زرا سی آہٹ

تحریر: انور ساجدی
کیفی صاحبکا مشہور گیت ہے
زراسی آہٹ ہوتی ہے تو دل سوچتا ہے
کہیں یہ وہ تونہیں کہیں یہ وہ تو نہیں
مریم نوازشریف کا یہ بیان کہ صفحہ پلٹ گیا ہے اور حکومت جانی والی ہے اسی گیت کی تعبیر ہے کیونکہ ایک اہم شخصیت کا فون کیا۔گیاان کو اورانہوں نے خاتون سے ہمدردی کااظہار کیا اور واقعہ کے ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی یقین دہائی کروائی تو مریم بی بی سمجھ بیٹھیں کہ صفحہ پلٹ گیا ہے یہ صفحہ پلٹنے کی بات اس لئے کی جارہی ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے اسکے وزراء اور رہنما روز بیان دیتے ہیں کہ حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں حالانکہ یہ سمجھنے کی بات ہے بتانے کی بات نہیں ہے چونکہ تحریکی رہنما جانتے تھے کہ وہ تو کاغذکی کشتی پرسوارتھے کنارے کس نے پہنچایا یہ کوئی راز نہیں لیکن کاغذ کی کشتی کو سندباد جہازی سمجھنا یا ترک بادشاہ سلیمان عالیشان کابحری بیڑہ گروانا کونسی عقلمندی ہے یہ تو ایسی بات ہے کہ اگر مجھے چھیڑا تو میرے تنومند ساتھی آجائیں گے اور آپ لوگوں کی درگت بنادیں گے اگر آپ جس طرح بڑھکیں مارتے ہیں اگر آپ خود پہلوان ہیں تو دوسروں کے پیچھے کیوں چھپتے ہیں اس سے ان کی کمزوری ظاہر ہوتی ہے اس کمزوری کو مریم نواز کے ساتھ کراچی کے فائیواسٹار ہوٹل میں توہین آمیز سلوک نے مزید بے نقاب کردیا ہے نہ صرف تحریک انصاف کے رہنماؤں نے کیپٹن صفدر کی گرفتاری پرزور دیا بلکہ گورنر عمران اسماعیل نے بھی آئی جی مشتاق مہر کو فون کرکے دباؤ ڈالا کہ گرفتاری ہرقیمت پر ہونی چاہئے اب دیگررہنماؤں کے ساتھ گورنر بھی پھنس گئے ہیں حتیٰ کہ گورنری بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے گورنر کو خوف ہے کہ اگر انہوں نے بتادیا کہ انہیں کس کا فون آیا تھا کہ وہ بھی آئی جی پر دباؤ ڈالیں تو بات بہت اوپر تک جائے گی معلوم نہیں جو ہائی پروفائل انکوائری ہورہی ہے اس میں گورنر کو بھی بلایا جائیگا یا استثنیٰ دیاجائیگا لیکن علی حیدر زیدی،حلیم عادل شیخ،خرم شیرزمان اور دیگر رہنما تو ضرور زد میں آئیں گے اس معاملہ کو مولانا فضل الرحمن نے خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ قراردیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف اہم اداروں کو لڑانے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ جب آئی جی کوزبردستی لے جایا گیا تھا اگراس کے گارڈ گولی چلادیتے او جواب میں بھی گولی چلتی تو پھر کیا ہوتا مملکت کے دو اداروں کے درمیان ٹکراؤ کا خطرناک نتیجہ نکل سکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف ملک کے سب سے بڑے ادارے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کررہی ہے ایک تجزیہ نگار سلیم صافی کے بقول تحریک انصاف آرمی چیف کو ایکسٹینشن دینا نہیں چاہتی تھی اس لئے بار بار غلط سمری بنائی گئی یہ جان بوجھ کر کیا لیکن نوازشریف نے حمایت کرکے توسیع کو ممکن بنایا اسکے نتیجے میں اگرچہ ن لیگ کو کچھ رعایت دی گئی لیکن عمران خان نے ضد کی کہ اگر میاں نوازشریف کیخلاف کارروائی کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا گیا تو وہ اسمبلیاں توڑ دیں گے ایک پریس کانفرنس میں ایک صحافی نے جب سندھ میں بیڈ گورننس کے بارے میں مولاناسے سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ سارے صوبوں بلکہ پورے ملک کا ایک ہی جیسا حال ہے صورتحال بدترین اور خطرناک ہے ملک اس طرح چلا نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ پنجاب،پشتونخوا اور بلوچستان میں بہت بری صورتحال ہے کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہورہا ہے حکومت نام کی کوئی شے نہیں ہے مولانا نے زور دیا کہ صفحہ پلٹا پڑے گا اور اس جعلی حکومت کوہٹانا پڑے گا ورنہ جو عناصر اس کی پشت پر ہیں وہی حالات کے ذمہ دار ہونگے۔مولانا نے بہت زور دے کر نوازشریف کو دیوار سے لگانے کی مخالفت کی ہے۔یہی وجہ ہے کہ حکومت نے گھبرا کر برطانیہ کی وزیرداخلہ پریٹی پٹیل کو خط لکھا ہے کہ نوازشریف ایک سزا یافتہ مجرم ہیں اس لئے انکو اپنے ملک سے نکال کر پاکستان بھیجا جائے لیکن حکومت برطانیہ کیلئے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ نوازشریف وہاں پر قانونی طور پر مقیم ہیں انہیں پاکستانی حکومت نے خود علاج کیلئے جانے کی اجازت دی ہے دوسرے یہ کہ نوازشریف کے پاس طویل المیعاد برٹش ویزہ ہے جبکہ انکے دونوں صاحبزادے اور انکے بچے مستقل برطانوی شہری ہیں جو قانونی طور پر وہاں کاروبار کررہے ہیں اور کاروبار بھی لاکھوں کروڑوں پونڈ کا نہیں بلکہ اربوں پونڈ کا ہے لہٰذا تحویل مجرمان کے تبادلہ کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ ممکن نہیں کہ برٹش حکومت نوازشریف کو اپنے ہاں سے نکال دے۔
ایک بات واضح رہے کہ جوں جوں تحریک انصاف کی حکومت کی ناکامی بڑھتی جارہی ہے انکے لیڈروں اور وزراء کی صفوں میں مایوسی بھی اسی طرح بڑھ رہی ہے یہ اس وقت زخمی بلی کی طرح ہے جو ہر کسی کو کاٹ دوڑنے کی کوشش کررہی ہے جس طرح کے مریم بی بی کا واقعہ ہوا اسی طرح کی غلطیاں سرزد ہونا بعیدازامکان نہیں تحریکی رہنما کس طرح سسنکی ہوئے ہیں۔اسکی ایک مثال وہ ٹی وی مباحثہ ہے جس میں علامہ اقبال کے پوتے اور تحریک انصاف کے اہم رہنما ولید اقبال نے پیپلزپارٹی کے رہنما عاجز دھامرہ کو گلاس دے مارا لیکن یہ گلاس دھامرہ صاحب کو اس لئے نہیں لگا کہ وہ لاہور سے 15سوکلو میٹر دور کراچی اسٹوڈیو میں بیٹھے تھے رفتہ رفتہ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور وزراء کے دلائل کم پڑتے جارہے ہیں وہ کب تک اپنی ناقص کارکردگی کافاع کرتے رہیں گے وہ لاکھ حقائق سے چشم پوشی کریں لیکن اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو جھٹلا نہیں سکتے وہ اس بھوک ننگ اور فاقوں کو نہیں چھپاسکتے جس میں اس ریاست کے غریب عوام مبتلا ہیں اسی وجہ سے خودکشیوں کی شرح بڑھ گئی بدامنی،اسٹریٹ کرائمز اور ڈاکے بڑھ گئے ہیں۔ وزیراعظم کا یہ دعویٰ کہ انکی حکومت میں کرپشن کاکوئی بڑا اسکینڈل نہیں آیا ہے یک طرفہ دعویٰ ہے کیونکہ شوگر تحقیقاتی کمیشن اور مسابقتی کمیشن کی رپورٹ کے بعد یہ کہنا خام خیالی ہے کیونکہ جہانگیر ترین کو بحران کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے جو اس وقت عمران خان کے سب سے قریبی ساتھی اور دست راست تھے آٹا اور گندم بحران کی ذمہ دار وفاقی وزیر خسروبختیار پرعائد ہوتی ہے جو ابھی تک وفاقی وزارت پربراجمان ہیں۔یہ جو لاکھوں ٹن گندم پشتونخوا کے راستے تاجکستان تک گئی ہے اس کا ذمہ دار کون ہے پشاور بی آر ٹی ایک کھرب روپے خرچ کے باوجود ناکامی سے کیوں دوچار ہے کیا یہ کرپشن کا بدترین نمونہ نہیں ہے یہ تو نیب کی مرضی کہ اپنا سارا زور اپوزیشن کے مقدمات پرلگائے اور حکومتی کرپشن پر آنکھیں بند رکھے لیکن عوام کی آنکھیں تو بند نہیں ہیں لگتا ہے کہ حکومت اپنے ساتھ نیب کو بھی لے ڈوبے گی کوئی بعید نہیں کہ کچھ عرصہ بعد ”خاص وڈیو“ ہردکان میں برائے فروخت موجود ہوں سنا ہے کہ نوازشریف بھی کوئٹہ کے جلسے میں کچھ وڈیوز کاانکشاف کریں گے یا انہیں دکھانے کا اہتمام کریں گے اگریہ ناصر بٹ کی جمع کردہ پرانی وڈیوز ہوئیں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں اگر نئی وڈیوز سامنے لائی گئیں تو ان کا اثر ضرور ہوگا ایک حیرت انگیز بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم کے سخت موقف کے باوجود طاقت کے عناصر نے اپنے رابطے نہیں توڑے بلکہ ہرروز مولانا صاحب سے درخواست کی جارہی ہے کہ اپنا لہجہ نرم رکھو براہ راست نشانہ نہ بناؤ جو آپ چاہتے ہیں اس پر بات ہوسکتی ہے مولانا تو نئے انتخابات چاہتے ہیں سوال یہ ہے کہ یہ بات حکومت سے کون منوائے گا جو نئی صورتحال میں سراسر خسارے سے دوچار ہے کیونکہ مولانا نے تہیہ کررکھا ہے کہ مارچ میں سینیٹ کے انتخابات نہیں ہونے دینے ہیں بلکہ ان کی جگہ وہ مارچ میں عام انتخابات کے طلب گار ہیں اگر ان کی بات نہ مانی گئی تو پی ڈی ایم کے اراکین قومی اسمبلی اور پنجاب کے اراکین صوبائی اسمبلی استعفیٰ دیدیں گے جس کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات موخر ہوجائیں گے اس سلسلے میں مولانا پیپلزپارٹی کوقائل کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو بالآخر مان جائیگی البتہ یہ شرط رکھے گی کہ سندھ اسمبلی سے مستعفی ہونے پرزورنہ دیاجائے کسی دانا نے وفاقی حکومت کے کارپروازوں کو بتایا ہے کہ اگر آپ نے سندھ میں گورنر راج لگایا تو سینیٹ کے الیکشن گئے کیونکہ ایک اسمبلی بھی موجود نہ ہوں تو الیکٹورل کالج متاثر ہوگا اور الیکشن موخر ہوجائیں گے چنانچہ ایک نفسیاتی اور اعصابی جنگ جاری ہے اگر کوئٹہ کے جلسہ کے بعد مینار پاکستان کے سبزہ زار پر لاہور کا جلسہ بھی کامیاب ہوا تو مولانا کی قیادت میں اسلام آباد کی طرف پی ڈی ایم کے مارچ کو حکومت روک نہیں پائے گی تب تک صفحہ واقعی پلٹ چکا ہوگا اس صفحہ کی ایک جھلک گلگت بلتستان کے عام انتخابات میں بھی نظر آجائے گی کیونکہ اس حساس علاقے کا مکمل کنٹرول کسی ایک جماعت کو نہیں دیاجائیگا بلکہ ایسے انتظامات کئے جائیں گے اس کے کنٹرول پر کوئی فرق نہ آجائے۔
بہر حال اس وقت ساری سیاسی طاقتیں بس ایک
زرا سی آہٹ کی منتظر ہیں اور کان لگائے بیٹھے ہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں