نوازشریف کا ایک اور اعلان بغاوت

تحریر: انور ساجدی
کوئٹہ میں پی ڈی ایم کا جلسہ کتنا بڑا تھا یہ اتنا اہم نہیں ہے لیکن اس میں جو تقاریر ہوئیں وہ بہت ہی اہم نازک اور متنازعہ تھیں خاص طور پر ن لیگ کے سپریم لیڈر میاں محمدنوازشریف اپناریکارڈ کردہ خطاب میں ایسے ایسے موضاعات کوچھیڑا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اسکی مثال نہیں ملتی اگرچہ وزیراعظم عمران خان نے2014ء کے دھرنے کے دوران سول نافرمانی کی اپیل کی تھی اپنا بجلی کابل جلایاتھا اور اورسیز پاکستانیوں پرزوردیا تھا کہ وہ پیسے بینکوں کے ذریعے نہیں ہنڈی کے ذریعے بھیجیں تاکہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہوں سول نافرمانی کی تحریک پی این اے نے1977ء میں بھٹوکیخلاف چلائی تھی اور ایم آر ڈی نے1983ء میں ضیاء الحق کے مارشل لاء کیخلاف عوام کو سڑکوں پر نکالا تھا لیکن جس طرح کا علم بغاوت میاں نوازشریف نے بلند کیا ہے اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے نوازشریف نے فوج کے جوانوں سول بیوروکریسی اور عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیرآئینی اقدامات نہ مانیں انہوں نے گزشتہ تقریر میں جنرل باجوہ صاحب سے سوالات پوچھے تھے اس مرتبہ جنرل فیض سے بھی سوالات دریافت کئے ہیں تجزیہ نگاروں کے مطابق نوازشریف اب مائنس تھری کی بات کررہے ہیں جس کا پورا ہونا بظاہر دیوانے کاخواب ہے وہ بہ یک وقت ٹرائیکا کو چیلنج کررہے ہیں اور یہ واضح نہیں کہ ان کا مخاطب کون ہے؟آیا وہ کسی خلائی مخلوق کے سامنے اپنے مطالبات رکھ رہے ہیں یا وہ ایک انقلابی منصوبہ پیش کررہے ہیں پاکستان کی سرزمین خمینی ٹائپ انقلاب کیلئے ابھی ہموار نہیں ہے نہ ہی عوام میں اتنی آگاہی پیدا ہوچکی ہے کہ وہ میاں نوازشریف کی قیادت میں ایک انقلاب برپا کرسکیں ایک اہم بات یہ ہے کہ نوازشریف نہ امام خمینی ہیں نا چارلس ڈیگال اور نہ ہی نیلسن منڈیلا یہ تینوں تاریخی شخصیات ہر طرح کی غلطیوں اور انسانی عیوب سے مبرا تھیں نیلسن منڈیلا ایک پر امن جمہوری انقلاب لائے اور اپنی سحر انگیز شخصیت کی بدولت انہوں نے بنی نوع انسان کو نسل پرستی کی لعنت سے نجات دلایا ان کا کمال یہ تھا کہ انہوں نے گوری اقلیت سے کوئی بدلہ نہیں لیا بلکہ ٹروتھ اور ری کنسیلشین کے ذریعے گوری اقلیت کو ساؤتھ افریقہ سے نقل مکانی سے روکا منڈیلا نے27برس تک ”رابن آئی لینڈ“ کی ایک کال کوٹھری میں قید تنہائی گزاری جب وہ ساؤتھ افریقہ کے پہلے کالے صدر بن گئے تو انہوں نے پرتعیش زندگی اختیار نہیں کی بلکہ درویشوں کی طرح رہے انکی اہلیہ پر کرپشن کا الزام لگا تو اس سے علیحدگی اختیار کرلی صدارت کی ایک مدت پوری کرنے کے بعد وہ اقتدار سے نہیں چمٹے بلکہ انتہائی باکمال اور عزت وآبرو سے ریٹائر ہوگئے۔اسی طرح جب امام خمینی فرانس سے تہران آرہے تھے تو سارے ایرانی عوام کا رخ ”مہرآباد“ کے ہوائی اڈے پر تھا انکے ہمراہ طیارہ میں عالمی میڈیا کے سینکڑوں نمائندے سفر کررہے تھے انہوں نے جہاز کے اندر سے ہی مہدی بارزگان کو عبوری وزیراعظم نامزد کردیا تھا جب صحافیوں نے پوچھا کہ پھر شاہ پور بختیار کہاں جائیں گے انہوں نے پورے یقین سے کہا کہ ہمارے اترنے سے پہلے وہ بھاگ جائیں گے جب امام خمینی کاجہاز اترا حد نظرتک لوگ ہی لوگ تھے یہ عہد حاضر میں انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا خمینی کے اندازہ کے عین مطابق شاہ پور بختیار فرانس فرار ہوگئے اور خمینی نے اسلامی انقلاب کی بنیاد رکھ دی تاریخ انسانی کا دوسرا بڑااجتماع 10اپریل 1986ء کو ہوا جب بینظیر جلاوطنی سے واپس آرہی تھیں اس رات بی بی سی نے رپورٹ دی کہ5لاکھ لوگ استقبال کیلئے آئے تھے لیکن بعدازاں سرکاری حکام نے جنرل ضیاء الحق کو جورپورٹ دی تھی اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ10تا15لاکھ لوگ بے نظیرکے استعمال کیلئے جمع ہوئے تھے یہ وہ دن تھا جب بینظیر ملک میں انقلاب لاسکتی تھیں لیکن انہوں نے بعدازاں عالمی میڈیا کو بتایا کہ انہیں خیال آیا تھا کہ وہ اسلام آباد کی بجائے لاہور کومرکزقراردے کر ملک کا نظم وسبق سنبھال لیں لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ ایک بڑی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مرسکتے ہیں لہٰذا انہوں نے انقلاب کی سوچ ترک کردی میراخیال ہے کہ اگربینظیرخوف کامظاہرہ نہ کرتیں یا مصلحت سے کام نہ لیتی تو یہ فیصلہ ہمیشہ کیلئے ہوجاتا کہ ملک پر حکمرانی کا حق عوام کو ہے یا اور طاقتوں کو۔عجیب اتفاق ہے کہ 1986ء میں میاں نوازشریف وزیراعلیٰ تھے انہیں ضیاء الحق نے بینظیر کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کی ہدایت کی تھی جبکہ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے کہا تھا کہ جو ہونا ہے ہونے دو کچھ نہیں کرنا یہ بھی سوئے اتفاق ہے کہ آج نوازشریف خود آمریت کیخلاف میدان میں نکلے ہیں اور بینظیر سے زیادہ انقلابی نعرے لگارہے ہیں لیکن بینظیر اور اسکے خاندان نے جو قربانیاں دی تھیں اسکے مقابلے میں نوازشریف کی قربانیوں کی کوئی تاریخ ہی نہیں ہے بینظیر کے والد بہت ہی دلیری کے ساتھ تختہ دار پرجھول گئے تھے خود بینظیر نے بھی ضیاء الحق کے دور میں اذیت ناک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی تھیں لیکن میاں صاحب دونوں مرتبہ جیل کی سختیاں برداشت نہ کرسکنے کی وجہ سے ملک سے باہر چلے گئے مشرف کے دور میں تو انہوں نے طویل معافی نامہ لکھ کر جلاوطنی کاتحفہ پایا تھا جبکہ اس مرتبہ ڈاکٹروں کی رپورٹ نے انہیں لندن پہنچادیا۔
پی ڈی ایم کی تشکیل کے بعد لوگوں کاخیال تھا کہ نوازشریف کا بیانیہ محض عمران خان کی تبدیلی کیلئے ہوگا لیکن اسے پی سی کے پہلے اجلاس میں انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ لانے والوں سے ہے اسکے بعد گوجرانوالہ کے جلسے میں انہوں نے اسٹیبلشمنٹ سے کافی سوالات دریافت کئے جبکہ کوئٹہ کے جلسہ میں وہ اور کھل کر سامنے آگئے اسکی وجہ یہ ہے کہ مقتدرہ نے بظاہر نوازشریف کے سارے راستے …… بند کردیئے ہیں وہ ایک سزایافتہ شخص ہیں ان کیخلاف بدعنوانی کے مزید ریفرنس دائرہوگئے ہیں جبکہ انکے خلاف بغاوت اور غداری کے پرچے بھی درج ہوئے ہیں لہٰذا انکے سامنے آخری لڑائی لڑنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے انہوں نے7ستمبر تک زبیر عمر کے ذریعے صلح کی کوششیں کیں جو کامیاب نہ ہوسکیں اس لئے انہیں کشتیاں جلاکر میدان میں آنا پڑا اگرطاقت کے حلقوں میں معاملات سنگین نہیں ہیں تو نوازشریف انکی جماعت اور انکے خاندان کیخلاف مزید کارروائیاں متوقع ہیں۔مقتدرہ کی کمزوری یہ ہے کہ اس نے جس گھوڑے کو ریس کیلئے منتخب کیا وہ مریل،اڑیل اورکمزور ثابت ہوا وہ اصل میں مقابلہ کے لائق ہی نہیں ہیں ان میں حکومت چلانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے وہ سیاست کے ابجدسے بھی واقف نہیں ہیں وہ گفت وشنید کے ذریعے مخالفین کو چت کرنے کی صلاحیت سے بھی عاری ہیں یہی مقتدرہ کی سب سے بڑی پریشانی ہے کیونکہ وہ انتظامی مسائل تو حل کرسکتی ہے لیکن پارلیمنٹ جاکر عوامی نمائندوں سے مذاکرات نہیں کرسکتی حکومتی ٹیم غیرسنجیدہ سیاسی مسخروں پرمشتمل ہے جس میں شیخ رشید،شہزاد اکبر،فوادچوہدری،شہبازگل،مراد سعید،فیاض الحسن چوہان اور شبلی فراز نمایاں ہیں یہ لوگ اپنے غیر سیاسی طرزعمل اور دشنام طرازی کے ذریعے اپنی حکومت کو مزید کمزور کرنے کا باعث بن رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ ان کی باتوں کا عام لوگ مذاق بھی اڑانے لگے ہیں پریس پر سنسرشپ کی وجہ سے سوشل میڈیا پر انکے لطیفے زبان زدعام ہیں چنانچہ مولانانے یہ موقع غنیمت جان کر تحریک شروع کردی ان کا اصل مطالبہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو ختم کرکے نئے انتخابات کروائے جائیں لیکن نوازشریف کابیانیہ بہت زیادہ سخت ہے۔چونکہ نوازشریف میدان میں موجود نہیں ہیں لہٰذا جو مولانا اور پی ڈی ایم کے رہنما طے کریں گے تحریک اس کے مطابق آگے بڑھے گی اور میاں صاحب کابیانیہ ادھورا ہی رہے گا لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ سرزمین پنجاب سے ایک پنجابی لیڈر مقتدرہ کوچیلنج کررہا ہے اس سے اذہان میں تبدیلی ضرور واقع ہوگی لیکن اگر نئے انتخابات کامطالبہ مان لیاجائے تو معاملات طے ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ایک سیاسی اور زیادہ تراقتدار کی جنگ ہے۔مولانا اورپی ڈی ایم کی دیگرجماعتیں بھی اقتدار چاہتی ہیں اور عمران خان کی جگہ لینا چاہتی ہیں یہی وجہ ہے کہ بلاول اور میاں نوازشریف کے بیانیہ میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے بلاول سندھ کے علاوہ گلگت بلتستان اور کشمیر میں شراکت اقتدار چاہتے ہیں اگرچہ وہ اپنی تقاریر میں عمران خان کو بہت سست کہہ رہے ہیں بلکہ پارلیمنٹ میں پہلی مرتبہ سلیکٹڈ کالقب بھی بلاول ہی نے عمران خان کو دیا تھا جو زبان زدعام ہوگیا ہے بلاول بھی سیاست میں بڑھتی ہوئی مداخلت کے مخالف ہیں لیکن وہ گفت وشنید سے کبھی انکار نہیں کریں گے۔عمران خان کے پاس پہلے مقتدرہ کی پشت پناہی اور نیب کے ہتھیار تھے اب غالباً صرف نیب کا ہتھیار باقی رہ گیا ہے لیکن بعض مبصرین کا خیال ہے کہ پی این اے کی تحریک کی طرح پی ڈی ایم کی تحریک کا نتیجہ بھی غیرسیاسی نکلے گا اگرمقتدرہ کیخلاف جنگ تیز کی گئی تو عین ممکن ہے کہ پوری بساط ہی لپیٹ میں آجائے یہ تحریک کہاں تک جائے گی درمیان میں کیا رخ اختیار کرے گی یہ بات مولانا کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں عمران خان کورخصت کرنے کیلئے مولانا نے پوری طرح کمرباندھ کررکھی ہے اور وہ ہر حد تک جانے کیلئے تیار ہیں چاہے اسکی کوئی قیمت ادا کرناپڑے۔
پی ڈی ایم کا تیسرا جلسہ بھی کامیاب تھا لیکن بلوچستان حکومت نے گھبراکر وفاق کے تعاون سے موبائل سروس بند کروادی کچھ راستے بھی بند کئے لیکن سب سے کمال کی بات یہ ہے کہ جلسہ کے دوران جام صاحب نے غصے میں آکر 41ٹوئٹ کرڈالے یعنی انہوں نے ٹوئٹر کے ذریعے اپوزیشن پر تابڑ توڑ حملے کئے لیکن سیاسی عمل اور حکومت چلانے کا سلسلہ میدان میں ہوتا ہے ٹوئٹر کے ذریعے نہیں جام صاحب سوشل میڈیا کے بڑے ماہر ہیں اور اپنی حکومت واٹس اپ،ٹوئٹر اورسوشل میڈیا کے ذریعے چلارہے ہیں اگروہ کبھی چیف منسٹر ہاؤس سے نکل کر زمینی حقائق کا جائزہ لیتے اور اپنی جماعت کے زیر اہتمام عوامی جلسوں سے خطاب کرتے تو انکی حکومت بہترطریقہ سے چل سکتی تھی۔
جہاں تک ملکی معاملات کا تعلق ہے تو دسمبر میں لاہور کے جلسہ کے بعد ہی اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا۔ملتان اور پشاور کے جلسے محض خانہ پری کیلئے ہونگے دیکھنا ہے کہ مولانا اس وقت بات چیت سے انکاری ہیں لاہور جلسہ کے بعد ان کے خفیہ رابطے بحال ہونگے کہ نہیں لیکن اس دوران یہ ضرور ہوگا کہ کئی ن لیگی اراکین اسمبلی داغ مفارقت دے جائیں گے لیکن میاں صاحب کو کسی کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ اس بات کیلئے ذہنی طور پر تیار ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں