کی معاشی بدحالی اورعوام کی پسماندگی کی وجہ مقتدرہ کی مداخلت کو قراردیا انہوںنے مولوی فضل الحق سے لیکر اپنی غداری تک پوری کہانی دہرائی نہ صرف یہ بلکہ انہوںنے 16دسمبر1971ء کوڈھاکہ کے پلٹن میدان میں90ہزار فوجیوں کے ہتھیار ڈالنے کاذکر بھی کیا اور کہا کہ جنرل نیازی نے نہایت ذلت آمیز طریقے سے ہتھیار ڈالے اسکے باوجود سیاستدان مواد الزام ٹہرائے جاتے ہیں نوازشریف نے بے نظیر کی شہادت کاذکر کیا لیکن ذوالفقار علی بھٹو کاذکر گول گرگئے کیونکہ انہیںمیاںصاحب کے ’’روحانی گرو‘‘ جنرل ضیاء الحق نے تختہ دار پرلٹکایا تھا میاںصاحب شروع میںضیاء الحق کی برسی بھی مناتے تھے اور انکی قبر پر جاکر جذباتی خطاب بھی کرتے تھے جس میںوہ پاکستان توڑنے کا ذمہ دار ذوالفقار علی بھٹو کو قراردیتے تھے لیکن70سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد میاںصاحب ’’میچور‘‘ بن گئے ہیں اور انہوںنے ملک کی پسماندگی آئین کی بے بسی اور جمہوری نظام کی ناکامی کا اصل سبب دریافت کرلیا ہے اگرپنجاب میںانسانی دفاغ کی ارتقا کایہ حال ہے تو اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔
نوازشریف چونکہ لندن کی آزاد فضائوں میںرہتے ہیں اس لئے وہاں انہیںڈرنہیںلگتا اس لئے انہوںنے مقتدرہ کو بہادری کے ساتھ چیلنج کیا ہے غالباً انہیںپکا یقین ہے حکومت برطانیہ انہیںاپنے ملک سے نہیںنکالے گی اس لئے انہوںنے رہ چند جرأت دکھائی ہے وہ پی ڈی ایم کے آنے والے جلسوں میںاپنے بیانیہ میںمزید زورپیدا کریںگے تاکہ پی ڈی ایم کی تحریک ’’مومنٹم‘‘ پکڑے نوازشریف میںاتنی تبدیلی آئی ہے کہ وہ90کی دہائی اور اسکے بعد فوج سے حکومتوں کو ہٹانے کا مطالبہ کرتے تھے لیکن اب وہ مقتدرہ کے سربراہ سے براہ راست پوچھتے ہیں کہ ایک نااہل حکومت کو مسلط کرنے کی ذمہ داری کس پرعائد ہوتی ہے وہ مزید کہتے ہیں کہ دھاندلی کے ذریعے مسلط کی جانے والی حکومت کی ذمہ داری آپ پرعائد ہوتی ہے۔وہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ عدلیہ سے اپنی مرضی کے فیصلے لکھواتے ہیں جس کی وجہ سے ملک کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے میاںصاحب کی باتیں سن کر عقل حیران اور دل پریشان ہو جاتا ہے اور ذہن میںپہلا سوال یہ آتا ہے کہ کیامیاںصاحب اپنے اس دوآتشی بیانیہ پر ٹھہریں گے یا اس زوردار بیانیہ کا مقصد’’مک مکا‘‘ کرکے مستقبل کی راہیں تلاش کرنی ہیں پاکستان میںچونکہ اخلاقی قدریں کمزور ہیں اور اصول پسندی مفقود ہے لہٰذا کوئی بات یقینی نہیں ہوتی ہے لیکن اگر میاںصاحب موجودہ اصولوں پر ڈٹے رہے تو ایک بڑے معرکہ کاآغاز ہوسکتا جو یہ بات ہمیشہ طے کرے گا کہ اس ملک کے مالک عوام ہیں یا کوئی اور اس جدوجہد سے یہ بھی طے ہوگا کہ آئین اورپارلیمنٹ سپریم ہیں یابالادستی ایک ادارہ کی چلے گی یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں1970ء کے بعد کبھی آزادانہ اورمنصفانہ انتخابات نہیںہوئے ہر الیکشن کو’’مینج‘‘ کیا گیا اور اپنی مرضی کے نتائج مسلط کئے گئے اسکی وجہ سے اکثر سیاسی قائدین استعمال ہوتے رہے کیونکہ ان کا مقصد اقتدار کاحصول تھا2002-1997-1990 اور 2018کے عام انتخابات صفا جھرلوتھے نہ ہارنے والوں کو اپنی ہار اور نہ جیتنے والوں کو اپنی جیت کا یقین تھا۔ایسے انتخابات سوائے سینٹرل ایشیاء کی سابقہ سوویت ریاستوں کے سوا اور کہیں دکھائی نہیںدیتے لاطینی امریکہ کی ’’بنانا ریاستیں‘‘ بھی سدھر گئی ہیں اور وہاں پر جمہوریت کی گاڑی پٹڑی پر چل پڑی ہے لیکن پاکستان جیسا بڑا ملک ہنوز صحیح جمہوریت سے کوسوں دور ہے لیکن سب سے بڑا مذاق2018ء کے انتخابات میںکیا گیا ایک بڑے جھرلو کے ذریعے ایک ایسی جماعت کو کامیاب قراردیا گیا جو نصف نشستیں بھی حاصل نہ کرسکی تھی یہی وجہ ہے کہ یہ حکومت پاکستان کی تاریخ کی سب سے ناکام ترین حکومت ثابت ہوئی کامیاب ہونے والی جماعت حکومت چلانے اور ملک سنبھانے کیلئے تیار نہ تھی زبردستی ملک اس کے حوالے کیا گیا نتیجہ سب کے سامنے ہے اسے معیشت کاپتہ ہے اور نہ ہی سفارتکاری کاعلم ہے وہ مارکیٹ میکنزم سے بھی لاعلم ہے اس لئے مہنگائی کئی گنا بڑھ چکی ہے صنعتی پیداوار گراوٹ کاشکار ہے قرضوں میںبے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے ملکی آمدنی کم ہوگئی ہے دعوے کے باوجود حکومتی خرچے بڑھ چکے ہیں جدھردیکھو ہر طرف ہر محاذ پرناکامیاں ہی ناکامیاںنظرآتی ہیں اسے پارلیمنٹ میںاکثریت بھی حاصل نہیںلیکن اس کی زبردستی اکثریت بناکر ملک کو ایک بڑے بحران سے دوچار کردیا گیا ہے انہی ناکامیوں کا نتیجہ پی ڈی ایم کی صورت میںظاہر ہوا ہے اس اتحاد میںماضی کے دشمن یک جا ہوگئے ہیں کیونکہ موجودہ حکومت کے پاس ملک کوبحرانوں سے نکالنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے بلکہ اس کا سارا زور یک طرفہ احتساب پر ہے یہ احتساب کا پول بھی بری طرح کھل چکا ہے عوام گھسے پٹے سرکاری بیانیہ پر یقین کھوچکے ہیں۔
پی ڈی ایم کی تحریک بہت ہی نازک موقع پر شروع ہوتی ہے ملک کی تین بڑی جماعتوں کے علاوہ صوبائی سطح کی چھوٹی جماعتیں بھی اس کا حصہ بن گئی ہیں ماضی میںچھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں کو غدارقراردے کر کال کوٹھریوں میںڈالاجاتا تھا لیکن اس مرتبہ جوغدار اعظم ہیں ان کا تعلق محب الوطن لوگوں کی سرزمین پنجاب سے ہے میاںنوازشریف کونہ صرف اقامہ رکھنے پر نااہل قراردیاجاچکا ہے بلکہ چند روز قبل انکے خلاف غداری کاپرچہ بھی کاٹا گیا یہی وجہ ہے کہ گوجرانوالہ جلسہ میںمیاںصاحب نے واضح طور پر کہا کہ مجھے کرپٹ کہنا ہے کہیں اشتہاری کہنا ہے کہیںغدار کہنا ہے لیکن آپ کو حساب دیناہوگا کہ آپ نے اپنے حلف کی پاسداری کیوںنہیں کی اور ایک نااہل حکومت کیوں مسلط کی یعنی میاںصاحب ہر طرح کے نتائج بھگتنے کوتیار ہیں انہوںنے کرپشن کاحوالہ دیتے ہوئے چینی اور آٹا چوروںکے ساتھ ’’باجی علیمہ اور جنرل عاصم سلیم ‘‘کے معاملات کاذکر بھی کیا اور حکومت کوخوب ودنوں ہاتھوں سے لیا حیرت کی بات ہے کہ مریم بی بی نے بھی اپنے والد کے موقف کا اعادہ کیا لیکن ان کااسلوب بیان مہذبانہ اور زبان سیاسی تھی وہ اچھی مقررہ بھی ہیں اس لئے حکومت غور کررہی ہوگی کہ مریم بی بی کو آئندہ کے جلسوں میںشرکت سے کیسے روکا جائے ایک مقدمہ انکی مرحومہ والدہ کے ضمنی الیکشن کے موقع پر سرکاری فنڈز کے غلط استعمال کا بنایا گیا ہے ہوسکتا ہے کہ نیب انہیںطلب کرے یا گرفتار بھی کرلے کیونکہ مشیروں کا خیال ہے کہ اگرمریم کو نہ روکا گیا تو وہ حکومت کیخلاف تباہی پھیلادیںگی۔
سنا ہے کہ شہزاد اکبر نے نیب کے بندی خانہ جاکر شہبازشریف سے کئی ملاقاتیں کی ہیں اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ خود کو اپنے بھائی کے بیانیہ سے الگ کردیں ورنہ احتساب عدالتوں سے وہ نہ صرف تاحیات نااہل ہوجائیںگے بلکہ ساری عمر جیلوں میںگزاریں گے یہی پیغام زرداری کو بھی پہنچایا گیا ہے لیکن زرداری نے اس کا حل اسپتال میںداخل ہوکر نکالا ہے لیکن آئندہ جلسوں کے بعد نیب انہیںباقاعدہ حراست میںلے سکتا ہے چنانچہ اس صورتحال میںسب سے اہم کردارمولانا کا ہے انہوںنے نوازشریف کے بیانیہ کوخوبصورت انداز میںبڑھاتے ہوئے جلسہ میںفرمایا کہ اگر یہ حکومت سلیکٹڈ ہے تو اسکے سلیکٹرز بھی ہونگے لہٰذا ہم ان سے کہتے ہیں کہ وہ باز آجائیں گوجرانوالہ جلسے سے غدار قرار دیئے جانے والامحمود خان اچکزئی نے بھی خطاب کیا انہوںنے اپنے سابقہ موقف کو دہرایا لیکن چینلوں نے محمود خان ،ڈاکٹر مالک ،جہانزیب جمالدینی اور میاںافتخار کی تقاریر نہیںدکھائیں گوجرانوالہ کے بعد کراچی میںاس سے بھی بڑا جلسہ متوقع ہے لیکن کراچی بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے یہاں پررہنمائوںکی سیکیورٹی غیرمعمول ہونی چاہئے۔ایسا نہ ہوکہ دشمن پیپلزپارٹی کے گھر میںاس پر حملہ آور ہوجائیں۔گوجرانوالہ جلسہ کا حاصل یہ نظرآیا کہ بلاول اور مریم میدان سیاست میںدوبارہ لانچ ہوگئی ہیں لالہ موسیٰ سے گوجرانوالہ تک بلاول کی بہت بڑی ریلی تھی اسی طرح مریم بی بی کا قافلہ بھی کافی بڑا تھا وراثت ہی سہی لیکن قیادت بلاول اور مریم کی صورت میںنئی نسل کو منتقل ہوگئی ہے۔میاںنوازشریف اور زرداری صرف رہنمائی کا فریضہ ادا کرسکتے ہیں دونوں جانشینوںکو چاہئے کہ وہ مالیات کے ضمن میںاپنے نامور والد صاحبان کی پیروی نہ کریں اور سچے دل سے عوام کی خدمت کا جذبہ لیکر آگے بڑھیں اور اس ریاست کوصحیح معنوں میںایک فیڈریشن بنائیںجیسے کہ1973ء کے آئین میںطے کیا گیاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں