عمران خان کی رخصتی کا آسان طریقہ

انور ساجدی
پاکستان میں چونکہ کوئی اصول دستور قانون اورقاعدہ نہیں ہے اس لئے نہ سیاستدان کسی اصول کے پابندہیں اور نہ ہی ریاست کے ادارے اور حکومتیں اصولوں کی پاسداری کرتی ہیں مثال کے طور پر اے پی سی کے پہلے اجلاس سے خطاب گوجرانوالہ اورکوئٹہ کے جلسوں میں اپنی تقاریر میں ن لیگ کے سپریم لیڈر میاں محمدنوازشریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ حکومت اور دیگر اداروں سے مذاکرات نہیں ہونگے ہم نے بات چیت کے دروازے بند کردیئے ہیں میاں نوازشریف نے اس اعلان کے بعد اپنا طوفانی بیانیہ جاری کیا کہ ہم سیاست میں اداروں کی مداخلت کے خاتمہ تک جدوجہد کریں گے انہوں نے یاددلایا کہ اعلیٰ اہلکاروں کو اپنے حلف کی پاسداری کرنی چاہئے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن ابھی اس بیانیہ کی سیاہی بھی خشک نہ ہوئی تھی کہ ن لیگ کے مرکزی لیڈر سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی ٹی وی پر بیٹھ کر اداروں اور حکومت کومذاکرات کی دعوت دے رہے تھے یقینی طور پر یہ بات انہوں نے اپنی طرف سے نہیں کہی ہوگی بلکہ انہیں کہا گیا ہوگا کہ وہ دریا میں مذاکرات کاپتھر پھینک کر طلاطم پیدا کریں تاکہ معلوم ہوسکے کہ اس کا ردعمل کیا ہے۔
معلوم نہیں کہ ن لیگ نے اس بارے میں پی ڈی ایم کی قیادت کو اعتماد میں لیا ہے کہ نہیں کیونکہ فی الوقت حکومت مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہے بلکہ گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کے تمام رہنماؤں کو جیب کترے کا لقب دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر کہا کہ وہ ان سب کو جیلوں میں ڈال دیں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ جیب کترے لاکھ جلسے کریں جلوس نکالیں انہیں اس کی پرواہ نہیں وہ کسی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے وزیراعظم چونکہ بے خبر ہیں اس لئے وہ زمینی حقائق کے برعکس اپنابیانیہ دے رہے ہیں البتہ شاہد خاقان عباسی کو بتادینا چاہئے تھا کہ حالیہ جلسوں سے پہلے بھی بات چیت ہورہی تھی اور جلسوں کے بعد بھی خفیہ رابطہ کا سلسلہ جاری ہے یہ رابطے لندن میں نوازشریف سے ہورہے ہیں جبکہ پاکستان میں مولانا مسلسل رابطے میں ہیں مولانا کی پہلی شرط یہ ہے کہ عمران خان کو حکومت سے نکال باہر کریں اس کے بعد ہی ہم باضابطہ مذاکرات کریں گے جبکہ دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ عمران خان کو مزید6ماہ کی مہلت دی جائے یہ تو معلوم نہیں کہ اگرمذاکرات شروع ہوئے تو وہ مولانا اوربلاول سے ہونگے یا اس میں اتحاد کے دیگرسربراہ بھی شریک ہونگے جہاں تک ن لیگ کا تعلق ہے تو شاہدخاقان عباسی کے بیان کو اس پارٹی کا یوٹرن کہہ سکتے ہیں بلکہ حیرانگی یہ ہے کہ اس پارٹی نے صرف دو جلسوں کے بعد ہی یوٹرن لے لیا لیکن سوال یہ ہے کہ ن لیگ اس وقت مذاکرات میں حصہ لیکر کیاحاصل کرے گی کیونکہ حکومت دوجلسوں سے اگرچہ حواس باختہ ضرور ہے لیکن اس پر اتنادباؤ نہیں آیا ہے کہ وہ فوری طور پر مذاکرات کے ٹیبل پربیٹھے ن لیگی حلقے یقینی طور پر یہ کہیں گے کہ شاہد خاقان عباسی نے مذاکرات کا جو پتہ پھینکا ہے وہ ایک سیاسی چال اور حکمت عملی ہے تاکہ حکومت کے اعصاب کو کمزور کیاجائے۔
سوال یہ ہے کہ یہ عمل انہوں نے پی ڈی ایم کے اجتماعی فیصلے کے برعکس اکیلے کیا یا اس میں صرف انکی اپنی جماعت کی مرضی شامل ہوگی اگرپی ڈی ایم کے رہنما اس طرح اکیلے چلیں گے تو اس اتحاد کا مستقبل میں ایکتامشکل ہے ابھی تو اس اتحاد نے اپنی اصل حکمت عملی کااعلان ہی نہیں کیا ہے ملتان اور پشاور کے جلسوں کے بعد کیالائحہ عمل طے کیاجائیگا یہ کسی کو معلوم نہیں ایک تجویز یہ ہے کہ جلسوں کے بعد عام ہڑتال کی کال دی جائے اگر حکام بالا پراس کا بھی اثر نہیں ہوا تو لانگ مارچ اوردھرنوں کا آپشن استعمال کیاجائے گا لانگ مارچ سے حکومت کی مشکلات میں ضرور اضافہ ہوگا لیکن اس سے حکومت کی رخصتی کاامکان نہیں ہے لانگ مارچ کے بعد دھرنوں کا لائحہ عمل اختیار کیاجاسکتا ہے یہ وہ ٹرننگ پوائنٹ ہوگا کہ اس سے اختلافات کاآغازہوسکتا ہے اورجب آخری آپشن کے طور پر استعفوں کا ہتھیار استعمال کیاجائے تو یہ بات یقینی ہے کہ پیپلزپارٹی اسکی مخالفت کرے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں اس پارٹی کو سندھ حکومت سے ہاتھ دھونا پڑسکتے ہیں تاہم اگر پیپلزپارٹی نے مارچ سے قبل استعفوں کا آپشن استعمال کرنے سے انکار کیاتو سینیٹ کے انتخابات میں اپوزیشن کی ساری جماعتوں کوشکست کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ سینکڑوں گھوڑے حکومت کے ہاتھ بک جائیں گے اورسینیٹ میں اس کی اکثریت ہوجائے گی اس سے اپوزیشن کی طاقت کمزور ہوجائے گی اور اس کی تحریک ناکامی پر منتج ہوگی چنانچہ جناب آصف علی زرداری جو کہ اس وقت سیاست کے اہم کھلاڑی بلکہ شاہ سوار ہیں وہ ضرور اس شکست سے بچنے کیلئے کوئی حکمت عملی سوچ رہے ہونگے پیپلزپارٹی کو فکر لاحق ہے کہ اگرسیاسی جنگ خطرناک ہوگئی تو عمران خان جیسے ضدی آدمی
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
والا فارمولا استعمال کرسکتے ہیں عمران خان کی پوری کوشش ہوگی کہ نئے انتخابات کی نوبت نہ آئے بلکہ ایسا ”حادثہ“ ہوجائے کہ اپوزیشن کے پلے کچھ نہ لگے وہ حتیٰ الامکان اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کی طرف نہیں جائیں گے کیونکہ نئے انتخابات کی صورت میں تحریک انصاف کی وہی پوزیشن بن جائے گی جو اس وقت ق لیگ کی ہے اگر اسے بہت زیادہ کامیابی ملی تو وہ 2013ء جتنی نشستیں حاصل کرسکے گی کیونکہ عمران خان بری طرح سے ناکام ہوئے ہیں انہوں نے2018ء کے انتخابات میں تبدیلی اور نئے پاکستان کانعرہ لگایا تھا لیکن گزشتہ روز کہہ رہے تھے کہ صرف بٹن دبانے سے نیاپاکستان نہیں بن سکتا اور نہ ہی انکے پاس کوئی الہ دین کا چراغ ہے کہ وہ ایک دم سے تبدیلی لائیں یہ باتیں موصوف ڈھائی سال بعد کررہے ہیں یعنی وہ 2018ء سے اب تک اپنے معصوم کارکنوں کو اندھیرے میں رکھ رہے تھے یادھوکہ دے رہے تھے ایسا لیڈر تو آج تک پاکستان کی تاریخ میں نہیں آیا جو تواتر سے سبز باغ دکھائے اور پھردھڑلے سے اپنی باتوں کی نفی کرے انہوں نے جتنا یوٹرن لیا ہے اس کی کوئی مثال موجود نہیں ہے انہیں اندازہ نہیں کہ انکے اس طرزعمل سے انکی مقبولیت زمین بوس ہوگئی ہے انکے مصاحبین خود اپنے لیڈر کو سبز باغ دکھارہے ہیں کہ وہ اب بھی مقبول ترین لیڈر ہیں عوام فاقے سہہ کر بھی انکے ساتھ ہیں اور وہ نہ صرف اپنی موجودہ مدت پوری کریں گے بلکہ 2028ء تک بھی 80سال کی عمر میں تخت پر براجمان رہیں گے ہائے اس خوش فہمی کاکیا علاج کیاجائے تحریک انصاف کے رہنماؤں کو معلوم نہیں کہ وہ عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے غریب لوگ مہنگائی کا رونا رورہے ہیں اور اسکی وجہ سے زندہ درگور ہیں اگرتحریک انصاف کے لیڈر بازاروں اور غریب بستیوں کا رخ کریں تو ان کا وہ حشر ہو جو کئی مرتبہ فیاض چوہان اور شیخ رشید کاہوچکا ہے ایک وزیر باتدبیرفیصل واؤڈا کو انکے حلقہ انتخاب بلدیہ ٹاؤن میں بھیج کر دیکھاجائے کہ عوام ان کا کیاحشر کرتے ہیں وزیرخارجہ شاہ محمود تو ملتان میں گھر سے باہر نکلنے کے قابل نہیں ہے اسکے باوجود کامیابیوں اور مقبولیت کے دعوے کئے جارہے ہیں۔تحریک انصاف کی نالائقیوں نے جنوبی پنجاب سے بھی اس کا کباڑہ کردیا ہے2018ء کے انتخابات کے موقع پر اس نے صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کا تحریری وعدہ کیا تھا لیکن یہ دعویٰ بھی باقی دعوؤں کی طرح باطل ثابت ہوا خود جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے لوگ بھی بھول گئے ہیں کہ ان کامطالبہ کیا تھا اور انہیں اب تک کیاحاصل ہوا جہانگیر ترین کھربوں کماکر لندن میں مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ صوبہ محاذ کے لیڈر خسروبختیار سارا آٹا چٹ کرگئے ہیں ان کابھائی پنجاب کے خزانہ اور شوگر پرہاتھ صاف کرچکے ہیں یہ انجام ہوا صوبہ جنوبی پنجاب کا۔حقیقت یہ ہے کہ عمران خان خود ایک پاورفل مافیا کے حصار میں ہے اور بے بسی کے ساتھ صورتحال کو دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں انہیں یہ بھی معلوم نہیں کہ انہوں نے بنی گالا کے 3لاکھ عوام کو بے سہاراچھوڑ کر صرف اپنے محل کو ریگولرلائز کروایا ہے نوازشریف نے اس بے قاعدگی کاحساب بھی مانگا ہے جبکہ فارن فنڈنگ کیس میں انکی گرفتاری کی دھمکی بھی دی ہے اگرعدلیہ مہربان ہوجائے تو الگ بات ورنہ بچت کا کوئی امکان نہیں اسی طرح عدلیہ کی مہربانی سے وزیراعظم 2014ء کے پی ٹی وی حملہ کیس سے بچ گئے ہیں لیکن انکے سارے ساتھیوں پرفردجرم عائد کرنے کا حکم جاری ہوا ہے صدرعلوی صدارتی استثنیٰ کی وجہ سے بچ نکلے ہیں لیکن یہ تلوار تحریکی رہنماؤں کے سروں پر لٹکتی رہے گی کبھی کبھار مجھے خیال آتا ہے کہ اگرعمران خان کو اقتدار سے الگ کرنا مقصود ہوا تو یہ بہت آسان کام ہے کسی بھی ایک مقدمہ کے ذریعے یہ کام آسانی کے ساتھ ہوسکتا ہے۔
”ہینگ کو لگے پٹھکڑی“ والی بات ہوجائے گی اگر فارن فنڈنگ کیس کا غیرجانبدارانہ فیصلہ آجائے تو کام اور آسان ہوجائے گا بلکہ اس کے نتیجے میں تحریک انصاف بھی پابندی کی زد میں آجائے گی لیکن مجبوری یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آزاد نہیں ہے حالانکہ یہ نیب کی طرح خودمختارادارہ ہے مگردونوں حکومتی اثرسے آزاد نہیں ہیں۔
بلاول نے دوروز قبل اسکردو میں جوجلسہ کیا وہ طویل عرصہ کے بعد انسانوں کاسمندر تھا اس لئے امکانی طور پر گلگت بلتستان کے انتخابات کی فاتح پیپلزپارٹی کو ہونا چاہئے اس کے باوجود اگرووٹ تحریک انصاف کے بکسوں سے برآمد ہوں تو یہ ایک سوالیہ نشان ہوگااوریہ انتخابات مشکوک اورغیرشفاف قرارپائیں گے یہی اس ملک کا المیہ ہے جو طویل عرصہ سے چلاآرہا ہے انتخابات میں مداخلت نے جمہوریت کومذاق بنادیا ہے اورکمزور کردیا ہے گوجرانوالہ کے جلسہ کے موقع پر پنجاب کے کامیڈی منسٹر فیاض الحسن چوہان نے کہا تھا کہ ”جیالے“ ڈھونڈنے کیلئے موٹے چشمے لگانا پڑیں گے لیکن اسکردو کے جلسہ نے اس کا جواب آپ دیدیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں