ریڈزون کراس کرنے کاانجام

تحریر: انور ساجدی
کھیل ابتدا ہی میں بہت دلچسپ اور سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہوگیا ہے،مریم کے شوہر کیپٹن صفدر کو علی الصبح کو مقامی ہوٹل سے گرفتار کرلیا گیا اس گرفتاری سے سندھ حکومت یا بلاول بھٹو کو سخت خفت اور ہزیمت کاسامنا ہے کیونکہ بظاہر یہ گرفتاری سندھ پولیس کے ہاتھوں ہوئی ہے لیکن دراصل ہوٹل کا تالا توڑ کر گرفتاری کیلئے جانے والے لوگ اور تھے۔وزیراعلیٰ کو صبح اس کا پتہ چلا وہ کافی پریشان ہوئے جبکہ سعید غنی نے ابتدائی بیان میں فرمایا کہ گرفتاری میں سندھ پولیس ملوث نہیں ہے واقعہ کے بعد مولانا نے مریم سے ملاقات کی اور دونوں اس بات پر حیران اور پریشان تھے کہ ایف آئی آر کس کے کہنے پر کاٹی گئی اور گرفتاری میں پھرتی کس نے دکھائی یہ گرفتاری پی ڈی ایم میں دراڑ ڈالنے کی بھی کوشش ہے لیکن مولانا اس کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں کیپٹن صاحب کی گرفتاری سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ اور صوبوں کی طرح سندھ میں بھی وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کاحکم نہیں چلتا بلکہ سارے ملک میں یکساں نظام حکومت نافذ ہے۔
قائداعظم کی توہین کا قانون اتنا زیادہ سخت نہیں ہے لیکن مقدمہ درج کرنے والے نامعلوم شخص نے الزام عائد کیا ہے کہ کیپٹن صاحب نے انہیں قتل کی دھمکی دی ہے یہ الزام زیادہ سنگین ہے لیکن انکوائری کے بغیر ایک معروف شخص کی گرفتاری کوئی بڑی کارستانی لگتی ہے چونکہ مریم نواز بھی اس کیس میں نامزد ہیں اور پنجاب کے وزیراطلاعات نے انکی گرفتاری کا مطالبہ بھی کیا ہے لہٰذا بعیداز امکان نہیں کہ اگلی گرفتاری مریم نوازکی ہو حکمرانوں کا خیال ہے کہ مریم کے بغیر پی ڈی ایم کی تحریک کا چلنا مشکل ہے لہٰذا حکومت یہ قدم ضرور اٹھائے گی۔
ٹائیگر فورس سے عمران خان کے خطاب کے بعد طاقت کے عناصر ایک پیج پر آگئے ہیں اور وہ مل کر اپوزیشن کی جماعتوں کو سبق سکھانا چاہتے ہیں حالانکہ گوجرانوالہ میں نوازشریف کے جارحانہ خطاب کے بعد کراچی جلسہ میں مریم نے اپنا انداز بیان یا بنیادی موقف بدل کر عندیہ دیا کہ وہ انتہا تک جانا نہیں چاہتی مولانا نے تو آگے بڑھ کر شاخ زیتون پیش کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نادان دوست ہیں ان سے تو دانا دشمن بہترہیں یعنی آپ دوستی کا ہاتھ ہمارے ساتھ بڑھائیں کراچی جلسہ سے جتنے لوگوں نے خطاب کیا انہوں نے اعتدال کادامن نہیں چھوڑا اور کسی نے بھی ریڈزون کراس نہیں کیا بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اگر کیپٹن صفدر کے بعد اورگرفتاریاں ہوئیں یا سندھ حکومت کیخلاف اقدامات کئے گئے تو یہ تحریک چل نہیں پائے گی چنانچہ پی ڈی ایم کی بعض جماعتوں نے مشورہ دیا ہے کہ کوئٹہ جلسہ کے بعد پلان کوتبدیل کیاجائے اور اسلام آباد کی طرف مارچ اور دھرنے کا پروگرام بنایاجائے کیونکہ تمام بڑے اور چھوٹے حکمران سخت غصے میں ہیں۔وہ تحریک کوابتداء میں ہی کچلنا چاہتے ہیں۔
یہ قیاس آرائی بھی جاری ہے کہ اگر پی ڈی ایم حکومت کو ہلادینے میں ناکامی سے دوچار ہوئی تو پاکستان میں ایک بدترین آمریت سراٹھائے گی اور جمہوریت کیلئے اٹھنے والی آوازوں کاگلاگھونٹ دے گی ویسے تو اس آمریت کا آغاز غیر اعلانیہ سنسرشپ سے ہوا ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تمام چینلوں نے تقریباً تمام قوم پرست رہنماؤں کے خطابات کو بلیک آؤٹ کردیا اختر مینگل اور محمود خان اچکزئی کے خطاب کی چند سیکنڈز کی جھلک دکھائی گئی جبکہ امیرحیدر ہوتی،محسن داوڑ،ڈاکٹر مالک اور دیگررہنماؤں کی تقاریر نہیں دکھائی گئیں عین ممکن ہے کہ عمران خان کی حکومت بھٹو دور کے دلائی کیمپ کی یاد تازہ کریں اور مخالفانہ رائے کو مکمل طور پردبادیں کیپٹن صفدر کی پراسرار گرفتاری بکتر بند گاڑی میں تھانہ لے جانا اوربکتربند گاڑی میں سٹی کورٹ میں پیش کرنا کہانی کے اگلے حصوں کی نشاندہی کررہا ہے۔
پاکستان میں اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں ہے جنرل ایوب خان،جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے دور میں جو کچھ ہوا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہے۔جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی پھانسی کے بعد بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر کے ساتھ جو سلوک کیا وہ آمرانہ دور کا بدنما داغ ہے جس زمانے میں بھٹو خواتین کو ظلم کا شکار بنایا گیا پیپلزپارٹی آج کی مسلم لیگ ن سے زیادہ مقبول تھی لیکن ضیاء الحق کی آمریت نے پیپلزپارٹی کے کارکنوں پر قہر ڈھاکر کارکنوں کی تحریک کچل دی تھی جبکہ پارٹی کے اہم رہنما درپردہ ضیاء الحق سے مل گئے تھے بعد میں وقت نے ثابت کردیا تھا کہ جتوئی پیرزادہ کھر،کوثر نیازی اور حنیف رامے نے اپنے قائد اور پارٹی سے شدید بے وفائی اور دھوکے کاارتکاب کیا تھا جنرل مشرف نے شریف خاندان کے ساتھ جو کچھ کیا ن لیگی کارکن اور پارٹی رہنما اپنے قائدین کیلئے تحریک چلانے میں ناکام رہے تھے اب کی بار معاملہ دوسرا ہے شریف خاندان کا بڑاحصہ لندن میں ہے شہبازشریف اور حمزہ شہباز پہلے سے جیلوں میں ہیں میدان میں صرف مریم اکیلی ہیں اور اسکے بارے میں حکمرانوں کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں کیپٹن صفدر کی کراچی سے گرفتاری نے پیپلزپارٹی کے بارے میں شکوک بڑھادیئے ہیں یہ سوال زبان زد عام ہے کہ عمران خان کیخلاف تحریک کے دوران پیپلزپارٹی سندھ حکومت کی قربانی دینے کیلئے تیار ہے کہ نہیں پی ڈی ایم کی باقی جماعتیں تو اقتدار کے اسٹیک ہولڈر نہیں ہیں ان کا کچھ بھی نہیں جائے گا۔واحد اسٹیک ہولڈر پیپلزپارٹی ہے اگرچہ18ویں ترمیم کے بعد کسی بھی حکومت کی برطرفی کاآسان راستہ نہیں ہے لیکن اگر حکومت انتہائی اقدام اٹھانے کا فیصلہ کرلے تو شریف الدین ثانی کوئی نہ کوئی راستہ نکال سکتے ہیں اگر حکومت کا اقدام غیر آئینی بھی ہوا تو عدالتوں کے ذریعے اسے ریلیف مل سکتا ہے حالیہ کشمکش میں حکومت نے بھی اپنے اتحادیوں کو متحرک کردیا ہے ایم کیو ایم خم ٹھونک کر میدان میں اتری ہے اسے سندھ کی تقسیم کا اپنا نعرہ یادنہیں اس نے ایک نام نہاد ریلی کاذکر کیا ہے جس نے سندھو دیش کے نعرے لگائے تھے ادھر ق لیگ نے بھی ن لیگ کیخلاف کمرکس لی ہے ایک بھاری بھرکم اضافہ طاہر اشرفی کا ہے جنہیں اچانک حکومتی ٹیم میں شامل کیا گیا ہے شیخ رشید نے تو ن لیگ پرپابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ مریم نواز نے کراچی جلسہ میں انتباہ کیا کہ ایسی غلطی نہ کرنا ورنہ آپ کو لینے کے دینے پڑیں گے۔کچھ بھی ہو صورتحال بہت دلچسپ ہے نئے حالات سے ملکی مسائل ایک دم سے حل ہوگئے ہیں نہ کرونا کاڈر باقی رہا نہ معیشت کی فکر نوجوان اپنی بیروزگاری بھول چکے ہیں لوگوں کو روٹی کی قیمت میں اضافہ بھی یاد نہیں رہا مہنگائی بے معنی ہوکر رہ گئی ہے سیاسی استحکام کانہ مرکزی حکومت کو فکر ہے نہ کسی اور کوایسا لگتا ہے کہ ساری توجہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پر مرکوز ہے توقع ہے کہ آئندہ حالات مزید دلچسپ رخ اختیار کریں گے ہلہ گلہ مزیدبڑھے گا سیاسی جمود نہ صرف ٹوٹ گیا بلکہ گلیشیئر کی طرح زوردار دھماکہ سے ٹوٹا ہے آئندہ چند ہفتوں میں سیاسی کارکن بڑی تعداد میں سڑکوں پر ہونگے سندھ حکومت کیپٹن صفدر کی گرفتاری کی مختلف تاویلیں پیش کررہیہے اس کا دعویٰ ہے کہ مریم کے شوہر کو سندھ حکومت نے گرفتارنہیں کیا ہے تو سوال یہ ہے کہ سندھ پولیس نے ایف آئی آر وزیرداخلہ سے پوچھے بغیر کیسے درج کی اور انہیں تھانہ لے جانے کیلئے پولیس کی بکتربند گاڑی کیوں استعمال کی۔اگر آئی جی کو یرغمال بناکر ان سے زبردستی احکامات حاصل کئے گئے تھے تو وزیراعلیٰ نے صبح تک معاملات کو ٹھیک کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی ایک اہم بات ہے کہ حکومت ملک میں خانہ جنگی شروع کروانے کیلئے پوری طرح تیار ہے مثال کے طور پر جب کیپٹن صفدر کو سٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو تحریک انصاف کے کارکن بھی پہنچے ہوئے تھے اور انہوں نے ن لیگ اور نوازشریف کے خلاف نعرے بازی کی اس سے یہی لگتا ہے کہ اگر اپوزیشن سڑکوں پر آگئی تو تحریک انصاف کے کارکن اسکے سامنے آجائیں گے غالباً تحریک انصاف کے رہنماؤں کو معلوم نہیں کہ اس خانہ جنگی کا کیا نتیجہ نکلے گا سنا ہے کہ بہت دباؤ ہے کہ سیاسی طریقہ کارچھوڑ کر ملکی معاملات کو ڈائریکٹ اپنے ہاتھوں میں لیاجائے تحریک انصاف کے کارکن یہ کام آسان کررہے ہیں۔سندھ حکومت کی بے بسی کااظہار بلاول نے بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ رات گئے کیپٹن صفدر کی گرفتاری سندھ کی روایات کے منافی ہے ان کا کہنا ہے کہ واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیدیا گیا ہے لیکن یقینی طور پر اس تحقیقات کاکوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ جن ہاتھوں نے یہ کام کیا ہے وہ بہت مضبوط ہیں ویسے ہر روز یہ واضح ہوتا جاتا رہا ہے کہ اس ملک کو کون چلارہا ہے یہ جو ظاہری حکومت اور پارلیمانی نظام ہے یہ دنیا کودکھانے کیلئے ہے ورنہ وحدانی طرز حکومت رائج ہے اور سارے صوبے اور ادارے اسکے تابع ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں