امید امکان بے یقینی

تحریر:جمشید حسنی
مجھے معلوم نہیں آپ کی دلچسپیاں کیا ہیں آپ کو کونسے موضوعات سرگرمیاں پسند ہیں۔کھیل،موسیقی،پینٹنگ،اداکاری،سیاحت آپ کو کس سے رغبت ہے۔مجھے کھیل موسیقی سے زیادہ دلچسپی نہیں سیاحت فوٹو گرافی پسند ہے۔مطالعہ کیجئے کتابے فراغے دوسال امریکہ پڑھا جنوبی کوریا،فرانس،انگلینڈ ہندوستان ایران مصر دو بار ترکی تین بار سعودی حج عمرے آوارہ گردی پاکستان میں ابھی تک گلگت بلتستان چترال نہیں دیکھا۔کوشش ہوتی ہے کہ کہوں جس میں آپ کو بھی دلچسپی ہو بات ٹھونسنا عادت نہیں خوشحال خان کو مغلوں نے قید کیا ایک جاہل چرواہا ساتھی قیدی تھا وہ ساتھ تھا خوشحال خان اور ادب فلسفہ تاریخ کی باتیں کرے چرواہا زار وقطار رو ئے۔ایک دن خوشحال خان نے پوچھا تم میری کس بات سے متاثر ہو اس نے کہا میرا ایک بکرا تھا اس کا خیال زیادہ رکھتا جب روٹی دیتا تو وہ میں میں کرتا اس کی داڑی ہلتی آپ کی داڑھی کو ہلاتادیکھ کر مجھے اپنا بکرا یاد آتا ہے اور میں روتا ہوں۔
میرے اطلاعات کے ذرائع محدود ہیں میڈیا کی معلومات کو ہی موضوع سخن بنا کر ان پر تبصرہ کرتاہوں نہ دانشمند ہوں نہ تجزیہ کار کسی انگریز قلمکار نے کہا جب میں صبح گھر سے نکلتا ہوں تو دو باتیں ہونگی میں دفتر پہنچ جاؤں گا یا راستے میں حادثہ ہوجائے گا مجھے ہسپتال لے جائیں گے معمولی زخمی ہونگا یا میری ٹانگ ٹوٹ جائیگی ڈاکٹر علاج کریگا میری ٹانگ ٹھیک ہوگی یا میں لنگڑاہوجاؤں گا۔زندگی کا انحصار امکانات پر ہے مستقبل کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔رسول اکرم ؐسے پوچھا گیا قیامت کب ہوگی کہا مجھے معلوم نہیں یہ خدا جانتا ہے۔بس معروضی حالات کو دیکھ کر ہی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ٹڈی دل آگیا یا تو اسے ختم کردیا جائے گا یا فصل ختم ہوگی۔فصلیں ختم ہونگی تو قحط اور غذائی قلت مہنگائی ہوگی وباء تھم جائیگی یا بڑھے گی سب تجزیئے ماضی کے تجربات موجود امکانات مستقبل کے خدشات کی روشنی میں ہوتے ہیں کچھ ہوسکتا ہے۔حضرت عیسیٰ،حضرت زکریا، منصور،حلاج، جلال بایار،ذوالفقار بھٹواور صدام پھانسی چڑھ سکتے ہیں۔فرانس کالوئی شانزدہم ملکہ اسنتو نت چرواہا کے ہاتھوں قتل ہوسکتے ہیں۔اندر ا گاندھی شیخ مجیب الرحمن گاندھی لیاقت علی خان کرنل قذافی سردار داؤ د، اکبر بگٹی حفیظ اللہ امین ببرک کا رمل مارے جاتے ہیں انسانی تاریخ ایک عجیب ملغوبہ ہے تہذیبوں کے زوال پیغمبروں کے قتل قوموں کی تباہی کے باوجود انسانی نسل برقرار ہے۔انسان خود کو موسمی حالات عصری ضرورتوں کے مطابق ڈھال سکتا ہے۔
بات یہ ہے کہ آج کل ہمارے ہاں بے چینی ہے۔عدم اطمینان ہے جلسے ہیں تبدیلی کی باتیں ہیں مستقبل دھندلا ہے۔ہر معاملہ میں ہمیں ہندوستان کا ہاتھ نظر آتا ہے اپنی کوتاہیوں کو چھپانے کا اچھا بہانہ ہے۔الزام تراشیاں ہیں دوسرں پر تہمت لگانا آسان یہ نہیں کہ اور ملکوں میں مسائل نہیں ہوتے گابرؤں ہماری نسبت کم خود غرض ہے۔ادارے قانون مستحکم ہیں۔راتوں رات آرڈیننس نہیں آتے ہم غریب ممالک کے لوگ ہیں دولت کو تحفظ عزت کی ضمانت سمجھتے ہیں۔سیاست دان ارب پتی ہیں پھر بھی سکون نہیں مذہبی قیادت بھی اقتدار کے ہوس میں مبتلا ہیں۔اخلاقیات میں بزرگوں کی دولت سے بیزاری بادشاہوں سے دوری کی درس دیئے جاتے ہیں صبر وقناعت پر وعظ دیئے جاتے ہیں اور عملی طور اس کے برعکس ہوتا ہے قرآن اس بات سے سخت نبراء ہے کہ تم وہ مت کہو جو تم کرتے نہیں۔
میں کسی واقعہ اور قومی معاملہ پر کچھ کہنے کے موڈ میں نہیں معاملات عشروں سے ایک نہج پر پی آئی اے اسٹیل مل ریلوے زرمبادلہ کے ذخائر بے روز گاری مہنگائی باتوں سے فرق نہیں پڑتا ترقی تبدیلی محکمہ اطلاعات کے سرکاری کتابوں وزیراطلاعات کے پریس کانفرنسوں میں دیکھیں تبدیلی ٹائیگر ز لائیں گے آگے والا آگے رہے گا پیچھے رہ جانے والا پیچھے ہی رہے گا۔
متوسط طبقے کو کسی نے اقتدار میں نہیں دینا یہ ایلیٹ معاشرہ ہے کسی پیر کے مریدکم نہیں ہوں گے نہ کسی جاگیر دار کے ہاری صنعتکاروں کے کارخانے بڑتے رہیں گے عالم دین اقتدار چاہتا ہے انقلاب کی باتیں کسی عجائب گھر میں ڈائنا سورکا نمائشی ڈھانچہ ہے نہ تعلیم نہ صحت نہ روز گار کے مواقع بڑھیں گے روز گار پیداوار کا تعلق معیشت سے ہے معیشت قرضہ کی ہے ہدایات فٹیف کی روزگار کہاں سے آئے فی کس آمدنی کیسے بڑھے گی اب توعمران خان کے منہ سے بھی لاشعوری طورمافیا کا ذکر ہوجاتا ہے حالانکہ مافیا ان کے بغل کا چیچڑ ہے کل کیا ہوگا معروضی حالات میں کسی تعمیری تبدیلی کی خواہش بس ایک خواب ہے ڈھائی سال گزر گئے مزید ڈھائی سال گزر جائیں گے اس وقت چینی کا نرخ کیا ہوگا پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ موجودہ اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ کہتے ہیں گندم کا نرخ دو ہزار روپیہ فی من کرو یہ نہیں بتلایا روٹی کتنے کی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں