زخمی شیر

تحریر: انور ساجدی
اگرچہ وہ زخمی نہیں تھے لیکن زخمی شیر کی طرح دھاڑرہے تھے غصہ اتنا تھا کہ اپوزیشن کے کئی الزامات کے خود ثبوت فراہم کردیئے خواجہ سیالکوٹی کورنگ باز قراردیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ2018ء کے انتخابات میں وہ عثمان ڈار کے مقابلے میں ہاررہے تھے رات کورو روکر باجوہ صاحب کوفون پر بتایا کہ مجھے بچائیں اس طرح انکی ہارجیت میں بدل گئی یعنی کپتان نے ایک ثبوت تو یہ دیدیا کہ امیدواروں کی کامیابی اور ناکامی میں باجوہ صاحب کااہم کردارتھا گوجرانوالہ جلسہ کو سرکس قراردیتے ہوئے انہوں نے مولانا کیلئے ڈیزل کاپرانا لقب استعمال کیا بلاول اور مریم کو بچے کہہ کر فرمایا کہ نانی بننے کے باوجود وہ انہیں بچی سمجھتے ہیں کپتان کا سارا غصہ نوازشریف پرتھا طعنہ دیا کہ ضیاء الحق کی چوسنی سے وہ سیاست میں آئے جنرل جیلانی کی چھت کاسریا ڈال کر وہ وزیر بنے اور پھر ضیاء الحق کے بوٹ پاش کرکے وزیراعلیٰ بن گئے اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں حال ہی میں قائم شدہ پی ٹی آئی کے پرائیویٹ لشکر ٹائیگر فورس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اعلان کیا نوازشریف کی تقریر کے بعد وہ بدل گئے ہیں اب اپوزیشن کوایک نئے عمران خان سے واسطہ پڑے گا دھمکی لگاتے ہوئے کہا کہ اب میراسارا زورنوازشریف کو واپس لانے پر ہوگا واپس لاکر انہیں عام قیدیوں کی طرح جیل میں رکھونگا کسی ایم این اے کا پروڈکشن آرڈرجاری نہیں ہوگا۔سب کو پکڑوں گاجیلوں میں ڈالوں گا تب انہیں پتہ چلے گا کہ جیل کیا ہوتی ہے اپنے حدود وقیود بھول کرعدلیہ اور نیب کو حکم دیا کہ کرپشن کے مقدمات کاجلد فیصلہ کیاجائے کیونکہ عوام کو لوٹی ہوئی دولت واپس چاہئے وہ بھول گئے یا اپنے سابقہ دعوے سے پھر گئے کہ عدلیہ آزاد ہے اور نیب ایک آزاد ادارہ ہے آئین کی رو سے وہ عدلیہ اور نیب کو حکم صادر نہیں کرسکتے۔
تقریر بڑے مزے کی تھی غصہ اور لطائف سے بھی بھرپور تھی نوازشریف کے بارے میں کہا کہ وہ فوج اور عدلیہ میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں بھلا اتنے بڑے ادارے نوازشریف کی وجہ سے کیسے انتشار کا شکار ہونگے؟ٹائیگرفورس کے جوانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان کاڈٹ کرمقابلہ کریں گے ساتھ میں تڑی لگائی کہ 10لاکھ نوجوانوں نے خود کورجسٹر کروایا ہے کئی لوگوں نے سوال پوچھا ہے کہ جلسہ جلوسوں سے کیاہوتا ہے یہ تو اپوزیشن کاحصول کاکام ہے لیکن عمران خان کی باڈی لینگویج بتارہی تھی کہ وہ اپنے پرائیویٹ لشکر کو اپوزیشن کے مقابلے میں میدان میں اتاریں گے۔یعنی وہ بیٹھے بٹھائے ملک میں ایک خانہ جنگی شروع کروادیں گے اور اپنی حکومت کو خود ہی عدم استحکام کاشکار کردیں گے۔ زیادہ غصے میں اس لئے تھے کہ شائد انہیں کہیں سے ڈانٹ پڑی ہوگی یہ توکپتان کے سوچنے کا مقام ہے کہ ڈھائی سال میں وہ کوئی کارکردگی نہ دکھاسکے تو ڈانٹ تو لازمی پڑے گی وہ اٹھتے بیٹھتے کہتے تھے کہ ادارے انکی پشت پر ہیں توظاہر ہے کہ اپوزیشن کو موقع مل گیا کہ وہ اداروں کو متنازعہ بنائیں اگر کوئی حکومت فیل ہوجائے اسکی وجہ سے غریب لوگوں کی زندگی اجیرن ہوجائے وہ ایک وقت کی روٹی کے محتاج ہوں تو ادارے اس حکومت کی کامیابی کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔
اگرمعاملات کوانجوائے کرنے کی غرض سے دیکھاجائے تو ساکت سیاست میں جان آگئی ہے لوگ مشغول ہوگئے ہیں روز اعلیٰ قسم کی دشنام طرازی طرح طرح کے الزامات جملے بازی اور ایک دوسرے کونیچادکھانے کے گردیکھنے کومل رہے ہیں۔
جہاں تک میاں صاحب کا تعلق ہے انہوں نے ایسا بیانیہ جاری کیا ہے جو پنجاب کے کسی لیڈر سے متوقع نہیں تھی یہ بات کافی حد تک درست ہے کہ انہوں نے خیربخش مری اور خان عبدالولی خان کا وہ بیانیہ اپنایا ہے جو وہ بھٹو کے دور میں کہتے تھے۔بھٹو نے بھی عمران خان کی طرح ایف ایس ایف نامی فورس بنائی تھی جو سیاستدانوں کو پکڑ کر لاہور قلعہ اور کشمیر میں واقع دلائی کیمپ لے جاتی اور اذیتیں دیتی تھی لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلا سب کے سامنے ہے فرزندراولپنڈی شیخ رشید احمد کشمیری نے دھمکی دی ہے کہ بغاوت کے الزام میں ن لیگ پرپابندی لگادی جائے گی یہی کام بھٹو نے نیپ پر پابندی لگاکر کیا تھا یہی کام ایوب خان نے عوامی لیگ پرپابندی لگاکر شیخ مجیب پر اگرقلعہ سازی کیس قائم کرکے کیا تھا لیکن ان مقدمات کا انجام کیا ہوا تاریخ سے ثابت ہے کہ شیخ مجیب نے کبھی لفظ بنگلہ دیش استعمال نہیں کیا تھا بلکہ ایوب خان کے وکلاء نے جودلائل جمع کئے تھے ان میں سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ شیخ مجیب بنگلہ دیش قائم کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ایوب خان کا خیال جو کہ ایک الزام کی صورت میں تھا سچ ثابت ہوگیا حکومت نوازشریف پر غداری کے مقدمے میں کیاالزامات عائد کرے گی؟اصولاً ان پر مغربی اورمشرقی پنجاب کو ایک بناکر عظیم تر یا گریٹر پنجاب بنانے کی سازش کاالزام لگایاجاناچاہئے۔کیونکہ نوازشریف پنجاب کے لیڈر ہیں ان کاتعلق سندھ،بلوچستان اورپشتونخوا سے نہیں کہ ان پرگریٹربلوچستان آزاد پختونستان یا سندھودیش قائم کرنے کا الزام لگ جائے اگرعمران خان میں دم ہے تو وہ کشمیر کو آزادکروائیں اور مشرقی پنجاب پر قبضہ کرکے پاکستان میں شامل کریں اگر دم نہیں ہے تو نعرہ بازی سے گریز کریں۔مولانا نے گوجرانوالہ کے جلسے میں گلگت بلتستان کوپانچواں صوبہ بننے سے روک دیا ہے انہوں نے کہا کہ 1949ء میں سلامتی کونسل کوکشمیر کا جونقشہ پیش کیا گیا اس میں گلگت بلتستان کوکشمیر کا حصہ دکھایا گیا ہے لہٰذا اگراسے پانچواں صوبہ بنائیں گے تو سلامتی کونسل کی قراردادیں اپنی موت آپ مرجائیں گی جس سے انڈیا کے مقبوضہ کشمیر پر قبضے کو قانونی جواز مل جائے گا اگر اسکے باوجود پانچواں صوبہ بنایا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ادھر ہم ادھر تم یعنی وہ کشمیر تمہارا یہ کشمیر ہمارا ویسے کئی لوگوں کا خیال ہے کہ جنگ کے ذریعے کشمیر کا کبھی فیصلہ نہیں ہوگا اگر ادھر ہم ادھر تم کے فارمولے کے تحت یہ مسئلہ حل ہوجائے تو جان چھوٹ جائے گی اور خطے میں اسلحہ کی دوڑ رک جائے گی اور عوام کو ایک بڑی مصیبت سے نجات مل جائے گی اسکے باوجود کہ انڈیا نے کشمیر کا سارا پانی روک دیا ہے پھر بھی کہا جارہا ہے کہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے جب بانی پاکستان نے اسے شہ رگ قراردیا تھا تو ان کی نظریں پانی کے وسائل پرتھی جب وہ نہ رہے تو کاہے کی شہ رگ کیا بہتر نہیں ہے کہ دوطرفہ امن قائم کرکے کروڑوں لوگوں کو بارود اور بھوک سے نجات دلائی جائے۔
گلگت میں کافی عرصہ سے حالات خراب ہیں وہاں کے لوگ ڈیموگرافک تبدیلی کیخلاف احتجاج کررہے ہیں لیکن انہیں دبایاجارہا ہے اسی لئے فرحت اللہ بابرنے کہاہے کہ گلگت بلتستان ایک اور بلوچستان بننے جارہا ہے وہاں پر ہیومن رائٹس کابڑا مسئلہ ہوگیا ہے لیکن پاکستانی میڈیا خاموش ہے۔یہ میڈیا سندھ اور بلوچستان کا بھی یک طرفہ رخ پیش کررہا ہے ڈر کے مارے انہوں نے گوجرانوالہ جلسے میں نوازشریف کی تقریر بھی نہیں دکھائی اور نہ ہی نشر کی۔حد تو یہ ہے کہ سب سے بڑے میڈیا کے لاہور،راولپنڈی اور ملتان کے ایڈیشنوں نے گوجرانوالہ جلسے کا بلیک آؤٹ کردیا کیونکہ حکومت نے سارا اخبار اشتہاروں سے بھردیا تھا اورحکم دیا تھا کہ گوجرانوالہ جلسہ کا بلیک آؤٹ کیاجائے اس عمل سے مذکورہ میڈیا کی ساکھ زمین بوس ہوگئی ہے اور شاہین قریشی مختلف تاویلیں پیش کررہے ہیں۔
اگرحکومت ٹھنڈے دل سے سوچے تو پی ڈی ایم نے اس کا کام آسان کردیا ہے مہنگائی کا رونا رونے والے عوام کی توجہ ہٹ گئی ہے اور وہ حکومت اوراپوزیشن کی دشنام طرازی اور لطائف سے بھرپور طعنہ زنی سے محظوظ ہورہے ہیں ظاہر ہے کہ پی ڈی ایم اپنے دعوے کے مطابق دسمبر تک حکومت کاتختہ الٹنے کی طاقت نہیں رکھتا ہاں اگر ایمپائر اس سے مل جائیں تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔حکومت پر دباؤ جلسوں سے نہیں آتا اگراپوزیشن اسلام آباد کی طرف مارچ کرے اور ڈی چوک پر متاثرکن دھرنادے تب تبدیلی ممکن ہوگی۔