لاپتہ نظریہ

تحریر:رشید بلوچ
مسلم لیگ (ن) کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رومانوی داستان جنرل ضیاء کے دور میں شروع ہوئی تھی،یہ داستان رضامندی اور بخوشی 19 سال تک چلتی رہی،بیچ میں جنرل پرویز مشرف مارشل لاء سے دونوں جوڑوں میں چند سال کا بریک اپ ہوگیا تھا لیکن 2013 میں 12 اکتوبر 1999 کی ٹوٹی ہوئی بندھن دوبارہ جڑ گئی تا آنکہ مشہور زمانہ پانامہ اسکینڈل میں ثاقب نثار کی عدالت نے میاں نواز شریف کو کھینچ کر نا اہل قرار دیدیا،وزارت عظمی سے سبکدوشی کے بعد جی ٹی روڈ پر نوا شریف نے (ووٹ کو عزت دو) کے نام کا ایک نیا بیانیہ پیش کر دیا اس بیانیہ کا ساتھ دینے کیلئے مریم نواز کے علاوہ ن لیگ کا کوئی بھی سورما ساتھ دینے کو تیار نظر نہیں آرہا تھا،حتی کہ چھوٹے میاں بھی اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہ ہوئے، عمران حکومت کے دو سالوں میں چھوٹے میاں نے اپنے بڑے بھائی کے آشیرباد لیکر اپنے پرانے اداؤں سے روٹے ہوئے یار کو منانے کی کافی کوششیں کیں لیکن یار کو لبھانے میں ناکام رہا، نامراد عاشق ن لیگ دوبارہ”ووٹ کو عزت دو“ کی پٹڑی پر لگ گئی ہے۔
گزشتہ سال کو مولانا فضل الرحمان نے حکومت مخالف بیانیہ لیکر آزادی مارچ اسلام باد پہنچے تھے تب”ووٹ کو عزت دو“ کا چھوٹا شیر موقع کو غنیمت سمجھ کر پنجاب کا وزارت اعلی لینے کے چکر میں لگ گئے،بھتیجی نے خاموشی کاروزہ رکھ کر چاچو جان کوجی بھرکھیلنے کی کھلی اجازت دیدی،وقت پلٹا کھانے سے رہا چاچو نامراد رہے تو ایک بار پھر نظریاتی باپ بیٹی ووٹ کا تقدس بحال کرنے میدان میں کھود پڑے ہیں۔
،بھلا ہو مولانا کا جنہوں نے ایک سال کی محنت کے بعد جیسے تیسے کرکے پی ڈی ایم کے نام پر اپوزیشن کو ایک پلیٹ فارم دیدی، مولانا کا پیدا کردہ پی ڈی ایم کے منچ پر گوجرانوالہ کے جلسے میں بڑے میاں نے کھل بات کی اس سے ایسا لگتا ہے میاں صاحب مستقبل قریب میں واپس آنے کا پروگرام نہیں رکھتے اب انہوں نے لندن میں رہ کر ویڈیو تقاریر کرنی ہے تاآنکہ چھوٹا بھائی کوئی وسیلہ دریافت نہیں کر پاتے ،جس دن کوئی شارٹ کٹ رستہ نکل آئے یقین مانیں بڑے میاں اسی دن آن وارد ہوں گے جب تک ایسا کوئی وسیلہ پیدا نہیں ہو جاتا تب تک ”ووٹ کو عزت دو“ کا گانا بجتا رہے گا۔۔۔۔
آپ کو 2013کے عام انتخابات یاد ہوں گے،طالبان کا ڈھنکا بجتا تھا اے این پی روزانہ لاشیں اٹھا رہی تھی،پیپلز پارٹی کو سخت ترین دھمکیاں مل رہی تھیں،اختر مینگل جلا وطن تھے کوئی بھی جماعت الیکشن مہم چلانے سے یک دم قاصر تھی بلکہ خوف زدہ تھی لیکن پاکستان کی واحد جماعت ن لیگ تھی جسے کھلم کھلاجلسے جلوس کرنے اور الیکشن مہم چلانے میں کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی بلکہ پنجاب میں کالعدم تنظیمیں ن لیگ کی الیکشن مہم خود چلا رہی تھیں،تب ووٹ کی عزت کو کسی غنڈے بد معاش سے کوئی خطرہ لاحق نہیں تھا،زرا ایمانداری سے بتائیے 2013 اور 2018 کے عام انتخابات میں کوئی چیز قدرے متفرق ہے؟ اگر ان سات سالوں میں کوئی چیز بدلا ہے تو وہ ہے ن لیگ کی جگہ تحریک انصاف نواز شریف کی جگہ عمران خان۔
نواز شریف نے پانامہ کیس میں نا اہل ہونے کے بعد کہا تھا کہ میں اب نظریاتی ہوگیا ہوں لیکن انہوں نے یہ نہیں بتا یا کہ اس نے کونسا نظریہ گود لیا ہے،جن لوگوں کو گمان ہے کہ نواز شریف اب نظریاتی ہوگئے ہیں انہیں زرا ماضی کے جھرکوں میں جھانکنا ہوگا، انہیں دیکھنا ہوگا کہ ن لیگ ماضی میں اپنے کیئے گئے کرتوتوں سے کس حد تک نادم ہے،،ن لیگ نے پوری زندگی پرو اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کی ہے اسکے کارکن کی فطرت دائیں بازو کی پرواسٹیبلشمنٹ کی سیاست بن گئی ہے اسے بدلا نہیں جاسکتا نہ ہی ن لیگ کا نظریہ بدل سکتا ہے،اگر واقعی میاں نواز شریف پی ڈی ایم کاز اور ووٹ کو عزت دو کے نظریہ سے مخلص ہیں اور وہ مفاہمتی سیاست سے تائب ہوگئے ہیں تو انہیں اگلی فلائیٹ لیکر پاکستان آنا چاہئے انکے پاکستان آنے کے دو واضح اثرات نمودار ہوں گے،ایک یہ کہ ن لیگ پر پرو اسٹیبلشمنٹ ہونے کا دھبہ دھونے میں آسانی ہوگی اور دوسرا اسکے نظریاتی کارکن کو حوصلہ مل جائے گا،جب لیڈر قید میں ہو کارکن پرجوش ہوجاتا ہے،نواز شریف کو جیل سے نہیں ڈرنا چاہئے کیونکہ جیل لیڈروں کا دوسرا گھر ہوتا ہے، میں یہاں نیلسن منڈیلا،مہاتما گاندھی کی مثال نہیں دوں گا، نواب اکبر خان بگٹی،میر غوث بخش بزنجو،عبدالصمد خان اچکزئی،سردار خیر بخش مری،آصف زرداری اور بے نظریہ بھٹو نے یہیں اسی کرہ ارض پر اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں میں گزار دی ہیں،نواز شریف کیوں جیل جانے سے ڈرتے ہیں وہ حالات کا مقابلہ کرنے کے بجائے بیرون ملک کیوں جا بسے ہیں، بہت سے لوگوں کا خیال ہوگا کہ انہیں علاج کرانی ہے جیل میں رہ کر ان کی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے،اسکا سادا سا جواب یہ ہے کہ لیڈر موت سے نہیں ڈرتا،اگر یہی سوچ جیل کاٹنے والے ہر لیڈر کا ہوتا تو بخدا نیلسن منڈیلا کبھی جیل نہ جاتے،ارسطو زہر کا پیالہ ہنسی خوشی حلق میں نہ انڈیلتا،یہ تمام ہستیاں نواز شریف کی طرح سوچ کر حکمران وقت کے ساتھ مفاہمت کرکے عازم سفر ہوتے تو انکی تا ریخ نہ بنتی،میں بیٹھ کر مثال نہیں دے رہا ہوتا۔
نواز شریف ایک بار بغیر مفاہمت کے اپنی بیمار شریک حیات کو بیرون ملک چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ پاکستان آئے تھے ان کو توقع تھی کی بیٹی سمیت گرفتاری سے پنجاب کے عوام اٹھ کھڑے ہوں گے ہنگامہ ہوگا،لیکن یہاں بلکل ترکی کے برعکس معاملہ ہوا،نواز شریف کی گرفتاری سے پنجاب کے عوام کا کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا،ایسا لگ رہا تھا کچھ ہوا ہی نہ ہو، اسکے بعد نواز شریف کو ادراک ہوا کہ اس نے پاکستان واپس آکر غلطی کی،ایک بار پھر انہیں بیرون ملک جانے کا ایک موقع ہاتھ لگ گیا اب وہ مفاہمت کے بغیر واپس آنے والے نہیں،چہ جائے کہ میاں صاحب واپس آجائیں بلکہ مریم نواز نے پاپا کی تیمارداری کیلئے لندن جانے کی کافی جتن کی لیکن انہیں حکومت نے جانے کی اجازت نہیں دی،
ایک ایسی تحریک جسکا مین اسٹیک ہولڈر بیرون ملک جانے کیلئے حکومتی اجازت کامنتظر ہو اس سے فیصلہ کن جنگ لڑنے کی توقع رکھنا مضحکہ خیز ہے،ن لیگ کوجب بھی موقع ملا وہ مفاہمت کیلئے چند شرائط پر راضی ہوگی،شہباز شریف کے معاملات تقریباً طے ہو چکے ہیں اب معاملہ نواز شریف کے کیسز اور نا اہلیت پر اٹکا ہوا ہے جس دن یہ معاملہ حل ہوا تو مریم نواز کو لندن میں ڈھونڈنا پڑے گا،چونکہ فی الحال نواز شریف پر حکومت کو ئی مفاہمت کیلئے تیار نہیں ہے اس لیئے مریم نواز تحریک کا حصہ بنتی رہے گااس دوران ضروت پڑنے پر ن لیگ کسی بھی وقت اسمبلیوں سے استعفے کا آپشن استعمال کر سکتی حالانکہ استعفے والا آپشن مولانا صاحب نے بہت پہلے ن لیگ کے سامنے رکھ دی تھی لیکن ن لیگ استعفی کارڈ فی الحال کھیلنا نہیں چاہتی،پیپلز پارٹی کا تحریک چلانے کا فی الحال کوئی موڈ نہیں ہے،بی این پی،نیشنل پارٹی اور اے این پی دنیا داری میں اس تحریک کا حصہ بنے ہیں بقول محمود خان اچکزئی”بلوچ ماما“، تو ماما کو اس تحریک سے کوئی سر و کار نہیں انکے مسائل کچھ الگ سے ہیں انہوں نے کبھی مرکز کی سیاست نہیں کی ہے ایک حاصل خان بزنجو کسی حد تک مرکزیت سے جڑے ہوئے تھے اب وہ بھی دنیا میں نہیں رہے،اپنے ڈاکٹر مالک بلوچ اور ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کا نام تک میاں صاحب کو نہیں یاد نہیں توکجا کہ اس جم غفیر میں ہمارے لیئے کوئی گنجائش موجود ہو، چونکہ مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی کو مرکزی سیاست سے دلی لگاؤ ہے اور ساتھ ساتھ ان پر مرکز کی سیاست کسی حد تک جچتی بھی ہے تو اس لیئے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کو ان دو پشتون لیڈروں مولانا فضل الرحمان اور محمود خان اچکزئی نے آگے لیکر چلنا ہے لیکن اس میں کامیابی اور ناکامی شرط نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں