سیاسی بیانیہ اور ریاستی کرنسی

تحریر: راحت ملک
سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب ایاز صادق نے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے بھارتی فضائی جارحیت کے بعد کی صورتحال پر وزیر خارجہ کے متعلق جو کچھ کہا سرکاری حلقوں نے ان کے بیان کو اچک لیا اور اسے ملکی دفاع وسالمیت کے تقاضوں کے منافی قرار دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ کیاجناب ایاز صادق کو اس نازک سچائی کے اظہار سے گریز کرنا چاہیے تھا؟ اور اگر“کچھ“کہنا مقصود بھی تھا تو کیا الفاظ کے انتخاب میں محتاط روی کرنی چاہیے تھی؟ کہ کہیں ٹھیس نہ لگ جائے آبگینوں کو۔۔۔۔
میری رایے حکومتی ترجمانوں کے برعکس ہے تاھم جناب ایاز صادق کے بیان کے نازک یا منفی پہلو دو تھے ایک جناب شاہ محمود قریشی پر طنز اور دوسرا بھارت کی جانب سے حملے کی دھمکی کے خوف کا بین السطور اظہار۔
دونوں پہلو نزاکت کے زمرے سے عاری تھے البتہ حقائق کے منافی نہں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کی رہائی میں برق رفتاری ثابت کرتی تھی کہ تاخیر کی صورت حالات انتہائی کشیدہ ہوسکتے تھے۔نیو کلیائی ہتھیاروں سے لیس دو ملکوں میں تباہ کن جنگ اور خطے میں بھیانک تباہی کے ایسے خدشات نمودار ہو رہے تھے جنہیں تدبراور استقامت کے ذریعے معمول پر رکھنا انتہائی ضروری تھا چنانچہ حکومت پاکستان کا ابھی نندن کی فی الفور رہائی کا فیصلہ اور رات گئے واہگہ سرحد کھول کر اسے بھارت کے حوالے کرنا دور اندیشانہ تدبر کا مظہر تھا جسے دنیا بھر کے امن خواہ حلقوں نے سراہا تھا۔ کہا گیا کہ رھائی جینوا کنونشن کے تحت کیا گیا جینوا کنونشن جنگی قیدی کے انسانی حقوق ملحوظ رکھنے کی پابندی عائد کرتا ہے کنوشن فی الفور رھائی پر اصرار نہیں کرتا۔ اس دلیل کی معقولیت اپنی جگہ ہوسکتی۔۔ مگر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ابھی نندن کو فوری رہا نہ کرنے کی صورت میں امکانی خطرات یا شدید رد عمل کا خدشہ کس کی جانب سے تھا؟اس کا جواب سیدھا اور سادہ ہے کہ بھارت جس کے دو جنگی طیارے پاک فضائیہ نے مار گرائے تھے اس کا ایک ونگ کمانڈر افواج پاکستان کی حراست میں تھا جبکہ نئی دلی سرکار کے وہ دعوے جھوٹ ثابت ہوچکے تھے کہ اس نے سرجیکل اسٹرائیک کے ذریعے پاکستانی حدود میں واقع مدررسہ میں قائم دہشت گردی کے اڈے کو تباہ کیا تھا جس میں تین سو سے زائد آتک وادی مارے گئے تھے۔عالمی ذرائع ابلاغ اس دعوے کو جھوٹ کاپلندہ قرار دے چکے تھے خود بھارتی سینا اس کے بر عکس موقف کا اظہار کررہی تھی بھارتی ذرائع ابلاغ مودی سرکار پر پے در پے حملے کر کے دشمن کو سبق سکھانے کا راگ الاپ رہے تھے ان کا حالات میں ذرا سی سوجھ بوجھ رکھنے والا انسان بھی یہ سمجھ سکتا تھا مودی سرکار اپنی سبکی و ناکامی پر پردہ ڈالنے اور تباہ شدہ ساکھ بچانے کے لئے جارحیت کا ارتکاب کرسکتی تھی۔دوسراا مکان یہ بھی ہوسکتا تھا کہ نئی دلی یا اس کے عالمی حلیف نے سفارتی ذرائع سے خطرناک نتائج کی دھمکی دی ہو اور رات 9بجے کی ڈیڈ لائن بھی دی ہو (یہ محض امکانی قیاس ہے حقائق کیا تھے یہ اہل حکم ہی جانتے ہیں۔)
بلاشبہ بحران کے وہ لمحے انتہائی اعصاب شکن تھے مگر صد آفرین کے پاکستان کی سیاسی قیادت نے دفاع پر مامور حکام کی مشاورت سے انسان دوستی اور امن و سلامتی کو اہمیت دی اور جنگ کے شعلوں کو بھڑکانے کی بجائے امن دوستی کی حکمت عملی اختیار کی۔جو بحرانی صورتحال درپیش تھی وہ بہت خطرناک تھی چنانچہ دریں حالات فیصلہ کرنے والوں کے اعصاب میں تناؤ کا نمو دار ہونا فطری بات ہے اگر بقول ایاز صادق جناب شاہ محمود قریشی کے چہرے پر پریشانی کے آثار تھے تو یہ بات بذات خود وزیر خارجہ کے احساس ذمہ داری وحالات کی نزاکت کے مکمل ادراک پر دلالت کرتی ہے نہ کہ ان کی تضحیک کی۔میں شاہ محمود قریشی کو ان کے احساس ذمہ داری کے ادراک پر سنجیدہ ہونے،ذہنی حالت کی پردہ پوشی نہ کرنے پر دادتحسین پیش کرتا ہوں۔ اس حوالے سے جناب ایاز صادق پر تنقید اور غداری کے الزامات قطعی طور بجگانہ حرکت ہے۔ جنگ چھیڑنا بہت آسان ہوتا ہے لیکن جنگ اور تباہی سے اجتناب یا گریز کرنا۔انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ جناب شاہ محمود اور دیگر ذمہ داران نے بہتر لائحہ عمل اپنایا۔
جناب ایاز صادق کے اظہار خیال پر تنقید کا دوسرا پہلو کم وبیش سطور بالا میں ملفوظ ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ اس پر بحث ہو۔
سیاسی موقف۔چاھے عوامی سطح پہ ابلاغ پایے یا اقتدار کی راہداریوں میں اپنایا جائے یا اسمبلی کے فلور پر۔ریاستی کرنسی نہیں ہوتا کہ وہی بات سچی کھری اور اصلی مانی جائے جس پر حکومت کی مہر اور دستخط ہوں۔
جناب ایاز صادق کے اظہار خیال پر بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ جو کچھ کہہ رھے ہیں اس کا لب ٍ لباب یہ ہے کہ انہوں (دلی) نے ابھی نندن کو اپنی عسکری طاقت کے بل بوتے پر رہائی دلائی ہے۔ ظاہر بھارت کے اس بیان کو درست طور پر پاکستان کے سلامتی کے ذمہ دار محکمے میں ناگواری پیدا کی ہے جو جائز ہے اور ان کا رد عمل مناسب تو لیکن بہر حال معقول نہیں۔کیونکہ آآی ایس پی آر نے ” دن کے اجالے ” فتحمندی کی بات ہے جبکہ بھارتی فضائیہ کی خلاف ورزی اور پاکستانی فضائیہ کی جراتمندانہ جوابی کاروائی رات کے وقت وقوع ہوئی تھی۔ سو دن کے اجالے کا حوالہ نامناسب بلکہ پلوامہ واقعہ کی جانب اشارے کا استعارہ بن سکتا ھے اب بھارتی حکومت اور ذرائع ابلاغ کے تناظر اسلام آباد کے وزراء ،پی ٹی آئی کے درآمدی ترجمان
نامعقولیت کی حدوں سے باہر نکل کر جلتی پر تیل ڈال رہے ہیں یہ سب کچھ اس عاقبت نا اندیشی کا شاخسانہ ہے جس کی عمومی قلت حکمران جماعت میں دیکھی جاتی ہے چنانچہ ہمارے وزیر سائنس نے بھی حکمت ودانائی سے عاری یہ بیان بھی داغ دیا ہے کہ ” عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے بھارتی کشمیر میں گھس کر مارا تھا "۔
اس سے قبل حکومت پاکستان کا موقف اس کے بالکل برعکس رہا تھا اور پلوامہ کو بھارتی ڈرامہ قرار دیا گیا پھر فضائی مداخلت بھارت کو جارحیت کا مرتکب کہا گیا تھا۔شاید دنیا نے اس موقف کے حوالے سے پاکستان کے اس کردار کو سراہا تھا کہ اس سے گرفتار ونگ کمانڈر ابھی نندن کو رہا کر کے” امن کے بجھتے دیئے کو بچالیا ” تھا۔اب فواد چوہدری صاحب کا بیان کیا اثرات مرتب کر ے گا؟ اس پر بھی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان تاحال ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں ہے جس پر دہشت گردوں کی اعانت اور ان کے لئے فنانسنگ سپورٹ کا الزام ہے۔جناب فواد چوہدری کا گھس کر مارنے والا بیان عالمی سطح پر ایف اے ٹی ایف کے لئے معاون دستاویز ثابت ہوسکتا ہے(اللہ کرے یہ خدشہ غلط نکلے)
جناب ایاز صادق کی تقریر سے اٹھنے والے بحران کی دوسری جہت کو نظر انداز کیا جارہا ہے۔گزشتہ کئی سالوں سے بھارت آئے روز پاکستانی سرحدی چوکیوں اور آزاد کشمیر کی سول آبادیوں پر بمباری کرتا چلا آرہا ہے سرحدی خلاف ورزیوں کی تعداد سینکڑوں واقعات پر مشتمل ہے پاکستانی عساکر گو۔سرحدی خلاف ورزی پر موثر جوابی کارروائی کرتی ہیں وزارت خارجہ بھار تی سفیر کو احتجاجی مراسلہ دیتی ہے لیکن بھارت کی سرحدی خلاف ورزیاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ حالانکہ بھارت کو یہ خدشہ بھی ہونا چاہیے کہ اس کی بلا جواز اشتعال انگیزیاں خطے میں ایٹمی جنگ کا باعث بن سکتی ہیں وزیراعظم عمران خان بھی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ بھارتی سرحدی خلاف وزریوں کے رد عمل میں ” پاکستانی برد باری کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ہم جنگ کی بھیانک صورتحال سے شعوری طور پر بچنے کی پالیسی پر کاربند ہیں ” ماضی قریب میں متعدد مرتبہ میں یہ سوال اٹھا چکا ہوں کہ سرحدی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتے ہوئے بھارتی سرکار پاکستان کے بھیانک رد عمل سے بے پرواہ کیوں نظر آتی ہے؟ اسے ایٹمی جنگ چھڑ جانے کا خدشہ اشتعال انگزیوں سے باز رکھنے میں حامل کیوں نہیں ہوتا؟ کیا یہ گمان کرلینا بعید از قیاس ہوگا کہ اسے کسی موثر طاقت نے یقین دلارکھا ہے کہ پاکستان جوابی حملہ کرے گا اور نہ ہی ایٹمی صلاحیت کے استعمال کی کوششیں!!!! چنانچہ یہ سوال حالیہ مطاحثہ میں اْٹھایا جانا چاھیے کہ مسلسل مداخلت اور بھارتی سرحدی اشتعال انگزیوں کے تناظر میں "ہمارا ڈیٹرنس” کیوں موثر ثابت نہیں ہورہا؟
ایٹمی اسلحہ جنگ کے لئے نہیں امن برقرار رکھنے میں کردار ادا کرتا ہے بظاہر دونوں ممالک پر امن ہیں لیکن فوجی اشتعال انگیزیاں مستحکم وپائیدار امن کے امکانات دھند لاتی رہتی ہیں ایسا کیوں ہے؟اگر اس کی وجوہات سمجھ میں آجائیں تو شاید جناب ایاز صادق کے بیان کے مندر جات کی اور وزیر خارجہ کی ہیت کذائی بارے بیان کی صحت کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔۔
اپنی اپنی وزارت بچانے کے لیے پاکئیے دامان کی حکائت بڑھانے کی کوششیں کو چند لمحے روک کر سوچنا ہوگا کہ پی ڈی ایم کی تحریک کا سیاسی مقابلہ کرنے کی بجائے اسے سیکورٹی کا مسئلہ بنانا زیادہ تشویشناک ہوگا کیونکہ حکومت سے اختلاف کا اظہار کرنا ہر شہری کا حق ہے اسے کرنسی نوٹ جیسا نہ بنایا جائے جس پرصرف ریاست یا حکومت کا اجارہ ہونا ہے۔!!

اپنا تبصرہ بھیجیں