گڈ گورننس کا فقدان۔۔۔
تحریر:رشید بلوچ
بلوچستان سے بہت ساری خبروں میں ایک خبر یہ ہے کہ وزیراعلی بلوچستان جام کمال نے صوبہ بھر میں پی ایس ڈی پی اسکیمات پر کام شروع نہ کرنے کی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے،سرکاری مراسلے میں کہا گیا ہے کہ اسکیمات پر کام شروع کرنے کی ذمہ داری جن عناصر کو دی گئی تھی وہ کسی بھی اسکیم پر عملدرآمد کرانے اور کام شروع کرنے میں ناکام رہے،لیکن مراسلے میں یہ نہیں بتا گیا کہ تحقیقات کونسا ادارہ کرے گااگر کوئی زمہ دار ٹھرا یا گیا تو اسکے خلاف کس نوعیت کی کاروائی کی جائے گی۔؟ اس سے قبل وزیر اعلی انسپیکشن ٹیم نے ضلع آوران میں پانچ سالوں کے منصوبوں کی انکوائری کیلئے ایک ٹیم بھیجی تھی،انسپیکشن ٹیم نے اپنی پوری رپورٹ وزیر اعلی کو پیش بھی کر دی تھی لیکن آوران کی رپورٹ ہزاروں انکوائری زدہ فائلوں کے نیچے دب گئی،کسی کے خلاف کاروائی تو درکنار زمہ داروں کا تعین تک نہیں ہوسکا،آوران قسمت کا مارا وہ علاقہ ہے جو پہلی بار اسے دیکھتا ہے تو آنسو بہا کر اسکی پسماندگی کا رونا ضرور روتا ہے جیسے ہی آوران کی سر زمین عبور کر تا ہے اسکے بعد دوبارہ پلٹ کر دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا،آوران میں 2013 کو قیامت خیز زلزلے کے متاثرین آج بھی کسی مسیحا کا منتظر ہیں،اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے علاقے کا حال دیکھ کر کہا تھا اگر میں بھی آوران کا باسی ہوتا تو شاید بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلا جاتا، چوہدری نثار جیسے جذباتی خیالات پنجاب کے اس وقت کے وزیر اعلی شہباز شریف کے بھی تھے، اسکے بعد کسی نے مڑ کر آوران کی طرف نہیں دیکھا، باقیوں کا کیا گلہ کریں ستم ظرفی تو یہ دیکھئیے کہ میرے آبائی علاقے کا“ منتخب“ نمائندہ بھی ہر پانچ سال بعد اپنی الیکشن مہم چلانے کی خاطر چند دنوں کیلئے آوران کا دورہ کرتا ہے اور تاثر یہ دیتے ہیں کہ آوران والے اسکے پرانے کپڑوں کے جیب رہتے ہیں،آوران ہی نہیں بلکہ وزیر اعلی نے کچھ اس طرح کی رپورٹ بہت سارے دیگر علاقوں سے بھی طلب کی تھی سب کا حال وہی ہوا جو آوران کی رپورٹ کا ہوا ہے،بظاہر سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ پر خاموشی سے لگ ایسا رہا ہے کہ وزیر اعلی بلوچستان نے آواران منصوبوں کی رپورٹ سیاسی کارڈ کیلئے محفوظ کر کے رکھی ہیے تاکہ ضرورت پڑنے پر اسے استعمال میں لایا جاسکے،وزیر اعلی بلوچستان نے ایک بارپھر صوبہ بھر کے اسکیمات پر کام شروع نہ کرنے کے خلاف انکوائری کا حکم صادر کیا ہے لیکن یہاں بھی شبہ یہی کہ نئے رپورٹس کا حشر وہی ہونے والا ہے جو سابقہ رپورٹس کا ہوا ہے اس انکوائری آرڈر سے عوام کو خاص توقع نہیں رکھنی چاہئے۔۔۔۔
بلوچستان کی موجودہ حکومت کے دو سالوں میں دعوے تو بڑے کیئے گئے لیکن صوبے میں مفاد عامہ کیلئے کسی سنگل منصوبے کی بنیادی خشت تک نہیں رکھی گئی،جام کمال حکومت نے بلوچستان کے سیاحتی مقامات کی رسائی کیلئے4000 کلو میٹر سڑکیں بنانے کے منصوبوں کا اعلان کیا اور ہر محفل میں اسکا زکر بھی کرتے رہے لیکن نتیجہ صفر سے آگے نہیں بڑ سکا،اسکے علاوہ بھی بہت سارے منصوبوں کا بھی اعلان کیاگیا ہے جن کے شروع ہونے کے کہیں سے بھی آثار نظر نہیں آتے۔
وزیر اعلی سوشل میڈیا میں متحرک نظر آتے ہیں انکے اپنے بقول وہ 200 وٹس اپ گروپس کے سر براہ ہیں،24 گھنٹوں میں انکے درجنوں ٹوئٹس اپلوڈ ہوتے ہیں ان کی تمام ایکٹیویٹز کی معلومات سوشل میڈیا سے عوام کو میسر ہوتی ہیں،اپنے مخالفین کو بھی سوشل میڈیا پر ہی جواب دیتے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں،اب چند دنوں سے وزیر اعلی اور سردار اختر جان کے درمیان سوشل میڈیا میں لفظی گولہ باری کا سلسلہ چل نکلا ہے،دونوں واجہ کار دھرتی ماں کی وفادار سپوتر ہونے کے دعویدار ہیں،اپنے اپنے کریٹ ایریا میں دونوں کا دعوی بھی درست مان لینا چاہئے،اب دعوؤں سے کچھ آگے بڑھ کر کارکردگی بھی دیکھنی ہوگی،چونکہ جام کمال اس وقت بطور وزیر اعلی ایک اہم زمہ دار پوزیشن پر ہیں تو صوبے،عوام اور دھرتی ماں کیلئے بہتر بیٹے ہونے کی زمہ داری ادا کرسکتے ہیں،زمہ دار لوگ دعوے نہیں بلکہ گھر اور کنبے کو بہتر سہولت فراہم کیا کرتے ہیں۔۔۔
یہ بات بھی درست ہے کہ آج کے برقی دور میں سوشل میڈیا کے استعمال اور فوائد سے انکار ممکن نہیں لیکن ایک ایسا صوبہ جس کے 80 فیصد عوام انٹر نیٹ کی رسائی کی استطاعت نہ رکھتے ہوں اور تو اور بلوچستان کی آدھی کابینہ سوشل میڈیا کے استعمال سے واقفیت نہ رکھتی ہو تو ایسی صورت میں سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ مؤثر نہیں ہوتا، سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 5فیصد لوگ ٹوئٹر استعمال کرتے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ وزیر اعلی جام کمال کے سوشل میڈیا کے زریعہ حکومتی کارکردگی محض 5فیصد لوگوں کو معلومات فراہم کر رہے ہیں۔۔
بلوچستان میں سڑکیں،ہسپتال،سکول بوسیدہ ہوچکے ہیں معیار تعلیم ہر گزرتے دن کے ساتھ پستی کی طرف جارہا ہے، غریب طلباء کو نئے اسکالر شپس ملنے سے رہے بلکہ اسکالر شپ ہولڈر طلباء تعلیمی اداروں سے نکالے جارہے ہیں، پرائیویٹ سیکٹر میں زرائع روزگار نہ ہونے کی وجہ سے پڑھے لکھے اور نیم خواندہ نوجوان سرکاری نوکریوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں سالوں سے خالی پڑی سرکاری آسامیاں کئی بار مشتہر ہوکر کینسل کی جاتی ہیں، حالیہ دنوں میں لیویز فورس کی خالی آسامیاں پر کی گئیں یہاں بھی رشوت و سفارش کا واویلا مچا ہوا ہے ایک سٹنگ ایم پی اے اپنے علاقے میں لوگوں لیکر دھرنا دیئے بیٹھے ہیں انکا الزام یہ ہے کہ ایک سپاہی کی نوکری کیلئے ضلعی انتظامیہ نے 20,20 لاکھ روپے لیکر لوگوں کو نوکریاں دی ہیں، حکومت کے دعوے وعید اپنی جگہ لیکن ان دو سالوں میں حکومت کی طرف سے کسی بھی سیکٹر میں ایک پائی کی بھی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو ہزارہا بار انکوائری کمیٹیاں بٹھا ئی جائیں عوام کی صحت پر کوئی مثبت فرق نہیں پڑنے والا،حکومت کو انکوائریوں کی بجائے گڈگورننس بہتر بنانی ہوگی جب گورننس بہتر ہوگی تو معاملات خودبخود بہتری کی جانب رواں ہوں گے،چونکہ بیورو کریسی کوحکومت کی پکڑ کا کوئی خوف نہیں ہے اس لیئے منصوبے بھی تعطل کا شکار ہیں،جن منصوبوں کی شروع نہ ہونے کے خلاف وزیر اعلی نے انکوائری کا حکم دیا ہے اگر یہ انکوائری ہو بھی جائے تو اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑنے والا، اگر انکوائریوں سے ہی کام چلانا ہے تو کیوں نہ ایم پی اے ڈیرہ بگٹی کے الزمات پر بھی لیویز بھرتیوں پر ایک اور انکوائری کمیٹی بٹھائی جائے۔