بلاول کا یوٹرن اور جہانگیر ترین کی واپسی

تحریر; راحت ملک
چینی اسکینڈل کے اہم و مرکزی کردار پی ٹی آئی کے رہنماء جناب جہانگیرترین ملک میں پھیلتے ہوئے سیاسی بحران اور حکومتی مشکلات کے نازک مرحلے میں لندن سے واپس پاکستان پہنچ گئے ہیں ان کی اچانک آمد اتفاقی فیصلہ نہیں بلکہ آنے والے بہت سے معاملات میں ان کے نمایاں کردار کی غماز ہے وزیراعظم کے معاون خصوصی نے جناب جہانگیر ترین کی واپسی پر گویا فتح کے شادیانے بجانے جیسا بیان داغا ہے کہ ”جہانگیر ترین تو واپس آ گئے ہیں اب نواز شریف کو بھی لوٹ آنا چاہئے اب اپوزیشن کس کے پیچھے چھپے گی؟ "
اس بیان سے دو تاثر ابھرتے ہیں اول یہ کہ جہانگیر ترین کی وطن واپسی حکومتی قانونی تادیبی اقدامات کا نتیجہ ہے ثانیاً یہ کہ جہانگیر ترین اب بھی پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء ہیں جو چینی سکینڈل میں خود پر لگے الزامات کی جوابدہی کیلئے رضاکارانہ طور پر ملک واپس آ گئے ہیں لہذا ان کے اس عمل کی پیروی کرتے ہوئے میاں نواز شریف کو پاکستان آ جانا چاہئے۔ دوسرے پہلو کو تسلیم کر لیا جائے تو ایک درست منطقی نتیجہ یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ معاون خصوصی جناب عثمان ڈار نے بین السطور میں پہلے تاثر کی نفی کی ہے جس میں حکومتی اقدامات کے نتیجے میں واپسی کا پہلو سامنے ا سکتا تھا کیا جناب جہانگیر ترین بلا سبب اور سیاسی معاملات سمجھے بنا ملک لوٹے ہیں؟ اس اہم سوال کا جواب آنے والے چند دنوں میں اپنے خدوخال کے ساتھ وضاحت کر دے گا قیاس غالب ہے کہ جناب جہانگیر ترین اپوزیشن کی تحریک کے دباؤ میں اضافہ کرنے کیلئے واپس آئے ہیں شاید انہوں نے لوہا گرم دیکھ کر عمران خان پر جوابی جوٹ لگانے کا فیصلہ کر لیا ہے چنانچہ ممکن ہے کہ وہ ہفتہ عشرہ میں اپنے زیر اثر اراکین اسمبلی کو حکومتی حمایت سے دستبردار کرنے کا اعلان کر کے قومی اسمبلی میں عدم اعتماد اور پھر نئی حکومتی تشکیل کیلئے سرگرمی دکھائیں گے اس نقطہ کی اہمیت کا اندازہ گزشتہ روز وزیراعظم کے ظہرانے میں ق لیگ کی عدم شرکت اور بی بی سی کے ساتھ گفتگو میں جناب بلاول بھٹو زرداری کے تحفظات کی خبر ہے جس نے بادی النظر میں مسلم لیگ کے قائد کے بیانئے سے جناب بلاول یا پیپلز پارٹی کی جانب سے فاصلہ اختیار کرنے کے امکان کو واضع کر دیا ہے اس بیان نے پی ڈی ایم میں تقسیم کیلئے صاحبان اقتدار کی کاوشوں کو بھی طشت ازبام کیا ہے تو ملکی سیاست میں بڑھتے ہوئے عوامی احتجاجی دباؤ کے سبب ایک کھڑکی بھی کھولی ہے جو شاید ان ہاؤس تبدیلی کا راستہ ہموار کرے اور بعد ازاں وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل کے ذریعے قبل از وقت انتخابات کا سبب بنے‘ متذکرہ صدر انتخابات کے انعقاد پر اگر طاقتور حلقے کی آمادگی بی واحد سبب ہوئی تو حالات میں بہتری نہیں آئے گی لازم ہے کہ جمہوری بالادستی کی قبولیت بھی اس آمادگی کا جزولاینفک ہو۔ کیا طاقتور حلقہ صاف شفاف آزادانہ انتخابات کے مطالبے کو تسلیم کرنے جا رہا ہے؟ اگر اس کا مکان ہے تو اس کو مثبت سمت میں آگے بڑھنے کے معروف استدلال کی روشنی میں دیکھا جانا چاھیے جس کی اولین شرط مارچ میں ہونے والے سینیٹ کے نصف ارکان کے انتخابات کا التواء یا انعقاد ہے جو معاملات کی سمت کا تعین کرنے میں بنیادی کردار ادا کرے گا التواء کو غیر مشکوک طور پر عوامی دباؤ اور سیاسی فضاء کی کامیابی سمجھا جائیگا جبکہ انعقاد کے بعد آزادانہ منصفانہ شفاف انتخابات گذشتہ انتخابات سے اٹھنے والی گرد صاف کرنے کا عمل ہوگا۔
اگر جناب جہانگیر ترین اپنے ساتھیوں کے ذریعے پی ٹی آئی میں علیحدہ گروپ تشکیل دے دیں اور جناب بلاول بھٹو کی حمایت بھی حاصل کر لیں تو کیا موجودہ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ کی حمایت کے بغیر نئی حکومت بن پائے گی؟ اس کے جواب میں ماننا ہوگا کہ آنے والے مہینوں میں مسلم لیگ نواز میں بھی دراڑ پیدا ہو سکتی ہے بصورت دیگر معاملہ کھٹائی میں پڑ جائیگا پیپلز پارٹی کے موقف میں اچانک تبدیلی بظاہر جی بی کے انتخابات کیلئے طاقتور حلقے کی شفقت حاصل کرنے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھی جا رہی ہے میرا خیال ہے کہ یہ حوالہ شاید زیادہ اہم نہ ہو بلکہ اس کے برعکس پیپلز پارٹی کے گڑھ سندھ کے جزائر پر وفاق کے کنٹرول پر پی پی قیادت کے تحفظات دور کرنے پر معاملہ بندی کا زیادہ امکان ہو سکتا ہے مذکورہ جزائر کی عدم بازیابی کی صورت میں پیپلز پارٹی کی جانب سے تعاون اسے سندھ میں سیاسی تنہائی بلکہ تباہی کا باعث ہو سکتا ہے یقیناً جناب بلاول گھاٹے کا سودا کرنے کی غلطی نہیں کرنگے تو سیاسی نئی مثلث کی صورتگری میں کرداروں کی اہمیت کا حتمی فیصلہ جہانگیر ترین کی جانب سے پی ٹی آئی میں تقسیم کی تعداد متعین کرے گی اگر جہانگیر ترین پچاس کے لگ بھگ ارکان کو الگ کر لیتے ہیں تو وہ نئی تکون کا اہم ستون ہونگے ان کی وطن واپسی کا فیصلہ متذکرہ صدر قیاس آرائی سے بالکل برعکس بھی ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ان کے اور جناب عمران خان کے درمیان معاملات طے پا گئے ہوں کیونکہ حکومت جس طرح کی داخلی کشمکش (اقتدار و اختیار کے دائرے میں) اور عوامی سیاسی احتجاجی دباؤ کی زد میں ہے اس میں بعد از قیاس نہیں کہ جناب جہانگیر ترین وزیراعظم کو مجبور کر دیں کہ وہ چینی اسکینڈل میں ان کو کلین چٹ دیں یا پھر گھر جانے کا راستہ ناپیں۔آنے والے چند دنوں میں لیکن پشاور کے جلسے سے قبل تمام عقدے کھل جائیں گے عمران خان حکومت اپنے بلند آھنگ احتسابی نعرے کے چورن کی سیل۔ اور جہانگیر ترین کیلئے این آر او کی چکی کے پاٹ کے بیچ پھنس رہی ہے تو جناب بلاول بھٹو کے نئے موقف نے پی ڈی ایم کو بالعموم اور نواز شریف کو بالخصوص انٹی اسٹیلبشمنٹ سیاست کا بلا شرکت غیرے مسلمہ ہیرو بنا دیا ہے کیا پیپلز پارٹی اپنے معروف اینٹی اسٹیبلشمنٹ تاریخی حوالے کو مزید کمزور تر کرنے کا بوجھ برداشت کر پائے گی؟
جناب بلاول کے یوٹرن نما انٹرویو سے یہ سوال ابھر کر سامنے آگیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں