حصول تعلیم اب ایک خواب

تحریر عاطف رودینی بلوچ
تعلیم حاصل کرنا ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت امیر ہو یا غریب سب پر فرض سمجھا جاتا ہے تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے بڑے سے بڑے طاقتور کو شکست دے سکتے ہیں تعلیم ہی کی بدولت اندھیرے سے نکل کر اجالوں کا راستہ چن سکتے ہیں تعلیم ہی انسان میں شعور پیدا کرتا ہے ایسی شعور جس سے انسان اپنے حقوق کے بارے میں جان سکتا ہے اپنے حقوق کی بات کرنا حقوق کے خاطر جدوجہد کرنا اور اپنے حقوق پر مر مٹنا بھی تعلیم ہی سکھاتا ہے یہی وجہ ہے اگر دنیا میں ترقی یافتہ ممالک اور ترقی یافتہ قوموں کے موجودہ حالات پر نظر ڈالیں گے تو انہیں تعلیم یافتہ پائینگے اور اگر ان کے تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو تعلیم کے لیے عظیم قربانیاں، طویل سیاسی، جمہوری و مزاحمتی جدوجہد نظر آئے گا ان سب کے بعد وہ قومیں اور ممالک منظم طاقتور اور ترقی یافتہ بنے۔
بلوچستان ہمیشہ سے بہت سے مسائل کا شکار رہا ہے۔ بلوچستان کے ساحل وسائل کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان کو تجربہ گاہ بھی بنا دیا گیا ہے سوئی گیس سی پیک سیندک پروجیکٹ ریکوڈک گوادر یہاں کے سونا چاندی کرومائیٹ تانبہ کوئلہ یا دیگر بیش قیمتی معدنیات اور پروجیکٹس کسی سے بھی بلوچستان کے محرومیاں اور مسائل حل نہیں ہو سکے البتہ اکثر نئے معدنیات یا ذخائر دریافت ہونے کے بعد یہاں کے باسیوں کے مشکلات اور مسائل میں مزید اضافہ ہوا ہے یہی وجہ سے کہ یہاں کے لوگ نئے معدنیات یا ذخائر کے دریافت پر خوشی کے بجائے خوف میں مبتلا ہوتے ہیں طویل عرصے سے پریشانیوں اور محرومیوں میں زندگی گزارنے کے بعد جب بلوچستان کے نوجوان ان محرومیوں کو دور کرنے اور پریشانیوں کا سامنا کرنے کیلئے تعلیم کا راستہ اپنا کر قلم کا دامن تھاما تو تعلیم دوستی علم دوستی وطن دوستی کے دعویدار حکمرانوں میں ایک خوف طاری ہوا کہ بلوچستان کے نوجوان جب تعلیم یافتہ ہونگے تو انہیں اپنے حقوق کے بارے میں معلومات ہوگا پھر وہ اپنے حقوق کی بات کریں گے اپنے حقوق کے خاطر جدوجہد کریں گے حکمران اسی خوف میں ہر روز نیا تعلیم دشمن پالیسیاں بناتا ہے کبھی بھاری بھرکم فیس کبھی تعلیمی اداروں میں داخلہ سیٹس کی کمی کبھی بغیر انٹرنیٹ کے آن لائن کلاسز کبھی تعلیمی اداروں کو پرائیوٹائزیشن تو کبھی نیا پالیسی بنا کر بلوچستان کے طلباء کو تعلیم سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں
بلوچستان پہلے سے بہت پسماندہ ہے تعلیمی لحاظ سے کافی پیچھے ہیں بلوچستان میں تعلیمی ادارے بھی گنے چنے ہیں جنکا تعلیمی نظام بھی دیگر صوبوں کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے ان تعلیمی اداروں کو بھی بھی تعلیم گاہ بنانے کے بجائے مسائل گاہ اور ناکارہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے نوجوانوں میں منشیات عام کرنا تعلیمی اداروں میں طلبہ کیلئے مختلف قسم کے مشکلات پیدا کرنا شعوری پروگرامز سٹڈی سرکلز پر پابندی عائد کرنا اداروں میں سفارش اور من پسند لوگوں کو اپائنٹ کرکے تعلیم یافتہ طبقے کو دیوار سے لگانے جیسے کئی پالیسیاں سامنے آتی ہے
بلوچستان کے نوجوان اپنے، اپنے ملک و قوم اور معاشرے کے بہتر اور روشن مستقبل اور حصول علم کے خاطر غریب و دیگر مشکلات کا مقابلہ کرکے دیگر صوبوں کے تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں جہاں وفاق نے بلوچستان کے معدنیات ساحل وسائل اور مراعات کے بدلے خیرات میں چند سیٹس مختص کئے ہیں۔ طلباء دن رات کی محنت ڈائریکٹیٹ کے چکر کاٹتے کاٹتے بمشکل پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے کوٹہ پر داخلہ لینے میں کامیاب ہوجاتے ہے اور کئی سال اپنے سرزمین سے دور تعصب کے سائے مذہبی انتہا پسندوں اور فاشسٹ تنظیموں کے ڈھنڈے برداشت کرتے کرتے اپنے تعلیم مکمل کرنے میں بمشکل کامیاب ہوجاتے ہیں حکومت بلوچستان کے نوجوانوں کے اس محنت برداشت اور لگن سے خوف محسوس کرنے لگا اپنی خوف کو ختم کرنے اور بلوچستان کے نوجوانوں کو اندھیروں میں رکھنے اور تعلیم کے دروازے بند کرنے کے خاطر انتظامیہ نے اچانک بلوچستان کیلئے مختص کردہ سیٹس اور سکالرشپ ختم کرنے کا اعلان کیا تاکہ بلوچستان کے نوجوان تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہو جائے اور بلوچستان پسماندہ ہی رہے وہاں کے لوگ غیر سیاسی غیر تعلیم یافتہ ہو کر اندھیرے میں رکھے تاکہ ان کے وسائل لوٹنے و قبضہ کرنے میں کوئی مشکلات نہ ہو
لیکن تاریخ گواہ ہے بلوچستان کے نوجوانوں نے جو قدم اٹھایا اسے پورا کرنے کیلئے جی جان لگادی ہے حصول تعلیم کے خاطر پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلباء بھی مایوسی ہو کر گھر لوٹنے کے بجائے تاریخ پھر سے دہراتے ہوئے ثابت قدم رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے تک جدوجہد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا طلباء نے کئی ہفتوں تک تعلیمی اداروں کے سامنے احتجاجی کیمپ لگایا لیکن حکومتی اراکین ان کے مسائل سننے اور حل کرنا تو دور ان کے طرف توجہ نہ دی نوجوان خاموشی کا اظہار کرنے کے بجائے چلتن سے بلند اور کوہ سلیمان سے طویل حوصلوں کے ساتھ ملتان سے سینکڑوں کلومیٹر دور اقتدار کے شہر اسلام آباد کے طرف لانگ مارچ کی کرنے کا فیصلہ کیا۔ روشن مستقبل کا خواب، اندھیر بلوچستان کیلئے اجالا بلوچستان کے لاکھوں افراد کے امیدوں کو قمر بستہ کرکے ثابت قدمی سے لانگ مارچ شروع کیا طلباء کئی دنوں سے سینکڑوں کلومیٹر پیدل مارچ کر رہے ہیں تاحال ریاست ان نوجوانوں سے غافل ہے طلباء کئی شہروں سے گزرتے ہوئے مختلف سازشوں مشکلات تعصب و نفرت کا سامنا کر رہے ہیں وفاقی حکومت فلحال صرف اپوزیشن کے اتحاد کو چور کرپٹ مفاد پرست ٹھہرانے میں مصروف ہے پنجاب میں صوبائی حکومت بھی وفاقی حکومت کے پارٹی کا ہے اسی لیے پنجاب کے صوبائی حکومتی اراکین کا بھی توجہ پی ڈی ایم پر ہے جہاں تک بلوچستان حکومت کا بات ہے بلوچستان کے لوگوں نے کبھی محسوس ہی نہیں کیا کہ بلوچستان میں ایسا حکومت موجود ہے جو بلوچستان کے مظلوموں مسکینوں غریبوں ڈاکٹروں انجینئروں اور طلباء کےمسائل سنے اور انہیں حل کرانے کی کوشش ہی کردے۔
بلوچستان کے نوجوانان اس وقت سخت آزمائشوں سے گزر رہے ہیں یہ آزمائشیں حکومتی دباؤ علم و شعور پر قدغن پنجاب کے تعلیمی اداروں پڑھنے کے وجہ سے سخت تعصب اور نفرت اور دیگر شکلوں میں سامنے آ رہی ہے لیکن بلوچستان کے نوجوان اسی اپنے تقدیر کا حصہ سمجھ کر بخوشی برداشت کرتے اور ان مشکلات کا سامنا پر امن اور جمہوری انداز میں خاموشی سے کرتے ہیں لیکن انکی جہد شور مچا کر پورے خطے کو متوجہ کرتی ہے ریاست کو ان نوجوانوں کے برداشت کے ختم ہونے سے پہلے ہی ان کو اس ملک کا شہری سمجھ کر ان کو بنیادی سہولیات فراہم کریں کیونکہ انسانی فطرت میں برداشت کی ایک حد ہوتی ہے لیکن اگر وہ حد سے پار ہوئی تو برداشت ٹوٹ جاتی ہے اور اس ٹوٹنے کا نقصان کتنا ہو اسکا اندازہ لگانا ناممکن ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں