پاکٹ اپوزیشن

تحریر: انورساجدی
پشاور میں پی ڈی ایم کا جو شوہوا وہ صرف شو تھا اس میں پاور نہیں تھا یا تو جے یو آئی نے صحیح تیاری نہیں کی تھی یا پشاور کے لوگ کرونا کے پروپیگنڈہ یا حکومتی رکاوٹوں کے باعث ڈر گئے تھے یہ بات تو طے ہے کہ اے این پی پی ڈی ایم کے جلسوں میں اس طرح ساتھ نہیں دے رہی جو اسے دینا چاہئے اس کی اصل وجہ تو معلوم نہیں لیکن بیک ڈور چینل سے جو رابطے ہیں انہوں نے آئندہ کی آس دلاکر اے این پی کو ڈانواں ڈول کردیا ہے پشاور میں اے این پی کی شرکت بھرپور نہیں تھی خود اسفندیار ولی بھی کسی بھی معاملہ میں حصہ نہیں لے رہے اس کی وجہ وہ صحت کی خرابی کو قرار دیتے ہیں لیکن لگتا ہے کہ ان کے بعض تحفظات بھی ہیں جو مولانا ہی جانتے ہیں۔
پشاور کے بعد اگلی باری ملتان کی ہے میرا ذاتی خیال ہے کہ ملتان کا جلسہ کافی بڑا ہوگا وہاں پر تین جماعتوں کی بھرپور موجودگی ہے اگرچہ اس جلسہ کی میزبان پیپلز پارٹی ہے لیکن وہاں پر مسلم لیگ ن اور مولانا صاحب قابل ذکر اسٹریٹ پاور رکھتے ہیں مدرسہ قاسم العلوم مولانا کا ہیڈ کوارٹرز ہے ان کے مدارس ساؤتھ پنجاب میں دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں ان مدارس میں زیر تعلیم نوجوان بڑی تعداد میں آکرجلسہ کو رونق بخشیں گے پیپلز پارٹی بھی اچھا خاصا اسٹریٹ پاور رکھتی ہے جبکہ ساؤتھ پنجاب میں مشرقی پنجاب کے مہاجرین کی بہت بڑی تعداد آباد ہے ملتان میں ہریانہ سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کافی تعداد میں آباد ہیں ان کی اکثریت مسلم لیگ ن کے ووٹراور حمایتی ہیں۔
ملتان کے بعد پی ڈی ایم کا سب سے بڑا پاور شو مینار پاکستان کے کھلے میدان میں ہوگایہاں پر جلسہ کرنا اب ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے کیونکہ علامہ خادم رضوی کے جنازہ میں 10 لاکھ لوگوں نے شرکت کی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی جنازہ کا سب سے بڑا اجتماع تھا اسی مقام پر 10 اپریل 1986 کو بینظیر بھٹو کا فقیدالمثال استقبال ہوا تھا اور 10 لاکھ سے زائد لوگوں نے اس میں حصہ لیا تھا تحریک انصاف نے بڑی جماعت بننے کے بعد یہاں پر اپنا پہلا جلسہ کیا تھا جس میں کم و بیش تین لاکھ لوگ شریک تھے پی ڈی ایم جتنا بھی بڑا جلسہ کرلے اس کے شرکاء کی تعداد 10 لاکھ تک نہیں پہنچ سکتی اگر اس میں تین لاکھ لوگ بھی شریک ہوجائیں تو یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ نئی صورتحال پر غوروفکر کریں کیونکہ علامہ رضوی کے جنازہ نے اجتماعات کا پیمانہ بدل دیا ہے میں شروع سے لکھ رہا ہوں کہ سیاسی جلسوں کے انعقاد سے حکومت کو رخصت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نہ پاکستان صحیح جمہوریت ریاست ہے اور نہ ہی موجودہ حکومت یا اس کی پشت پر جڑے عناصر کوئی جمہوری سوچ رکھتے ہیں لہٰذا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا عوامی رائے کا احترام ان ممالک میں کیا جاتا ہے جہاں عوام کا احترام کیا جاتا ہے یا رائے عامہ کو اہمیت دی جاتی ہے۔
اب جبکہ میاں نواز شریف اور شہباز کی والدہ متحرمہ شمیم اختر کا وصال ہوگیا ہے تو ن لیگ اور خاص طور پر شریف فیملی کافی وقت مصروف رہے گی کیونکہ ملک بھر سے تعزیت کیلئے آنے والے سیاسی رہنماؤں کا تانتا بندھا رہے گا البتہ اس سانحہ سے شریف فیملی اور مسلم لیگ ن کیلئے پنجاب کے لوگوں میں زیادہ ہمدردی پیداہوگی اس لئے اگر مریم بی بی لاہور کے جلسہ میں شرکت کریں تو لوگوں کی ایک بڑی تعداد انہیں دیکھنے آئے گی کیونکہ لاہور جلسہ کی کامیابی کا انحصار مریم بی بی کی شخصیت پر ہے ان کی شخصیت میں کافی کشش اور سحر موجود ہے نہ صرف ن لیگی بلکہ عام عوام میں بھی ان کی مقبولیت اچھی خاصی ہے چونکہ ن لیگ مینار پاکستان کے جلسہ کی میزبان ہوگی اس لئے جلسہ کی کامیابی کیلئے اسے بھرپور تیاری کرنی ہوگی اپنے پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کو پابند کرنا ہوگا کہ وہ ہر قیمت پر اس جلسہ میں شرکت کریں لاہور جلسہ کے موقع پر حکومت زیادہ رکاوٹ ڈالے گی موٹر ویز اور بڑی شاہراہیں بند کرے گی کرونا کے پھیلنے کا خوف پھیلائے گی تاکہ لوگوں کی شرکت کم سے کم ہو ایک وقت تھا کہ جب کرونا کی پہلی لہر کے دوران سندھ کے وزیراعلیٰ سخت لاک ڈاؤن نافذ کررہے تھے تو وزیراعظم اور اس کے وزراء انہیں سخت تنقید کا نشانہ بناتے تھے وزیراعظم روز کہتے تھے کہ اگر کاروبار بند ہوا تو لوگ کرونا سے زیادہ بھوک سے مر جائیں گے لیکن آج کل وزیراعظم لاک ڈاؤن اور دیگر سخت اقدامات پر زور دیتے ہیں ان میں یہ تبدیلی غالباً پی ڈی ایم کی تحریک کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے گوکہ جلسوں سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس کے باوجود وہ سخت گھبرائے ہوئے ہیں حکومت کی دوغلی پالیسی کا اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے علامہ خادم رضوی کے جنازے میں ایک ملین لوگوں کو شرکت کی اجازت دی اور پی ڈی ایم کے جلسہ کی مخالفت کررہی ہے اگر لاہور میں کرونا پھیلنا تھا تو وہ جنازہ کے اجتماع کی وجہ سے پھیلا ہوگاپی ڈی ایم کے ایک ڈیڑھ لاکھ لوگوں سے اس نے کیا پھیلنا ہے۔
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ لاہور جلسہ کے بعد پی دی ایم کو ”دمادم مست قلندر“ کہنا ہوگا اور حکومتی رکاوٹوں کو عبور کرکے اسلام آباد کی جانب مارچ کا اہتمام کرنا ہوگا سردار اختر مینگل نے پشاور جلسہ میں اسی کی تجویز دی ہے سنا ہے کہ حکومت نے پی ڈی ایم سے پہلے ممکنہ مارچ کو روکنے کیلئے کوششیں شروع کردی ہیں جونہی سندھ کا مارچ پنجاب میں داخل ہوگا تو پنجاب حکومت اور رینجرز اس پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں گے بے رحم شخصیت کے مالک شہزاد اکبر ایسا کھیل کھیلیں گے جو ان کے پسندیدہ وزیراعلیٰ قیوم خان نے بابڑہ کے مقام پر کھیلا تھا اسی طرح پشاور اور بلوچستان سے جانے والے پی ڈی ایم کے کارکنوں کے خلاف طاقت کا بے تحاشہ استعمال عمل میں آئے گا اگر حکومت نے مارچ کو شروع ہونے سے پہلے کچل دیا تو بظاہر یہ اس کی بڑی کامیابی ہوگی لیکن پھر حکومت کا سانحہ ارتحال زیادہ دیر کی بات نہیں ہوگا کیونکہ اوپر بیٹھے ہوئے لوگوں کو ایک جواز چاہئے اور وہ جواز سیاسی مارچ پر طاقت کا استعمال فراہم کرے گا یہ تو معلوم نہیں کہ آئندہ سال مارچ تک کیا ہوگا لیکن یہ طے ہے کہ اس دوران کئی واقعات سانحات اور حادثات ہونگے اگر حکومت بچ گئی تو وہ سینیٹ کے انتخابات کا وہ حال کرے گی جو اس نے حال ہی میں گلگت بلتستان کے انتخابات کا کیا تھا اسلام آباد اور چاروں صوبائی دارالحکومتوں میں منڈیاں لگیں گی زبردست ہارس ٹریڈنگ ہوگی لیکن بکنے والے گھوڑے نہیں گدھے ہونگے بعض پیسے پر بعض دھمکیوں اور بعض سہانے خوابوں کی وجہ بکیں گے اگر یہ حکومت مارچ تک قائم رہی تو یہی ٹرننگ پوائنٹ ہوگا پھر اسے اپنی مدت پوری کرنے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔
پی ڈی ایم کی پارٹیوں میں کئی تضادات دیکھنے میں آرہے ہیں ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات نہیں کریں گے لیکن خفیہ طور پر ان کے مذاکرات جاری ہیں ایسا لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کو اپنے زور بازو پر بھروسہ کم اور حکام بالا پر زیادہ ہے وہ منتظر ہیں کہ ”ادھر“ سے کوئی امید افزاء خبر آئے گی انہیں خبر نہیں کہ گلگت بلتستان کے انتخابات سے قبل بلاول کو ایسی ہی امید افزاء خبر کی نوید دی گئی تھی لیکن ہوا کیا دن دہاڑے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہاتھ کیا گیا اسے”لارے لپے“ پر لگاکر وہی نتائج حاصل کئے گئے جو پہلے سے طے تھے اگر پی ڈی ایم کی جماعتیں کسی نوید کی منتظر رہیں تو ان کا برا حشر ہوگا نہ صرف سینیٹ ان کے ہاتھوں سے نکل جائے گی بلکہ آئندہ انتخابات میں بھی ان کا وہی حشر ہوگا جو گلگت بلتستان میں ہوا اگر تحریک انصاف آئندہ انتخابات تک بہت ہی غیر مقبول ہوگئی تو ق لیگ یا اس جیسی جماعت بنانے میں کونسی دیر لگے گی بلوچستان میں بھی الیکشن سے چند روز پہلے باپ بنائی گئی اور اسے کامیابی دلائی گئی حکام بالا کوبھی اچھی طرح معلوم ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں ”اسٹیٹس کو“ کی نمائندہ ہیں جو بھی ہو انہوں نے صبر شکر کرکے پرانی تنخواہ پر گزارہ چلانا ہے انہیں اندازہ نہیں کہ اچانک جماعت اسلامی کو کیسے میدان میں اتارا گیا ہے تاکہ لوگ ”کیموفلاج“ ہوں کہ اصل تحریک تو جماعت اسلامی چلارہی ہے صحیح اپوزیشن بھی یہی ہے جماعت اسلامی اس وقت ”پاکٹ اپوزیشن“ کا کردار ادا کررہی ہے اسے بھی یقین دلایا گیا ہے کہ آنے والے انتخابات میں کچھ نہ کچھ اس کی جھولی میں بھی ڈال دیا جائے گا اور طویل عرصہ کی اس کی سیاسی تشنگی کا کچھ مداوا کردیا جائے گا چنانچہ پی ڈی ایم کی تحریک کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کی حکومت مخالف متوازی تحریک بھی چلتی رہے گی لیکن یہ تحریک ”غبارے میں ہوا“ کی مانند ہے کسی دن بھک سے اڑ جائے گی افسوس کہ جماعت اسلامی مصطفےٰ کمال کی پی ایس پی بن گئی ہے جسے امید دلائی گئی ہے کہ کراچی کا آئندہ میئر اسی کا ہوگاجماعت اسلامی کو بھی بلدیاتی انتخابات جیتنے کی اچھی خاصی خوش فہمی ہے۔
اگر پی ڈی ایم نے کچھ کرنا ہے تو آزادانہ کردار ادا کرے کیونکہ کٹھ پتلی بننے سے کبھی تبدیلی نہیں آئے گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں