مماثلت

تحریر: رشید بلوچ
پاکستان میں ایک کثیر تعداد جنرل ضیاالحق کو معاشرے میں شدت پسندی کا خالق گردانتی ہے،کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاالحق کی افغان جنگ نے پاکستان کو شدت پسندی میں مبتلا کر دیا ہے،ممکن ہے کہ یہ دلیل کسی حد تک صحیح ہو لیکن برصغیر میں مذہبی شدت پسندی ایک دو دہائی کی نہیں بلکہ اسکی تاریخ کافی پرانی ہے،مسلمانوں میں بریلوی،دیوبندی کا تفرقہ انگریز دور سے چلاآرہا ہے ایک دوسرے پر مشرک ہونے کے فتوے لگا کر نفرت کی بنیاد انگریز دور سے رکھی گئی تھی جسکا سلسلہ ہنوز جاری ہے،تقسیم کے وقت دونوں جانب اپنی مال ومتاع چھوڑ کر ہجرت کرنے والے بے سر و سامان جتنے لوگ مارے گئے یہ بر صغیر میں شدت پسندی کی ابتدا نہیں بلکہ سالوں سے دلوں میں پنپتی ہوئی ہندو،مسلم نفرت کا ایک مثالی نمونہ تھا،پاک و ہند تقسیم کے بعد پہلی بار 60 کی دہائی میں ہندو شدت پسندی کو ہندوستان میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پروان چڑھا یا گیا،1926 میں ایک متوسط مراٹھی گھرانے سے تعلق رکھنے والے شخص بال ٹھاکرے نے شیو سینا کے نام پر ہندو سپر میسی کی بنیاد رکھی،بال ٹھاکرے ایک مقامی اخبار میں بطور کارٹونسٹ ملازمت کرتا تھا،انتہائی قلیل مدت میں کامیابی کا زینہ چڑھتا رہا،ایک کارٹونسٹ چند سالوں میں دو بڑے اخبارات کا مالک بن گیا،اخبار کے ایک عام ملازم نے شیو سینا نام کی اپنی جماعت بنا دی،شیو سینا بنانے کا مقصد گجراتیوں اور مارواڑیوں کو انڈیا کے معاشی حب ممبئی سے بیدخل کرکے مراٹھیوں کو آباد کرنا تھا،چونکہ مہاراشٹر کی اکثر آبادی مراٹھیوں کی ہے،شیو سینا نے اکثریت“ مراٹھی تحفظ“ کو اپنے سیاسی منشور کا لازمی جز بنا دیا،بال ٹھاکرے کی جماعت کم وقت میں مہاراشٹر کاایک طاقتور بلا بن گئی،سینٹرل گورنمنٹ بھی شیو سینا کی طاقت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی،مراٹھیوں نے گجراتیوں اور مارواڑیوں کو چن چن کر قتل کیا انہیں مہاراشٹر سے بھگانے پر مجبور کیا جو لوگ رہ گئے انہیں شیو سینا کی اطاعت کرنا پڑی،یہی کچھ کراچی میں الطاف بھائی نے سندھیوں ودیگر قوموں کے ساتھ کیا تھا، شیو سینا جیسے جیسے فربہ ہوتی گئی اسکی سیاسی ترجیحات میں تبدیلی آتی گئی اسکا رجحان لسانیت سے مذہبی انتہا پسندی کی جانب تبدیل ہو گیا،چونکہ تاریخی حوالے سے ہندو مسلمان کی رنجش سالہا سال سے چلی آرہی تھی اب شیو سینا کا رخ مسلمان اور مسلمانوں سے جڑا تاریخی مقامات کی طرف مڑ گیا،مسلمانوں نے ہندوستان میں فتوحات کے دوران اپنے ناموں سے منسوب مساجد اور و دیگر تعمیرات بنا رکھی تھیں شیو سینا نے انہی تاریخی مقامات کو ہندو ملکیت کا تصور دے کر ان کی مسماری کا نعرہ لگا یا،اس کام کیلئے اس جماعت کو ایک اور ملک گیر ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی ضرورت پڑ گئی تو دونوں جماعتوں نے ملکر مغل بادشاہ بابر کے نام سے منسوب بابری مسجد ڈھانے میں اہم کردار ادا کیا،بابری مسجد کے شہید کرنے کے بعد دونوں جماعتوں کو انتہا پسند ہندوؤں کو حمایت حاصل ہوگئی،چونکہ مسلم مخالف سوچ ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے اس لئے انکی شدت پسندانہ سیاست لسانیت کے بجائے مذہبی انتہا پسندی کیلئے زیادہ دیر پا و سود مند ثابت ہوگئی،شیو سینا نے ممبئی شہر میں اپنی ایسی تاک بٹھا رکھی ہے کہ فلم سٹار امیتابھ بچن جیسے چوٹی کے اداکار سے لیکر بڑے بڑے سیاستدان تک بال ٹھاکرے کے قدم چھو کر آشیرباد لینا اپنے لیے کامرانی کا زینہ سمجھتے ہیں، 2012 کو جب بال ٹھاکرے کا انتقال ہوا تو20لاکھ سے زائد لوگ اسکی آخری رسومات کی ادا ئیگی میں شامل ہوئے جس میں ایل کے ایڈوانی اور امیتابھ بچن سمیت ہزاروں فلمی اداکاراور سیاستدان شریک تھے، حالانکہ بال ٹھاکرے کی پوری سیاست لسانی نفرت اور مذہبی شدت پسندی سے لبریز تھی اسکی آخری رسومات میں نامور لوگوں کی شرکت سے تاثر دیا جارہا تھا کہ نفرت کی سیاست ریاست کی غیر اعلانیہ پالیسی ہے۔۔۔
علامہ خادم حسین رضوی کو تین سال قبل تک شاید ہی کوئی شخص جانتا تھا،حالانکہ تحریک لبیک پاکستان نام کی جماعت کی بنیاد انہوں نے 2015 میں رکھی تھی،کم عرصے میں علامہ خادم رضوی نے بڑی تیزی سے شہرت پائی،انہیں نواز شریف دور حکومت میں ختم نبوت کے مبینہ قانون سازی کے خلاف مشہور زمانہ دھرنے کے بعد شہرت ملی،2018کا دھرنا ن لیگ حکومت کیلئے بہت بڑا چیلنج بن گیا تھا،کئی دنوں تک دارلخلافہ عملاً محصور ہوگیا تھا،اپنے خطبات میں سپریم کورٹ کے ججز تک کو جارحانہ انداز میں للکارتے رہے،علامہ صاحب کے پیروکارایف سی اور پولیس کو اپنے ڈھنڈوں سے ہانکتے رہے اسکے باوجود حکومت نے انکے سامنے سر خم تسلیم کر لی،دیکھتے ہی دیکھتے ایک مذہبی شدت پسند جھتہ عام انتخابات میں پارلیمانی جماعت بن گئی،انکے نمائندے اسمبلیوں میں پہنچ گئے،ایک دو سالوں کے وقفے کے بعد علامہ رضوی صاحب ایک بار پھر میدان کار زار میں نمودار ہوگئے جب فرانس میں گستاخانہ خاکوں کا مسئلہ پیش آیا،اب کی بار انکا مطالبہ تھا کہ فرانس کے سفیر کو پاکستان بدر کرکے فرانس سے سفارتی تعلقات ختم کیئے جائیں،ن لیگ کی طرح تحریک انصاف کی حکومت کوان سے مذکرات کرنی پڑی، حالانکہ گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر ریاست پاکستان نے بڑا سخت رد عمل دیکھایا تھا،وزیر اعظم نے کھل کر گستاخانہ خاکوں پر تنقید کی تھی اسکے باوجود ریاستی اقدامات سے علامہ رضوی صاحب بلکل مطمئن نہ ہوئے انہوں نے اپنی طاقت حکومت کو دکھانی تھی انہوں نے دھرنے کی صورت میں دکھائی،لیکن علامہ صاحب کی زندگی نے انکے ساتھ وفا نہ کی انہیں اس جہاں فانی سے رخصت ہونا پڑا،انکی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی،انکے پیروکاروں اور بہی خواہوں کا دعوی ہے کہ جنازے میں 5لاکھ نفوس موجود تھے،اب زرا بال ٹھاکرے اور علامہ خادم حسین رضوی صاحب میں مماثلت دیکھیں،دونوں اپنے اپنے مذہب سے متعلق کٹر پن و شدت پسندی میں یکساں تھے،دونوں کا عروج کا پیمانا ایک جیسا ہے،دونوں اپنے اپنے پیروکاروں کیلئے مقدس ہستیاں بن گئیں،دونوں کی تیز رفتار ترقی بھی ایک جیسی ہے۔۔۔۔۔
پاکستان میں تحریک لبیک پاکستان کے علاوہ بھی جمعیت علما اسلام اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتیں موجود ہیں اسکے علاوہ دنیا کے کسی بھی کونے میں بسنے والے مسلمان کیلئے نبی پاک کی شان میں گستاخی ایک ناقابل قبول عمل ہے دنیا جہاں میں مسلمانوں نے احتجاج کیئے،کئی مسلم ممالک میں فرانس کے سفارت خانے بھی جلائے گئے،پاکستان میں تحریک لبیک کی طرح مذہبی جماعتوں نے اپنی تئیں فرانسی حکومت کے خلاف نفرت کا اظہار کیا لیکن کسی بھی مذہبی جماعت نے اپنی قوت بازو سے ریاست کو اپنی خارجہ پالیسی بدلنے کیلئے جارحانہ انداز نہیں اپنا یا،تحریک لبیک کے قائدین اور پیرو کار شائد اپنی زانت میں یہ سمجھ بیٹھے ہیں انکے علاوہ 22 کروڑ کی آبادی والے مسلم ملک میں بسنے والے مسلمان اور انکے اندر موجود درجنوں مذہبی جماعت عاشقان رسول کے پیرائے میں صحیح فٹ نہیں بیٹھ پارہے،شائد وہ خود کو راسخ العقیدہ اور باقیوں کو دوجے درجے کا مسلمان سمجھتے ہیں، پاکستان میں تحریک ختم نبوت کے نام سے ایک انجمن قائم ہے جس میں تمام طبقہ فکر کے علماء و غیر علماء موجود ہیں جب ٹی ایل پی وجود نہیں رکھتی تھی تب بھی ایسے معاملات پر موومنٹ چلائی جاتی رہی ہے۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں 70سالوں سے دیوبند طبقہ فکر پروان چڑھتا رہا،دیوبندی طبقہ اکثریتی ہونے کی وجہ سے بعض معاملات پر کلیدی حیثیت کا حامل سمجھا جاتا ہے،دیوبند کا اپنا ایک تاریخی پس منظر ہے،ہندوستان،پاکستان،افغانستان میں انکے ہزاراں مدارس اور فلاحی ادارے متحرک ہیں،عرب ممالک کے ساتھ انکے بہتر تعلقات ہیں،اسکے برعکس ان 70سالوں میں بریلوی طبقے کو کوئی خاص حیثیت حاصل نہیں تھی،بریلوی خود بہت سے گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں،ایک ہی نظریہ کے ہونے کے باوجود انکی آپس میں شدید اختلاف ہیں،مرحوم خادم حسین رضوی صاحب نے بریلوی طبقے کو یکجاہ کرکے اپنی حیثیت جتانے کیلئے تحریک لبیک پاکستان کے نام پرایک نئی جماعت تشکیل دینے کی ضرورت محسوس کی،دیگر بریلوی گروہوں سے اپنی جداگانہ حیثیت بنانے کیلئے انہیں ایک نیا Slogan درکار تھی،حرمت رسول پاک کا نعرہ ایک موثر ہتھیار انکے ہاتھ لگا جسے انہوں نے معاشرے کے نبض پر ہاتھ رکھ کر اپنا سیاسی منشور بناد یا،یہ ایک ایسا نعرہ ہے جسے کوئی مسلمان رد کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا،اس لیئے جیسے قافلہ بڑھتا گیا لوگ شامل ہوتے گئے اور ٹی ایل پی بن گئی،بال ٹھاکرے کے مرنے کے بعد انکے سیاسی امپائر اسکے بیٹے نے سنبھال لی ہے،علامہ صاحب کے بعد انکے بر خوردار منصب امارت کے حقدار ٹھہرے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں