ایک اورواٹرگیٹ اسکینڈل

تحریر: انور ساجدی
ویسے ہے یہ دور کی کوڑی لیکن جس ملک میں پاکستانی بڑی تعداد میں آباد ہوں وہاں کے انتخابات میں دھاندلی اور فراڈکے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جب بش اور الگورمدمقابل تھے تو فلوریڈا میں پاکستانی دوستوں نے10ہزارجعلی ووٹ بش کے حق میں ڈالے جس کی وجہ سے بش جیت گئے موجودہ انتخابات میں جولوگ اپنے وزیراعظم عمران خان کے حامی تھے انہوں نے صدرٹرمپ کے حق میں ڈالے تاہم پاکستانیوں کی اکثریت نے جوبائیڈن کوووٹ دیئے یہ الزام کہ ہزاروں افرادنے کئی مرتبہ ووٹ ڈالا میرے خیال میں یہ تکنیک صرف پاکستانیوں کوہی آتی ہے اور وہ اس معاملہ میں کافی تربیت یافتہ ہیں لوگوں کو کراچی کے انتخابات یاد ہونگے جب ایم کیو ایم کے ووٹر ہرحلقے میں جاکر نہ صرف کئی مرتبہ ووٹ ڈالتے تھے بلکہ دوسروں کے ووٹ بھی خود ہی بھگتاتے تھے میراخیال ہے کہ ڈونلڈصحیح طور پر فراڈ کا رونا رورہے ہیں ضرور پاکستانیوں نے اس کے ساتھ ہاتھ کیا ہوگا ویسے حیران کن بات ہے کہ ٹرمپ نے رائے عام کے تمام جائزوں کوغلط ثابت کردیا ہے کمال کا مقابلہ کیا ہے گزشتہ انتخاب کی نسبت اس مرتبہ ٹرمپ کو کہیں زیادہ ووٹ ملے ہیں لیکن ایکٹوریل کالج کے ووٹ کم ملے ہیں اس لئے ان کی پوزیشن مدمقابل کی نسبت کمزور ہے اس لئے انہوں نے تمام انتخابی عمل کومتنازعہ اور مشکوک بنادیا ہے انہوں نے کئی ریاستوں میں انتخابی عذرداریاں داخل کردی ہیں اس کی بنیاد پر وہ انتخابی نتائج کیخلاف ”اسٹے آرڈر“ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے وہ لازمی طور پر جوبائیڈن کو20جنوری کو حلف اٹھانے نہیں دیں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ بائیڈن مارچ میں بھی اقتدار نہ سنبھالیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پولنگ کے دن اپنی پیشگی کامیابی کااعلان کیا ٹرمپ اصل میں بہت ہی مختلف انسان ہیں وہ آسانی کے ساتھ ہارماننے والے نہیں ہیں انہوں نے اپنے حامیوں کو تیار کرلیا ہے کہ وہ الیکشن فراڈ کے خلاف سڑکوں پر نکلیں وہ امریکہ میں خانہ جنگی کی کیفیت پیدا کرنے سے بھی باز نہیں آئیں گے کیونکہ ٹرمپ وائٹ اشرافیہ کے نمائندہ ہیں وہ باقی آبادی کیخلاف جنگ چھیڑدیں گے اگرامریکہ کی آبادی دوحصوں میں تقسیم ہوتی ہے اسکی بلاسے وہ حتمی نتیجہ آنے کے بعد بڑے بڑے ڈرامے کریں گے کیونکہ دیگر ممالک کوبھی دھاندلی اورفراڈ میں ملوث کرنے کی کوشش کریں گے وہ ایک اور ”واٹرگیٹ اسکینڈل“ کھڑا کردیں گے انہوں نے پہلے سے کہہ رکھا ہے کہ وہ صرف ان ووٹوں کو تسلیم کریں گے جو لوگوں نے پولنگ اسٹیشنوں پرجاکر ڈالے وہ پوسٹل بیلٹ اورقبل از وقت ووٹنگ کو فراڈ قراردے رہے ہیں ان کا الزام ہے کہ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی الیکشن جیتنے کی سازش تھی امریکہ کے انتخاب کتنے اعصاب شکن تھے اس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتا ہے کہ ایک اہم ریاست جارجیا جسکے 16ایکٹورل ووٹ ہیں میں دونوں امیدواروں کے ووٹ ٹائی ہوگئے ہیں جیسے کہ انتخاب نہ ہوں کوئی ون ڈے کرکٹ میچ ہوفیصلہ تو آخرکار ہوجائے گااگرٹرمپ نے سپریم کورٹ کے احکامات نہ مانے توانہیں وائٹ ہاؤس سے بے دخل کرنے کیلئے فوج طلب کرنی پڑے گی۔عجیب بات ہے کہ امریکہ میں باقی ممالک کی طرح کوئی مرکزی الیکشن کمیشن نہیں ہے وہاں پر انتخابات کاانعقاد ریاستوں کی ذمہ داری ہے جب تک ایشیائی اور افریقی تارکین وطن زیادہ تعداد میں نہ تھے گورے امریکی دھاندلی اور فراڈ کے تصور سے ناواقف تھے اس لئے وہ اپنی پسند کی جماعت کو پرسکون طریقے سے ووٹ دے کر آتے تھے لیکن جب سے ایشیائی اور افریقی تارکین وطن کی تعدادکروڑوں میں ہوگئی ہے نسلی تعصبات کے ساتھ ساتھ انتخابات میں بھی فراڈ شروع ہوگیا ہے امریکی معاشرے میں تشدد کے ساتھ سماج میں بے ایمانی کاعنصر بھی بڑھ گیا ہے کیونکہ ان لوگوں نے وہاں جاکر بھی اپنی سماجی اقدار کو نافذ کرنے کی کوشش کی ہے یہ لوگ اپنی روایات کے ساتھ اپنے عقیدے سے بھی ساتھ لے گئے ہیں جس کی وجہ سے تعصبات جنم لیا ہے ایشیاء خاص طور پر برصغیر میں کسی بھی معاملہ میں شکست تسلیم کرنا مردانگی کیخلاف تصور کیاجاتا ہے یہ ٹرینڈامریکہ جسے ملک میں بھی آگیا ہے یہی وجہ ہے کہ پہلی مرتبہ جارج ڈبلویش نے الگور کے مقابلہ میں شکست تسلیم نہیں کی تھی بش اور ٹرمپ میں قدر مشترک ان پڑھ ہونا ہے البتہ دونوں نے ہندوسماج کا نزدیک سے مشاہدہ کیا ہے مودی کو تو ٹرمپ نے بھائی بنایا تھا اور اسکے داماد اور صاحبزادہ نے انڈیا میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری بھی کی ہے کوئی زمانہ تھا جب برطانیہ عظمیٰ کو جدید جمہوریت کی ماں کہاجاتاتھا جبکہ امریکہ اپنے جمہوری نظام اور روایات پر فخر کرتا تھا لیکن ڈونلڈٹرمپ نے اقتدار میں آکر سب سے پہلے اپنے کپتان کی طرح میڈیا پرحملہ کردیا وہ کئی بار پریس کانفرنسوں میں کہہ چکے ہیں کہ وہ سی این این کانام سننا نہیں چاہتے وہ کئی بار سی این این کے نمائندوں کو برا بھلا کہہ چکے ہیں ایک مرتبہ وائٹ ہاؤس کی بریفنگ میں سی این این کے نمائندے کودیکھ کر کہا کہ یہ بات آپ کیلئے باعث شرم ہے کہ آپ سی این این کے نمائندے ہیں امریکہ کے تاریخی اور دنیا کے عظیم ترین اخبار نیویارک ٹائمز کیخلاف انہوں نے شروع سے یہ محاذ کھولا تھا جیسے کہ کپتان نے جنگ گروپ کیخلاف کھولا ہے البتہ ایک فرق یہ ہے کہ صدر ٹرمپ اداروں اورکمپنیوں کو یہ مجبور نہیں کررہے کہ وہ سی این این اورٹائمز کو اشتہارات کااجراء نہ کریں انکے مقابلہ میں کپتان کی حکومت نے
جنگ گروپ کے مالک میرشکیل الرحمن کو نیب کی تحویل میں دے کر نہ صرف یرغمال بنایا ہوا ہے بلکہ ان کی ذات کو بطور ضمانت قید میں اس لئے رکھا گیا ہے کہ جنگ گروپ حکومت کی حمایت کرے گزشتہ چند روز سے جنگ اخبار کی پالیسی میں تبدیلی اسی بلیک میلنگ کانتیجہ ہے
پاکستان میں چونکہ اظہار رائے کی آزادی یامیڈیا کی آزادی اہم ایشو نہیں ہے اس لئے حکومت ہرروز نئی قدغن لگاتی ہے اس نے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کوزیرکرلیا ہے لیکن ابھی تک سوشل میڈیا اسکے قابو سے باہر ہے حالانکہ اسکے قوانین بھی بنائے جاچکے ہیں لیکن اس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہے ورنہ حکومت کولاکھوں افراد کوحراست میں لینا پڑے گا جو اس کے بس کا کام نہیں ہے۔
جوعناصر پاکستان میں صدارتی نظام لانا چاہتے ہیں انہیں امریکی نظام کو سامنے رکھنا چاہئے مسئلہ نظام کانہیں ہوتا بلکہ یہ ہوتا ہے کہ آپ اپنے ملک کو کس خلوص اور دیانتداری چلاتے ہیں پاکستان میں تمام صدارتی نظام ناکام ہوچکے ہیں اوریہاں پر پارلیمان سسٹم بھی ناکامی سے دوچار ہے کیونکہ یہاں پر ظاہری طور پر جو دکھائی دیتا ہے اصل میں ویسا ہوتا نہیں ہے کیونکہ ملک کو چلانے والے عناصر پارلیمنٹ سے زیادہ سپریم ہیں اسی لئے پارلیمانی نظام بھی ناکام ہے
امریکہ ابتک اس لئے کامیاب تھا کہ وہاں پر ریاستیں خودمختار ہیں اور اپنے وسائل کے مالک آپ ہیں وہاں پر بلدیاتی نظام بھی کامیاب ہے روزمرہ کے تمام مسائل مقامی کونسلیں حل کرتی ہیں اسکے برعکس پاکستان میں آدھا تیترآدھا بٹیر والا معاملہ چل رہا ہے۔
بیشتر پاکستانی اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ جوبائیڈن کی کامیابی کانتیجہ انکے حق میں نکلے گا ٹرمپ توپاگل تھا اس کا اپنا ایک منشور تھا وہ وائٹ سپرمیسی کا حامی تھا گزشتہ چارسال میں اس نے اپنے تمام وعدے پورے کئے انکے مقابلہ جوبائیڈن ”ڈیپ اسٹیٹ“ کے تحت چلیں گے وہ اپنی انتظامیہ کے مشورے پر چلیں گے جو کیپٹل ہل اور پینٹاگن طے کریں گے وہ اسی کے مطابق چلیں گے امریکہ کے نزدیک وہ سارے ملک کوئی معنی نہیں رکھتے جن سے کوئی مفاد وابستہ نہیں بلکہ صرف وہ ملک اہم ہوتے ہیں جن سے امریکی مفادات وابستہ ہوتے ہیں البتہ بائیڈن افغانستان سے مکمل انخلا کے مخالف رہے ہیں اگر انہوں نے اپنے سابقہ خیال پر عمل کیا تو اس فیصلہ سے پاکستان ضرور متاثر ہوگا ہوسکتا ہے کہ بائیڈن افغانستان اورایران کے تناظر میں پاکستان کی امداد بحال کردے جہاں تک چین کا تعلق ہے یہ معلوم نہیں کہ بائیڈن کیا پالیسی اختیار کریں گے البتہ وہ ٹرمپ کی طرح چین کے بارے میں عمل سے زیادہ بڑھکیں نہیں ماریں گے۔مبصرین کے مطابق اگر ٹرمپ جارجیا اور پینسلوانیا میں الیکشن ہارگئے تو وہ صدارتی دوڑسے باہر ہوجائیں گے جس کے بعد بالآخر انہیں شکست تسلیم کرنا پڑے گی یا ادارے حرکت میں آجائیں گے اور انہیں وائٹ ہاؤس سے بے دخل کردیں گے۔
مسلم لیگ ن کی ورکنگ پریذیڈنٹ محترمہ مریم نواز نے گانچھے میں ایک انتخابی جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے ووٹروں سے کہا کہ وہ پولگ کے دن ووٹ چوری پراپنی شہادت کو ترجیح دیں یہ محترمہ کا ابتک کا سخت ترین بیان ہے جس کا مقصد طاقت کے عناصر کو سخت پیغام پہنچانا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شہادت کا ٹھیکہ غریب شہریوں نے اٹھارکھا ہے محترم بسم اللہ کریں اور پولنگ کے دن خود وہاں پر موجود رہیں ووٹ چوری کو روکیں اگرشہادت ضروری ہوا تو یہ قربانی بھی دیدیں مجھے جو اب تک بات سمجھ میں آئی ہے محترم کے گلگت جانے کا واحد مقصد پیپلزپارٹی کے ووٹوں کو تقسیم کرنا ہے وہاں پر تو ن لیگ کے امیدوار بھی پورے نہیں ہیں ان کی طرف سے انتخابی مہم چلانے کامقصد پی ٹی آئی کو فائدہ پہنچانا ہے جب پی ڈی ایم کی جماعتوں کے ووٹ تقسیم ہوجائیں گے تولازمی طور پر اس کا فائدہ پی ٹی آئی کوپہنچے گا سرکار میں ہونے کی وجہ سے اس کا پلڑا ویسے بھاری ہے محترمہ بھی اسے ناگہانی سپورٹ دینے وہاں سے ہوکر آئی ہیں۔پی ڈی ایم کی جماعتیں کم از کم سیٹ ایڈجسٹنگ کامسئلہ تو حل کریں ورنہ عام انتخابات میں اس کا براحشر ہوجائے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں