بس کرومیرادم گھٹ رہاہے

تحریر: انور ساجدی
وزیراعظم عمران خان کیلئے اپنے عظیم دوست ڈونلڈٹرمپ کے افسوسناک انجام اور منتخب صدرجوبائیڈن کی ”وکٹری اسپیچ“ میں کئی اسباق پوشیدہ ہیں ٹرمپ عمران خان کی طرح غیرروایتی حکمران تھے جنہوں نے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی جس میں اقرارکیا گیا تھا کہ وہ اپنے ملک کو متحد رکھیں گے بلاامتیازعوام کی خدمت کریں گے لیکن ہوا اسکے برعکس انہوں نے اپنے عوام کو رنگ نسل اور عقیدہ کی بنیاد پر تقسیم کردیا اور قراردیا کہ گوری نسل کوکالی نسل پر اور انکے عقیدہ کو اسلام اور دیگرعقائد پرفضیلت حاصل ہوگی ٹرمپ نے سفیدرنگ کی بالادستی کانعرہ بھی دیا اور کہا کہ مسلمانوں کو کوئی حق نہیں کہ وہ اپنے عقیدے کا پرچار کریں انہوں نے دنیا کے مسلمانوں کی امریکہ میں آمد پر پابندیاں بھی عائد کردیں لیکن عدالتوں نے انکے احکامات کی دھجیاں بکھیردیں صدرٹرمپ عجیب وغریب شخصیت کے مالک تھے اقتدار میں آکر ہرشعبہ کیخلاف محاذ کھولا ایک مرتبہ اعلان کیا کہ لاطینی امریکہ کے بھوکے ننگے لوگوں کو روکنے کیلئے میکسیکو کی سرحد پر دنیا کی عظیم دیوارتعمیر کریں گے اور میکسیکو کوحکم دیا کہ اس دیوار کی تعمیر کے اربوں ڈالر خرچہ آپ دیں گے لیکن کسی نے انکی بات نہیں سنی دن میں کئی بار ٹوئٹر پردلچسپ لیکن عجیب وغریب پیغامات بھیجتے تھے جس کا لطف کافی لوگ اٹھاتے تھے کیونکہ ان ٹوئٹس کی حیثیت لطائف سے زیادہ نہ تھی انہوں نے میڈیا کیخلاف ایسا محاذ کھولا کہ ایک مرتبہ ایک سوامریکی اخبارات نے مل کر آزادی صحافت کیخلاف صدر کے اقدامات کیخلاف مشترکہ اداریہ چھاپااپنی حالیہ شکست کے بعد بھی انہوں نے فرمایا کہ الیکشن کے جعلی اعدادوشمار ڈیموکریٹک پارٹی اور اسکے میڈیا کے دوست جاری کررہے ہیں وہ غالباً طویل عرصہ کے بعد پہلی امریکی صدر ہیں جنہوں نے نتائج قبول کرنے سے انکار کیا ہے کوئی شک نہیں کہ انہوں نے7کروڑ 10لاکھ ووٹ لیکر اپنا گزشتہ ریکارڈ توڑدیا لیکن وہ پوسٹل بیلٹ سے آنے والے ووٹوں کی وجہ سے ہار گئے انہی ووٹوں کو انہوں نے جعلی اور فراڈ قراردیا ہے اپنے ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہا کہ ہزاروں فوجیوں کے پوسٹل بیلٹ آنے سے ایسا لگتا ہے کہ دنیا کی ساری افواج نے ڈیموکریٹک امیدوار کو اپنے ووٹ بھیجے ہیں۔
عمران خان کو دیکھنا چاہئے کہ نومنتخب صدرجوزف بائیڈن نے جو وکٹری اسپیچ دی انہوں نے صدرٹرمپ کی ناکامیوں کا ذکر نہیں کیا انہوں نے ان پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ یہ کہا ہے کہ وہ امریکہ کی وحدت کیلئے کام کریں گے عوام کوایک کردیں گے ان میں کوئی امتیاز روانہیں رکھیں گے انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ زخموں پر مرہم رکھنے آئے ہیں یہ نہیں کہا کہ یہ زخم کس نے دیئے ہیں انہوں نے ٹرمپ کو اس کا مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا کہ ان کی وجہ سے کرونا کی وبا بے قابو ہوئی جس کی وجہ سے 2لاکھ سے زائد امریکی فوت ہوکر موت کے منہ میں چلے گئے۔انہوں نے اپنے پیش روحریف کولاکھوں امریکیوں کا قاتل نہیں کہااس کے برعکس عمران خان نے اقتدار کے پہلے دن احتساب کانعرہ لگایا لیکن آدھی مدت گزرجانے کے باوجود ان کااحتساب اسی جگہ کھڑا ہے جہاں سے چلاتھا جو لوٹی ہوئی دولت تھی ابھی تک اس کا ایک آنہ بھی واپس نہیں آیا اپنی تمام تر نااہلی اور کوتاہیوں کویہ کہہ کر چھپایاجارہا ہے کہ ساری خرابیاں دوسابقہ حکومتوں کی خراب کارکردگی کانتیجہ ہے معیشت کی تباہی بھی اس کی ہاتھوں ہوئی لیکن یہ نہیں بتاتے کہ معیشت ابھی تک ٹھیک کیوں نہیں ہورہی ہے چینی اور گندم کی مس ہینڈلنگ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ کی وجہ سے مہنگائی کا جوطوفان آیا ہوا ہے اس کو بھی سابقہ حکومتوں کی خراب کارکردگی بتایا جارہا ہے اگر کوئی موچھڑے مارنے والا ہوتا تو وزراء کو لائن میں کھڑا کرکے ان کی خبرلیتا اور پوچھتا کہ تم لوگوں کو کسی چیز کا پتہ نہیں تو وزیر کیوں بنے بیٹھے ہو بلکہ ان کی جگہ یہ سوال وزیراعظم سے پوچھا جانا زیادہ ضروری ہے وہ اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی بجائے صرف انتقامی نعرہ لگارہے ہیں این آر او نہیں دوں گا کسی کو نہیں چھوڑوں گا سارے ڈاکوؤں کو جیل میں ڈال کر ان سے چکی پیسواؤں گا۔ارے بھائی یہ وزیراعظم کے کرنے کے کام نہیں ہیں یہ نیب،ایف آئی اے،ایف بی آر اور دیگر اداروں کے کام ہیں اگر آپ انکے کام خود کریں گے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ادارے آزاد نہیں ہیں وزیراعظم نے ریاست کو ایک وحدت میں پھرونے کی بجائے اسکے عوام کوتقسیم کردیا ہے امریکہ تو جمہوری ملک ہے جب اس کا صدر چار سال بعد عوام کے ہاتھوں ہزیمت اٹھاکر گھرچلاگیاتو پانچ سال بعد آپ کا حشر کیاہوگا کب تک ”بزرگان“ دین آپ کو بچائیں گے اور آئندہ الیکشن میں بھی آپ کو دوبارہ مسلط کردیں گے۔
رواں سال جب ایک سفید فام پولیس اہلکار نے جارج فلائیڈ کی شہہ رگ پر اپنابھاری گھٹنا رکھ دیا جس پر اس نے بتانے کی کوشش کی گھٹنا ہٹاؤ میرادم گھٹ رہا ہے جب اس کی موت واقع ہوگئی تو ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی موت بھی اس کے ساتھ ہوگئی تھی
وزیراعظم کو اپنا جائزہ لینا چاہئے اپنی کارکردگی اپنے وزراء کے طرز عمل اپنی گورننس اور سب سے بڑھ کر اپنی سمجھ بوجھ فہم وادراک اور ملک چلانے کی صلاحیت پرغور کرنا چاہئے۔انکے مشیروں اور وزیروں کاجو مخبوط الحواس ٹولہ ہے یہ عجیب وغریب لوگ ہیں ایک وہ لمبے بالوں والا ہے جو گلگت بلتستان میں پتہ نہیں کیااول فول بول رہا ہے اور خواتین کی توہین کا بھی مرتکب ہورہا ہے یہی موصوف2014ء کی تحریک کے دوران بنی گالا میں دیوار پھلانگ کر پیرتڑوابیٹھا تھا اور اس نے بھی شرجیل میمن کی طرح قسم کھاکر کہا تھا کہ اس سے جو بوتلیں برآمد ہوئی تھیں ان میں شہد بھراہواتھا لیکن تھاوہ کڑواشہد حکومتی اکابرین یہ بات سمجھنے سے قاصر ہیں کہ وہ ہرروز جلتی پرتیل کام کررہے ہیں اگریہ مخالفین کے کردار پرحملہ کریں گے تو جواب بھی ویسا ہی ملے گا کیونکہ حکومتی اکابرین کی کمزوریاں زیادہ ہیں انکے مالیاتی اور ذاتی اسکینڈل بہت ہیں اگرانہیں اچھالا گیا تو وہ برداشت نہیں کرپائیں گے وزیراور مشیر یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی ذاتی اور قبائلی لڑائی نہیں ہے جیسے کہ جوبائیڈن نے کہا کہ الیکشن کے بعد سیاسی لڑائی ختم ہوگئی ہے وہ سارے امریکیوں کے صدر ہیں وہ ان لوگوں کی بھی خدمت کریں گے جنہوں نے انہیں ووٹ نہیں دیئے لیکن پاکستان میں سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی کے طور پر لیاجاتا ہے اوراس کاآغاز تحریک انصاف نے کیا ہے وزیراعظم بذات خود مخالفین کی نقلیں اتارتے اور انہیں تضحیک اورتمسخر کا نشانہ بناتے ہیں حالانکہ اس طرح کا طرز عمل ایک وزیراعظم کے شایان شان نہیں منتخب ہونے کے بعد وہ صرف تحریک انصاف کے وزیراعظم نہیں بلکہ پورے ملک کے وزیراعظم ہیں علی امین گنڈاپور نے جس طرح مریم نوازاور بلاول پرذاتی حملے کئے ہیں وہ کسی صورت میں بھی قابل قبول نہیں ہے کیونکہ اس کا جواب مخالفین بھی ذاتی حملے کرکے دیں گے جس کی وجہ سے ملکی ماحول پراگندہ ہوگا اور بات چادرچاردیواری پھلانگ کر گھروں کے اندرتک پہنچے گی پھر کیاہوگا؟یہ سوچنا چاہئے۔
حکومت کومعاشی بحران اور دیگر مشکلات کی بالکل پرواہ نہیں ہے سنا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی باقی ماندہ رقم واپس مانگ لی ہے اور گماں یہی ہے کہ یو اے ای جو کہ سعودی عرب کا ”چھوٹو“ ہے وہ بھی اس کی تقلید کرے گا ادھر چین نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے حکومت کو ان معاملات پر توجہ دینی چاہئے کہ ان کاحل کیا ہونا چاہئے اسی طرح ایل این جی گیس خریدنے کیلئے بھی ڈالروں کی کمی ہوگئی ہے۔حکومت سوچے کہ گیس کی قلت کے بحران پر کیسے قابو پایا جائے گا اگراسی ودران سعودی عرب نے تیل دینے سے انکار کیا تو بھرکیابنے گا؟اتنے مسائل اوربحرانوں کے باوجود وزیراعظم اپوزیشن کے جلسوں کا جواب دینے چلے ہیں اور انکی تقلید پر جلسے کررہے ہیں بالکل نہیں لگتا کہ اس ملک کو عمران خان چلارہے ہیں لگتا ہے کہ ملک کو ”چلانے والے“ چلارہے ہیں عمران خان کو صرف سیاسی محاذ گرمانے کیلئے رکھا گیا ہے ویسے بھی خارجہ امور اور داخلی سیکیورٹی سے وہ فارغ ہیں پہلے انہیں دوست ممالک سے امداد خیرات اورزکوٰۃ مانگنے کیلئے استعمال کیاجاتا تھا لیکن اب تو دوست ممالک نے بھی جواب دیدیا ہے بلکہ اب تو کوئی دوست رہا ہی نہیں ہے تو مانگیں کس سے حکومت کوفکر کرنی چاہئے کہ جوبائیڈن کے آنے کے بعد مسئلہ افغانستان کیارخ اختیار کرے گا نئے صدر کی نئی پالیسیوں کی وجہ سے خطے میں جوتبدیلیاں آئیں گی پاکستان ان سے کیسے عہدہ برا ہوگا یادرکھنے کی بات ہے کہ جوبائیڈن جارج ڈبلیوبش نہیں ہے جب وہ الیکشن لڑرہے تھے تومعلومات کے سوال کے جواب میں انہیں معلوم ہی نہیں تھا کہ پرویز مشرف ایک جمہوری حکومت کاتختہ الٹ کر آئے ہیں موصوف نے فرمایا کہ یہ جو پرویز مشرف پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں یہ پاکستان کیلئے بڑا اچھا ہے انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ دلائی لامہ کون ہے جو بائیڈن اگرچہ انتطامیہ کے کہنے پر چلیں گے لیکن وہ ایک پڑھے لکھے اور زیرک سیاستدان ہیں ماضی میں وہ آمریت اورفوجی نظام کیخلاف رہے ہیں۔
مشرف کے دور میں سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے جب اسلام آباد آئے تو واضح طور پر کہا کہ اگرالیکشن ”ق لیگ“ نے جیتے تو اس کا مطلب یہی ہوگا کہ یہ صحیح نہیں تھے۔
انہوں نے کامیابی کے فوری بعد کہا کہ وہ پریس اور آزادی صحافت کے مسائل کو پہلی ترجیح کے طور پر حل کریں گے انکے برعکس عمران خان کی حکومت نے ٹرمپ کی طرح میڈیا کا گلادباکررکھاہے۔
اس وقت پاکستانی میڈیا کا وہی حال ہے جو گورے پولیس افسر کے گھٹنے کے نیچے جارج فلائیڈکی شہہ ر گ کا تھا۔
ٹرمپ نے میڈیا اور کالی آبادی کواتنا تنگ کررکھا تھا کہ سی این این کا اینکر بائیڈن کی کامیابی کا سن کر پھوٹ پھوٹ کررویا اور کہا کہ ٹرمپ نے کالوں اور مسلمانوں کا جوحال کیا تھا آج ان کی نجات کا دن ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں