وفاقی برہمن میں بلوچستان
تحریر: بایزید خان خروٹی
ہندوستان سے تاج برطانیہ کے سورج کو غروب ہوئے تہتر سال سے زیادہ مدت ہو چلی ہے۔ لیکن ہمارا موجودہ بیوروکریٹک نظام محض چند معمولی تبدیلیوں کے ساتھ کم و بیش اسی طرح چلا آرہا ہے۔اس میں کوئی شک یا ابہام نہیں ہے کہ ان چند معمولی تبدیلیوں نے بھی اس بوسیدہ نظام کے وقار اور افادیت کو بہت حد تک مجروح کیا ہے۔ بیوروکریسی وہ حکومتی تنظیم ہے کہ جسے امور مملکت کو آئین اور قانون کے مطابق چلانا ہوتا ہے اور اپنے سیاسی آقاوں کو بھی آئین اور قانون کی ایڈوانس دینی ہوتی ہے۔ امور مملکت کو چلانے کے لیے قوانین مرتب کیے جاتے ہیں اور ان قوانین کو عوام کی بہتری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اس کی آڑ میں اپنے چند گروہی مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے جاتے ہیں۔ جس طرح ہندو مذہب میں ذات پات کا سسٹم ہے اسی طرح کا ملتا جلتا سسٹم ہماری بیوروکریسی کا بھی ہے۔ بیوروکریسی میں برہمن کا رتبہ مرکزی حکومت سے بھجوائے گئے آفیسروں کو حاصل ہے۔ جنہیں پہلے ڈی ایم جی اور آج کل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا نام دیا گیا ہے۔ تین دہائی پہلے کے ڈی ایم جی آفیسروں کی اکثریت ایماندار اور قابل آفیسروں پر مشتمل ہوتی تھی۔ اگر آپ کو ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوتا تو آپ اسلام پر بات کرتے تو یہ آپ کو مفتی اگر معیشت پر بات کرتے تو یہ آپ کو ماہر معاشیات اگر دنیاوی حالت پر بات کرتے تو آپ کو ماہر سماجیات غرض کہ آپ کو ان سے سیکھنے کو بہت کچھ ملتا اور وہ صوبے کے محدود وسائل میں رہتے ہوئے بہتر کام کرتے جنہیں آج بھی اچھے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بلکہ ان کا احترام اور عزت بلوچستان کی عوام کے دلوں میں آج بھی موجود ہے ان میں بے شمار نام گنوائے جاسکتے ہیں جس میں کالٹس گاڑی میں سفر کرنے والا چیف سیکرٹری بلوچستان ناصر محمود کھوسہ ہو یا پھر سوئی، کوہلو،ژوب، قلعہ سیف اللہ جیسے دوردراز علاقوں میں بہترین انگلش میڈیم سکول سسٹم متعارف کرنے والے ظفر قادر ہوں۔ اچھے افسروں کی کمی نہیں رہی۔ لیکن پھر بدقسمتی سے اچھے افسر بلوچستان میں کام کرنے سے گریزاں ہوئے۔ مرکزی حکومت نے بلوچستان میں کام کرنے کے لیے آفیسروں کو پیسوں کا لالچ دیا۔ ان کے لئے ہر سال پوری فیملی کے لیے ائیر ٹکٹ اور ہارڈ ایریا الاؤنس منظور کیا۔ ستم ظریفی کی بات تو یہ ہے کہ آفیسر مرکزی حکومت کا لیکن فیملی کے سالانہ چار ٹکٹ اور ہارڈ ایریا الاونس بلوچستان کے بجٹ سے دئیے جاتے رہے۔ پہلے پہل یہ سہولت صرف بلوچستان کے غیر مقامی آفیسروں کو حاصل تھی۔ لیکن پھر بلوچستان سے تعلق رکھنے والوں نے بھی اسے اپنے لئے ہمارے قوم پرست وزیراعلی سے منظور کروا لیا۔ اور
اس غریب صوبے کو ہر سال کروڑوں کا ٹیکہ لگنا شروع ہو گیا۔ یوں جیسے جیسے آفیسروں کا معیار گرتا گیا توں توں ان کی مراعات بڑھتی گئیں۔ یہاں کے لوگوں کو شعیب سڈل اور طارق مسعود کھوسہ جیسے پولیس چیف بھی یاد ہیں اور ڈپٹی کمشنر فواد حسن فواد کا زمانہ بھی یاد ہے۔ اب جب ہم پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے موجودہ لاٹ کو دیکھتے تو گھن آتی ہے۔ بلوچستان میں اب ایسے ڈی ایم جی آفیسران کو پوسٹ کیا جاتا ہے جن کی خدمات ان کے اپنے صوبے نہیں لیتے یا بطور سزا اس "کالا پانی” میں بھیج دیئے جاتے ہیں۔یا پھر روٹیشن پالیسی کے تحت یہاں آتے ہیں ان میں اچھے آفیسران عزت نفس کی خاطر خدا خدا کر کے بغیر کوئی اچھی پوسٹنگ لئے واپس چلے جاتے ہیں لیکن شاطر آفیسران سالہا سال سے بلوچستان سے نکلنے کا نام نہیں لے رہے اور مسلسل اچھی پوسٹنگز پر براجمان رہتے ہیں۔اب تو کسی کا نام ہسپتالوں کے فنڈ میں خربرد میں آ رہا ہے تو کسی نے ٹف ٹائل ماسٹر کے نام سے شہرت پائی ہے۔ غرض ہر مرکزی آفیسر ایک داستان لیے بیٹھا ہے۔ جن نامور آفیسروں کے لیے مراعات کا اعلان وفاقی حکومت نے کیا تھا اس کا خمیازہ بلوچستان کو بطور صوبہ بھگتنا پڑا اب تک جو معلومات تحریری طور پر مجھے ملی ہیں وہ طلسم ہوشربا سے کم نہیں ظلم یہ ہے کہ ان مرکزی افسروں کی کرپشن کے ساتھ ساتھ صرف اضافی تنخواہیں کی مد میں حکومت بلوچستان کوصرف 94 کروڑ 77 لاکھ 85 ہزار 589 روپے ادا کرنے پڑے۔ جبکہ ہوائی سفر الاؤنس الگ ہے۔ اب اگر کوئی بھی تحقیقاتی ایجنسی صرف ایک بات کی چھان بین کرلے کہ ان آفیسروں نے جو رقم ائیر ٹکٹ کی مد میں ڈرا کی ہے اسے پی آئی اے یا سیرین ائیر سے صرف تصدیق کروا لے تو معلوم ہوگا کہ 99 پرسنٹ آفیسروں کی فیملیز نے کبھی کوئٹہ سفر ہی نہیں کیا ہوگا۔ کیا اس طرح کی بد دیانتی کرنے والے آفیسر نوکری کے اہل ہیں یہ وہ سوال ہے جو عام بلوچستانی اپنے ان داتاوں سے پوچھتا ہے۔ چند نامور افسروں کے نام زیر قلم کرتا ہوں جنہوں نے ائیر ٹکٹ اور الاونس کی مد میں بلوچستان کے غریب عوام کے پیسوں کو لوٹا ہے۔ کچھ آفیسروں کا ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں آغا نبیل اختر نے 30 لاکھ 81 ہزار چار سو اسی روپے لیے ہیں۔ سابق چیف سیکرٹری بلوچستان اختر نذیر وڑائچ نے اپنے ایک سال کی تعیناتی کے دوران 46 لاکھ 30 ہزار ایک سو بیس روپے، سابق چیف سیکرٹری اورنگزیب حق نے ایک سال میں 17 لاکھ 14ہزار پچاس روپے، جبکہ موجودہ چیف سیکرٹری بلوچستان فضیل اصغر نے ایک سال میں اب تک16 لاکھ 69 ہزار دو سو پچاسی روپے جبکہ گریڈ 18 میں حکومت بلوچستان کو رپورٹ کرنے والے فرخ عتیق نے چارسالوں میں 48 لاکھ بیاسی ہزار چھ سو روپے 53 روپے اور گریڈ 18میں بلوچستان حکومت کو رپورٹ کرنیوالے طاہر ظفرعباسی نے تقریبا ڈیڑھ سال میں 26 لاکھ 29 ہزارچار سو تیس روپے جبکہ ان میں مقابلے یہاں پر صوبے میں بچوں کو سی ایس ایس کی تیاری کرانے والے سندھی آفیسر نور احمد سموں نے 8 سال میں صرف 25 لاکھ 88ہزار 09 روپے سکہ رائج الوقت وصول کیے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے آفیسروں نے تو کمال کر دیا۔ کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے گریڈ 18 کے آفیسر فرخ عتیق نے چار سال میں تقریبا 48 لاکھ روپے کا ٹیکہ ہمارے پیارے صوبے کو پہنچایا۔ اگر مکمل تفصیلات پبلک ہوجائیں تو کیس کروڑوں سے بڑھ کر اربوں تک پہنچ سکتا ہے۔ پتا نہیں ہم بد قسمت ہیں یا غریب ہیں کہ جہاں معیار کے ساتھ ساتھ ہر طرح کرپشن کی کھلی اجازت ہے۔ چونکہ چیف سیکرٹری بلوچستان ہمیشہ ان کے گروپ کا رہتا ہے اس لئے ان کو مقامی آفیسران کے مقابلے میں چیف سیکرٹری بلوچستان تک رسائی اور ان سے اپنے مزاج کے کمنٹس فائلوں پر لکھوانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ایس اینڈ جی اے ڈی میں تعینات ایک مقامی آفیسر ان تمام لوگوں کے سہولت کار ہیں جن کو حال ہی میں کنٹریکٹ پر دو سال کیلئے مزید رکھا گیا ہے جب ان سے اس بابت نیب بلوچستان نے ہوائی جہازوں کی مد میں پیسوں کا ریکارڈ مانگا تو انہوں نے اچھی شہرت رکھنے والے پاکستان ایڈمنسٹریشن سروس کے ایماندار آفیسر جنہوں نے صرف 48 ہزار روپے لیے تھے کے کاغذات نیب کو ارسال کردئیے۔ جبکہ اوپر بیان کئے گئے لوگوں نے جو کارنامے کیے انہوں نے مخفی رکھے۔ جو کہ ان کی صوبہ لوٹنے میں مدد دینے کی پاداش میں بطور عنایت اس ڈپٹی سیکرٹری کو بعد از ریٹائرمنٹ اور ان کی خدمات کے بدلے میں ان کو دو سال کی مزید خدمات دینے کا کنٹریکٹ دیا گیا تاکہ وہ مزید مددگار ثابت ہو اور یہ صوبے کے وسائل لوٹتے رہیں۔