سندھ پولیس کی بے چینی
پولیس افسران نے رخصت پر جانے کا فیصلہ 10روز کیلئے مؤخر کردیا ہے۔اس کے نتیجے میں انتظامی سطح پر پیدا ہونے والاایک بحران وقتی طور پر ٹل گیا ہے۔پولیس کے اعلیٰ ترین عہدیداروں کایکدم رخصت پر چلے جا ناایک غیر معمولی نوعیت کا واقعہ ہے اسے نظر انداز کرنا نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔معاملہ حساس ہے اور انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے اس لئے اس مرحلے پر کچھ کہنا مناسب نہیں انکوائری سامنے آنے سے پہلے کسی قسم کی رائے دینے کی بجائے خاموش رہنا زیادہ سود مند ہو گا۔ ویسے بھی تمام حقائق اور معلومات کے بغیر رائے زنی اور افواہ سازی میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ملک پہلے ہی سیاسی اور معاشی لحاظ سے مشکلات کا شکار ہے۔حکومت لاکھ انکار کرے کہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے اسے کوئی خطرہ لا حق نہیں لیکن بین السطور یہی باور کیا جاتا کہ صورت حال اس کے برعکس ہے، اطمینان بخش نہیں ورنہ وزیروں کی فوج دن رات یہ کہتی سنائی نہ دیتی کہ سب ٹھیک ہے۔دوسری طرف مہنگائی کے مسئلے پر حکومت /وزیر اعظم جتنے آج سنجیدہ نظر آتے ہیں اس سے پہلے نہیں تھے۔پی ڈی ایم کے جلسوں حاضرین کی بڑی تعداد کا بھی یہ کہنا تھا کہ وہ تقاریر سننے اس لئے آئے ہیں کہ پی ڈی ایم کی قیادت مہنگائی کے مسئلے کو کتنا اہم سمجھتی ہے؟اورتقریباً ہر چینل کے نمائندے کو اس سے ملتا جلتا جواب ملا۔ پرانی آمدنی سے موجودہ مہنگائی کا مقابلہ کرنا آسان نہیں۔پی ٹی آئی کے پالیسی ساز ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ضروری نہیں سمجھتے، ممکن ہے آئی ایم ایف کی طرف سے کوئی ایسی شرط بھی رکھی گئی ہو جیسا کہ بجلی اور گیس کے بلوں میں ہر مہینے اضافہ مستقل روایت کا درجہ حاصل کر گیاہے۔کچھ عرصہ قبل حکومت عوام کویقین دلا رہی تھی جلد ہی بجلی کے ٹیرف میں کمی کے باعث عوام کو ریلیف ملے گا۔اب یہ دعوے وزراء کی پریس کانفرنسزمیں سنائی نہیں دیتے۔ادھر سردی کا موسم آتے ہی گیس کی قلت کے باعث لوڈ شیڈنگ کاآغاز کر دیا گیا ہے۔ آٹے اور چینی کی قیمتوں کو نیچے لانا بھی تاحال حکومت کی دسترس سے باہر ہے۔ٹائیگر فورس کی مدد سے کوئی پلان تیار کیا گیا ہے جسے بیوروکریٹس کے ساتھ مل کر آگے بڑھا جائے گا۔ذخیرہ اندوز کوئی خلائی مخلوق نہیں کہ انتظامیہ انہیں دیکھ نہیں سکتی، ہر ڈپٹی کمشنر اور اس کے ماتحت عملہ اپنے علاقے کے تمام ذخیرہ اندوزوں کو جانتے ہیں۔تھانیدار اور تھانے میں تعینات ہر سپاہی ان سے با خبر ہے لیکن جب سرکار انہیں پیٹرولنگ کے لئے مناسب مقدار میں پیٹرو ل فراہم نہ کرتی ہو اور انہیں لاک اپ کئے گئے قیدیوں کے کھانے پینے سمیت اپنے روز مرہ اخراجات پورے کرنے کے لئے انہی ذخیرہ اندوزوں سے مددلینے کی مستقل مجبوری لاحق ہو تو یاد رکھیں قانون ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔پولیس کو پورا بجٹ فراہم کئے بغیر قانون کی حکمرانی ایک خواب ہی رہے گی۔حکومتیں اصل خرابی دور کریں۔لندن کا پولیس مین عوام کی جیب سے سگریٹ نوشی نہیں کرتا، چائے نہیں پیتا، کھانا نہیں کھاتا۔اس لئے کسی قانون شکن سے اسے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔پاکستان کی پولیس کے لئے بھی لندن پولیس جیسا بجٹ منظور کیا جائے، یہاں بھی پولیس ویسا ہی کردار ادا کرنا شروع کر دے گی۔سابق حکومتیں اپنی غلط پالیسیوں کے نتائج بھگت رہی ہیں۔موجودہ حکمران اپنی آنکھیں اور کان بند کئے پرانی راہ پر چلنے کی روایت برقرار رکھیں گے (جیسا کہ ابھی تک ہورہا ہے)تو انہیں بھی اس سے ملتے جلتے انجام کے لئے ہمہ وقت ذہنی اور جسمانی طور پر تیار رہنا ہوگا۔اَللہ غریبوں کی دعائیں بھی قبول کرتا ہے۔میڈیا اطلاعات کے مطابق اب تک مہنگائی کا درجن با رنوٹس لیا جا چکاہے مگر مہنگائی کم ہونے کی بجائے مزید بڑھتی جا رہی ہے۔کوئٹہ کے نانبائی روٹی کی قیمت بڑھانے کا اعلا ن کر رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ 7000روپے فی بوری آٹاخرید کر موجودہ داموں روٹی بیچنا ممکن نہیں۔حکومت کے پاس ڈیڑھ درجن سے زائد خفیہ ادارے ہیں، روزانہ کی بنیادوں پر کسی ادارے میں ہونے والے ٹریڈیونین کے ریفرنڈم سے لے کر ہر معاملے پر تمام تفصیلاتوزیر اعظم ہاؤس میں رپورٹس بھیجی جاتی ہیں۔ لیکن وزیر اعظم کہتے ہیں انہیں ٹی وی دیکھ کر معلوم ہوا کہ فلاں مسئلہ پیدا ہو گیاہے۔سندھ میں 1100ارب کے ترقیاتی کاموں کے اعلان پر کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی جبکہ اس پرعملدرآمد کا جائزہ لینے کے لئے ایک بااختیار کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔پنجاب میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کو اپنے جائز مطالبات منوانے کے لئے چھ روز تک اسلام آباد میں دھرنا دینا پڑا یہ کام پہلے ہی دن کیوں نہیں کیا گیا۔اول تو ورکرز کی جائز شکایات دور کرنے کا بہتر نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔دو سال میں توجہ دی جاتی تو یقینا اسے وجود میں لایا جا سکتا تھا۔اپنے انتخابی وعدے یاد رکھے جائیں، انہیں ان پانچ برسوں میں پورا نہ کیا تو عوامی ناراضگی نوشتہئ دیوار ہوگی۔پی ٹی آئی کو اپنی سیاسی ساکھ بنانی ہے، اس کے پاس شوکت خانم اسپتال کی تشکیل اور نمل یونیورسٹی کے قیام جیسے رفاہی کام کی شناخت ہے۔ اس کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ مل چکی، یہ کارڈ کھیلا جا چکا ہے۔یہ چلا ہوا کارتوس ہے شاید آئندہ کارآمد نہ ہو سکے۔ عوام کا بنیادی مسئلہ سستا آٹا اور سستی چینی، سبزی اور دالیں ہے۔ذرا سی توجہ دلچسپی اور جذبے سے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔زرخیز زمین کو درست انداز میں استعمال کیا جائے حل ہو جائے گا۔ سبزیوں سپلائی میں رکاوٹیں ہیں، دور کی جائیں۔ کسان سے مناسب داموں اٹھائی جائیں صارفین تک پہنچانے کے نظام میں پائی جانے والی خامیاں دور کی جائیں۔ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔اصل معاملہ ایک محنتی عوام دوست اور بے لوث کام کرنے والی ٹیم کا ہے جو بدقسمتی سے نہیں بن سکی۔مافیاز کے ایجنٹ اب بھی فیصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔وزیر ریلوے خبردار کر رہے ہیں چوتھے سال سیاست دان جنازوں اور شادیوں میں حاضری دینے لگتے ہیں پی ٹی آئی تیسرے سال کی پہلی سہ ماہی ختم کرنے کو ہے۔


