بلوچستان کے وزراء کی اختر مینگل کی حمایت؟

تحریر: انور ساجدی
کراچی میں مریم نواز کے ساتھ جو توہین آمیز سلوک ہوا اس کی تحقیقات تو دوہفتوں میں مکمل ہوگی لیکن اب تک جو شواہد سامنے آئے ہیں انکے مطابق تحریک انصاف کی کراچی قیادت رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ہے پارٹی کے رکن سندھ اسمبلی حلیم عادل شیخ کی ویڈیو موجود ہے جس میں وہ ایک باریش پولیس آفیسر سے کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی آر تو آپ کو درج کرنا پڑے گی ہم صبح تک تھانہ سے نہیں جائیں گے اور ایف آئی آر لیکر ہی جائیں گے وفاقی وزیر علی حیدر کی آئی جی کو دھمکی کاریکارڈ بھی موجود ہے پیپلزپارٹی کے سعید غنی نے تو دعویٰ کیا ہے کہ سارا پلان پی ٹی آئی کے اجلاس میں بنایا گیا تھا منصوبہ کے تحت حلیم عادل شیخ کا بھانجا وقاص بانی پاکستان کے مزار پر گئے تھے پہلے ان کا پروگرام تھا کہ وہاں پر مریم اور صفدر کیخلاف ہلڑ بازی کی جائے لیکن ن لیگی کارکن زیادہ ہونے کی وجہ سے تحریکی تھنڈر اسکواڈ ڈر گیا اب تو تحریکی رہنما یہ طعنہ لگارہے ہیں کہ بلاول سیاست میں فوجی مداخلت کے خلاف میدان میں نکلے ہیں لیکن وہ مریم کیخلاف سلوک پر آرمی چیف سے فریاد کررہے ہیں یہ دراصل ”سوتنوں“ والا رویہ ہے تحریک انصاف سمجھتی تھی کہ آرمی صرف ہماری حمایت کی پابند ہے لیکن بلاول کی اپیل پر آرمی چیف نے نوٹس لیکر پی ٹی آئی کا سارا پلان چوپٹ کردیا ٹی وی شوز میں تحریک انصاف کے کئی لیڈروں نے کہا کہ بلاول کو وزیراعظم سے رابطہ کرنا چاہئے تھا ارے بھئی اب وزیراعظم خود اس معاملہ کے فریق ہوں تو وہ کیا انصاف کریں گے اگرچہ اصولی طور پر آرمی چیف سے نوٹس لینے کا مطالبہ ٹھیک نہیں تھا لیکن جس طرح بلاول کے بقول وہ منہ دکھانے کے قابل نہیں تو اس کے سوا چارہ کیا تھا اس واقعہ کے بعد تحریک انصاف کے عزائم اور شرارتیں آہستہ آہستہ واشگاف ہورہی ہیں مثال کے طور پر ٹائیگر فورس سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ اگر نوازشریف کی جگہ آئی ایس آئی چیف ان سے استعفیٰ طلب کرتے تو وہ انہیں برطرف کردیتے انہوں نے ایک اور معنی خیز بات یہ بھی کہی کہ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون آرمی چیف ہے اور کون آئی ایس آئی کا سربراہ ہے ن لیگی اس لئے ڈرتے ہیں کہ وہ کرپٹ ہیں اور انکے کرپشن کی ساری تفصیلات آئی ایس آئی کے پاس ہیں عمران خان کا پس منظر چونکہ محسن کشی پر استوار ہے اس لئے آرمی چیف کے بارے میں انکی بات کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے اگر2018ء کے انتخابات میں فورسز کے لاکھوں ووٹ انہیں نہ پڑتے تو وہ حکومت بنانے کے قابل نہ ہوتے لیکن کیا کریں انکی طبعیت کاخاصہ ہے کہ وہ کسی کا احسان نہیں مانتے جب عمران خان نے کرکٹ کیریئر کاآغاز کیا تھا اگر انکے کزن ماجد خان مدد نہ کرتے تو وہ کبھی آگے نہ بڑھتے لیکن جونہی انہیں عروج حاصل ہوا تو ماجد خان کا ایسا پتہ کاٹا کہ وہ آج گمنامی کی زندگی گزاررہے ہیں شوکت خانم اسپتال کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے میں جو کرداراستاد نصرت فتح علی خان نے ادا کیا وہ ناقابل فراموش ہے ایک دفعہ خود عمران خان نے بھی اس کا اعتراف کیا تھا لیکن کام نکلنے کے بعد کبھی بھولے سے بھی استاد کو یاد نہیں کیا۔
یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ نوازشریف نے بطور وزیراعلیٰ جوہرٹاؤن میں وسیع پلاٹ شوکت خانم کیلئے دیا جبکہ انکے والد میاں محمدشریف نے کروڑوں کے فنڈز بھی دیئے لیکن آج وہ انکے جانی دشمن بن گئے ہیں اسی طرح جن لوگوں نے تحریک انصاف بنانے میں ساتھ دیا تھا ان میں سے آج کوئی بھی پارٹی میں نظر نہیں آتا ایس بابرعمر چیمہ جسٹس وجیہہ الدین اور حامد خان سارے کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں بھلا اس طبیعت کا مالک جنرل باجوہ کی مہربانیاں کیسے یادرکھیں گے وہ اتنے انا پرست اور منتقم مزاج ہیں کہ جنرل باجوہ کی دیگر جماعتوں سے رابطے بھی انہیں ناگوار گزرتے ہیں جس کی مثال گزشتہ ماہ مختلف سیاسی رہنماؤں سے گلگت بلتستان کے بارے میں جنرل باجوہ کی ملاقات ہے وزیراعظم نے اس اجلا س میں آنے سے انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ چوروں اور ڈاکوؤں کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے سنا ہے کہ ان دنوں وہ باجوہ صاحب اور بلاول کے ٹیلی فون رابطہ پر پیج وتاب کھارہے ہیں اگرچہ بلاول نے مریم بی بی کے مسئلہ پر آرمی چیف سے اپیل کی تھی لیکن ن لیگی قیادت بھی اس رابطہ پر اچھا خاصا پریشان ہے اسے فکر لگی ہوئی ہے کہ کہیں یہ رابطہ آگے نہ بڑھیں گوکہ ن لیگ پی ڈی ایم کی سرخیل اور سب سے بڑی جماعت ہے لیکن اس پارٹی کو ایجی ٹیشن اورسڑکوں پر آنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے جس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جب مشرف کے دور میں ایک دفعہ نوازشریف اور ایک دفعہ شہبازشریف واپس آئے تھے تو سارے مسلم لیگی رہنما گھروں میں چھپے بیٹھے تھے اور وہ کارکنوں کو لاہور ایئرپورٹ لے جانے میں ناکام رہے دوسری دفعہ اسی حکومت کے دور میں جب نوازشریف اور انکی صاحبزادی مریم لندن سے لاہور آئے تو شہبازشریف ایک ریلی کو لیکر اندرون لاہور شہر کا چکر کاٹتے رہے اور نوازشریف کی گرفتاری تک وہاں نہیں گئے۔
ن لیگ کے ساتھ موجودہ دور میں جو کچھ ہوا اسکے باوجود گزشتہ ماہ کی7تاریخ تک اسکے مقتدرہ سے رابطے تھے وہاں سے صاف انکار کے بعد ہی میاں نوازشریف نے مقتدرہ مخالف لائن اختیار کرنے کا فیصلہ کیا اسی لئے ان سے بار بار یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ اگر آپ سیاست میں فوجی مداخلت کے مخالف تھے تو توسیع کے قانون کوکیوں ووٹ دیا جس کا ن لیگ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔تمام تر کمزوریوں کے باوجود نوازشریف پنجاب کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور ان کی وجہ سے پنجاب کے عوام کی اکثریت کی ہمدردیاں ن لیگ کے ساتھ ہیں لیکن بے شمار لوگوں کو ابھی تک یہ یقین نہیں ہے کہ ن لیگ واقعی حقیقی جمہوریت کا قیام چاہتی ہے۔ان لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس جماعت کی قیادت کسی وقت میں ”کمپرومائز“ کرسکتی ہے تقریباً یہی صوررتحال پی پی کی بھی ہے اگر آصف زرداری18اکتوبر کے جلسہ میں نوازشریف کی تقریر ہونے دیتے تو آج سندھ حکومت نہ ہوتی بلکہ گورنر راج لگ چکا ہوتا وزیراعظم عمران خان نے تو گورنر راج کے نفاذ کی پوری تیاری کرلی تھی بلکہ گورنر عمران اسماعیل کو اسلام آباد بھی طلب کرلیا تھا بیرسٹر فروغ نسیم نے جو ڈرافٹ تیار کیا تھا صدرعارف علوی اس پر دستخط کرنے والے تھے لیکن مقتدرہ نے یہ منصوبہ ناکام بنادیا ان کا خیال ہے کہ اگر سندھ میں گورنر راج نافذ کردیا گیا تو ریاست سیاسی طور پرعدم استحکام کا شکار ہوجائے گی اور اسکے لئے بے شمار مشکلات پیدا ہوجائیں گی مرادعلی شاہ نے تو اشارہ بھی دیا ہے کہ انہیں سندھ حکومت ختم کرنے کی دھمکی دی گئی تھی یہ دھمکی وفاقی حکومت کے بعض وزراء نے دی تھی وفاقی حکومت سندھ کے دوجزائر پر ہر قیمت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے کیونکہ وہ اس بارے میں عالمی اور مقامی سرمایہ کاروں سے معاہدے کرچکی ہے اگر اس کی کوشش ناکام ہوئی تو اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ علی حیدر زیدی کو دن میں تارے نظر آنا شروع ہوجائیں گے میراگماں کہتا ہے کہ تحریک انصاف جو حرکتیں کررہی ہے وہ اوپر کے حلقوں میں بے نقاب ہوتی جارہی ہے اگر اس نے کبھی ریڈ زون کراس کیا تو اسکے زوال آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی حالانکہ اس کا پروگرام ہے وہ آئندہ پانچ سال بھی حکومت میں رہنے اگر ایسا ارادہ ہے تو اسکے لئے دھیرے چلنا پڑتا ہے صبروتحمل سے کام لینا پڑتا ہے اور سب سے پہلے اپنی ناقص کارکردگی کو ٹھیک کرنا پڑے گا موجودہ کارکردگی کی بنیاد پر اسے2023ء کے بعد بھی برسراقتدار رکھنا محض جنون ہوگا کوئی عقلمندی نہیں ہوگی حکومت کے زعما اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ وہ عوام میں بڑے مقبول ہیں وہ عوام کے جذبات اور نوشتہ دیوار پڑھنے سے قاصر ہیں خوداحتسابی نام کی کوئی چیز اس حکومت کے پاس سے بھی نہیں گزری ہے یہی خوش فہمی کی وجہ سے یہ لوگ سیاسی مارکھائیں گے اور انہیں پتہ بھی نہیں چلے گا۔
پی ڈی ایم کا اگلا جلسہ25اکتوبر کو کوئٹہ میں ہورہا ہے اس جلسہ کی کامیابی کیلئے اپوزیشن تو اپنی جگہ حکومتی زعما ایڑی چوٹی کا زورلگارہے ہیں بعض وزراء نے سرداراخترمینگل کو تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا تاکہ اس پارٹی کے کارکن زیادہ سے زیادہ تعداد میں جلسے میں شرکت کرنے آئیں۔ایک قرارداد کا مسودہ نظر سے گزرا اگر یہ صحیح ہے تو یہ کافی دلچسپ اور پرلطف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کراچی کے جلسہ میں بلوچ قوم پرست رہنما سردار اختر مینگل نے دیگر شہدا کی قربانیوں کونظرانداز کرتے ہوئے ایک خاص قوم ”بلوچ“ کیخلاف زیادتیوں کاتذکرہ کیا ہے مجھے تو ابھی تک یقین نہیں ہے کہ ایسی کوئی قرارداد لائی گئی ہے کیونکہ جن لوگوں کی طرف سے مسودہ پیش کیا گیا ہے ان میں سردار یار محمد رند میرظہور بلیدی میرسلیم کھوسو اور محمد خان لہڑی قابل ذکر ہیں سوال یہ ہے کہ بلوچ خاص قوم کیوں ہے؟اسے سنگل آڈٹ کیوں کیا گیا ہے یہ کہ قرار داد پیش کرنے والے اکابرین کا تعلق کس قوم سے ہے جو وہ بلوچ کو خاص قوم لکھ رہے ہیں اگر ان کا مقصد بلوچ کو ریڈانڈین ظاہر کرنا او خود کو ریاست کا وفادار ثابت کرنا ہے تو یہ ان کا نکتہ نظر ہے کم از کم یار محمد رند کا نام توشامل نہیں ہونا چاہئے تھا جو ایک کروڑ رندوں کے سربراہ ہیں۔اگر ان لوگوں نے بلوچ قوم سے ناطہ توڑ لیا ہے تو عوام کو اعتماد میں لیکر اپنی نئی قومیت کا باقاعدہ اعلان کریں تاکہ غریب بلوچ ان سے رابطہ نہ کریں۔ایسے اقدامات سے ایک تو پی ڈی ایم کا جلسہ ضرور کامیاب ہوگا دوسرے یہ کہ جلسہ میں جے یو آئی کے بعد اگر سب سے زیادہ جھنڈے نظرآئے تو وہ اخترمینگل کے ہونگے کیونکہ کابینہ نے انہیں خاص قوم ”بلوچ“ کا واحدنمائندہ تسلیم کرلیا ہے یہ لوگ جس کے بھی دوست ہیں ناداں دوست ہیں وہ میڈیا کے ذریعے اخترمینگل کی مخالفت کرکے جلسہ کو ناکام بنانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اس کی بے مثال کامیابی کاراستہ ہموار کررہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں