ہونی انہونی

تحریر:انور ساجدی
اگر یہی مقتدرہ رہی اور عمران خان وزیراعظم رہے تو سعودی عرب کے ساتھ ہی پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرے گا یہ جو متحدہ عرب امارات بحرین اور سوڈان نے صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اس کے پیچھے سعودی عرب کا ہاتھ ہے کیونکہ مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے سعودی شاہی خاندان کو امریکہ اور اسرائیل کی بہت ضرورت ہے۔
کوئی دو دن ہوئے بلوم برگ اعلان کیا کہ بجلی سے چلنے والی امریکی کار ساز کمپنی ٹیسلا کے مالک ایلن مسک دنیا کا تیسرا بڑا دولتمند انسان بن گیا ہے ابھی بل گیٹ اور امازون کے مالک جیف بیروز ان سے آگے ہے لیکن وہ دن دور نہیں کہ ٹیسلا امریکہ کی سب سے بڑی کمپنی بن جائے گی ایپل کو بھی پیچھے چھوڑ جائیگی یعنی ٹیسلا کی ترقی کے ساتھ ہی ٹرانسپورٹ کا انحصار تیل پر ختم ہوجائے گا اور جب تیل کی کھپت کم ہوجائے گی تو اس کی قیمت گر جائے گی جیسے کے پچھلے سال ہوا تھا جب دنیا کو تیل کی حاجت نہیں رہے گی تو سعودی عرب کا کیا ہوگا دنیا میں سب سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب نے تیل کی فروخت کے بغیر اپنے مستقبل کی منصوبہ بند شروع کردی ہے وہ اپنی آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کررہا ہے اس مقصد کیلئے اسے امریکہ کی مہارت اور یہودی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اطلاعات کے مطابق ماہرین نے سعودی ولی عہد کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سیاحت کی طرف توجہ دیں اس مقصد کیلئے بحر احمر کے کنارے اور دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں نئے شہر بسائیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہونے اتوار کی شب نوم نامی جس مقام کا خفیہ دورہ کیا اسی جگہ ایک جدید ترین شہر بسانے کا پروگرام ہے اس مقصد کیلئے امریکی اور یہودی ماہرین نے کام شروع کردیا ہے ممکنہ طور پر نئے سعودی شہر یورپی شہروں کو بھی شرما دیں گے دنیا بھر کے جوئے باز ٹیکساس کے اڈے چھوڑ کر نئے سعودی شہروں کا رخ کریں گے یہاں جوئے خانوں کے ساتھ تفریح طبعکا ہر سامان مہیا ہوگا اگر یہ شہر بس گئے تو لوگ دنیا کے باقی عشرت کدوں کو چھوڑ کر ان شہروں میں دل لگی اور عیش و طرب تلاش کریں گے ان عشرت کدوں کو سجانے سنوارنے کا کام یہودی اور یورپ و امریکہ کے گورے کریں گے۔
لیکن یہ ابھی ایک خواب ہے اس کی تعبیر کے لئے نصف صدی کا عرصہ در کار ہے۔
جبکہ صدر ٹرمپ کے مطابق اگر ہم ساتھ چھوڑ دیں تو سعودی شاہی خاندان کا اقتدار صرف 15 دنوں کا مہمان ہے۔
سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا جو فیصلہ کروایا تھا وہ ایک ٹیسٹ کیس تھاتاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ عرب اقوام کیا ردعمل دیں گی لیکن کچھ نہیں ہوا نہ یو اے ای میں کچھ ہوا نہ بحرین میں کوئی ردعمل سامنے آیا اور نہ ہی باقی ممالک نے واقعہ کی سنگینی کا احساس و ادراک کیا۔
بقول اقبال
عرب عوام اس وقت ایک خواب گراں میں مبتلا ہیں وہ جلد جاگنے والے نہیں ہیں تمام ملوکی اور امومی حکمران وقت کے سپر پاور اور اس کو کنٹرول کرنے والے لاڈلے کے غلام بن چکے ہیں کرونا کی وجہ سے عرب بادشاہ سخت گھبرائے ہوئے ہیں کیونکہ ان کی معیشت ڈوب رہی ہے یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای اپنے ہاں کام کرنے والے لاکھوں مسلمان کارکنوں کو نکال رہے ہیں عرب امارات نے پاکستانیوں کو ویزا دینا بند کردیا ہے جبکہ سعودی عرب نے سب سے پہلے پاکستانیوں پر ہاتھ ڈال دیا ہے۔
سعودی عرب اور خلیج کے تمام ملوکی حکمرانوں کا یہ غیض و غضب اس وقت ختم ہوگا جب پاکستان بھی ان کی پیروی میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرے گا اک دم سے امریکہ کی امداد بحال ہوجائے گی یورپی یونین دست شفقت دراز کرے گا قرضوں کی ادائیگی میں چھوٹ مل جائے گی آئی ایم ایف ورلڈ بینک ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر ادارے مزید قرضے عنایت کردیں گے جس کے نتیجے میں پاکستان کی سفارتی اور معاشی تنہائی وقتی طور پرختم ہوجائے گی بدلے میں اسے بھی امریکہ اور یہودیوں کی دائمی غلامی میں جانا پڑے گا۔
پاکستانی مقتدرہ نے عوام کی رائے جاننے کیلئے کوششوں کا آغاز کردیا ہے کچھ عرصہ قبل ایک ”طوطا“ مبشر لقمان نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز دی تھی جبکہ مقتدرہ کا بڑا طوطا کامران خان بہاری نے اس کی وکالت شروع کردی ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی مرضی کا ایک لفظ بھی نہیں بولتے بلکہ انہیں جو اسکرپٹ دیا جاتا ہے وہ اسے رٹا لگا کر یاد کرتے ہیں اور من و عن پیش کردیتے ہیں بہت جلد دیگر ٹی وی اینکر اور میڈیا پرسن اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بحث تیز کردیں گے۔
دلائل پیش کئے جائیں گے کہ پاکستان کی براہ راست اسرائیل سے کوئی دشمنی نہیں ہے بلکہ یہ دشمنی عرب ممالک اور خاص طور پر فلسطین کی وجہ سے تھی اب جبکہ سعودی عرب یو اے ای بحرین مصر اور خود فلسطین اسرائیل کو تسلیم کرچکا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ پاکستان دشمنی برقرار رکھے یہ دلیل بھی دی جائے گی کہ پاکستان اپنا قومی مفاد دیکھے کیونکہ جتنا پاکستان نے عربوں کا ساتھ دیا ہے انہوں نے اتناکبھی پاکستان کا نہیں دیا لہٰذا وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنے آپ کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور اپنی معیشت کو ٹھیک کرنے کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی طرف پیش رفت کرے یہ دلائل اپنی جگہ لیکن پاکستان میں یہ پوٹیشل نہیں کہ وہ نئے مواقع سے فائدہ اٹھائے کیونکہ اس کے پاس ایسی اشیاء نہیں جن کے زیادہ فروخت سے وہ عالمی منڈیوں سے فائدہ اٹھائے چونکہ پاکستان کی جملہ پالیسیوں کی پہلی یا بنیادی اینٹ ٹیڑھی رکھی گئی تھی اس لئے اگر یہ دیوار آسمان تک جائے تو بھی ٹیڑھی ہی رہے گی۔
فارسی مقولے کے مطابق
تاثر یا می رود دیوارکج
کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ جو بھی پاکستانی حکمران اسرائیل کو تسلیم کرے عوام اس کا تکا بوٹی بنادیں گے لیکن اب غالباً ایسی صورتحال نہیں ہے مشرف کے وزیر خارجہ نے جب ترکی میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملاقات کی تھی تو اس کا کوئی خاص ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا تھا اگر کوئی ردعمل آیا تو وہ مذہبی جماعتوں کی طرف سے آنے کا امکان ہے لیکن علامہ خادم رضوی کی وفات یاقتل کے بعد اس کا بھی امکان بہت کم رہ گیا ہے ہمارے علماء عمومی طور پر سعودی عرب کے ساتھ جڑے رہتے ہیں اگر سعودی عرب صیہونی ریاست کو تسلیم کرنے کا غیر معمولی قدم اٹھائے تو پاکستانی حکمران اس کو جواز کے طور پر پیش کریں گے دو بڑی دینی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی حکومت مخالف مہم شروع کرسکتی ہیں لیکن ان کو بھی اندرکھاتہ رام کرنا سمجھانا بجھانا مشکل نہیں ہوگا جماعت اسلامی آج کل گرجتی بہت ہے لیکن برستی کم ہے جبکہ جے یو آئی کا سیاسی کردار دینی کردار سے بہت زیادہ ہے یہ لوگ زبانی کلامی گولہ باری کریں گے ایک آدھا احتجاج بھی کریں گے لیکن عوام کو ساتھ لیکر کوئی بڑی تحریک نہیں چلائیں گی بہرحال پاکستان کے جو بھی حالات ہوں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد سعودی شاہی خاندان کیلئے مشکلات میں ضرور اضافہ ہوگا کیونکہ شاہی خاندان شدید مشکلات کا شکار ہے اندر اقتدار کی جنگ تیزی سے جاری ہے مخالفین کو ولی عہد محمد کا تختہ الٹنے کیلئے ایک ٹھوس بہانہ چاہئے یمن اور شام کی جنگ اور ایران کے ساتھ کشیدگی نے سعودی شاہی خاندان کو کمزور کردیا ہے ایران کی مخالفت کا یہ موقع کبھی ہاتھ سے جانے نہیں دے گا بلکہ وہ اسرائیل کی مخالفت کو لیکر مشرق وسطیٰ میں اپنا اثرورسوخ مزید بڑھائے گا وہ مصر کے اخوان فلسطین کی حماس یمن کی حوثی ملیشیا اور لبنان کی حزب اللہ کو لیکر اودھم مچائے گا وہ سعودی عرب کی شیعہ آبادی کو بھی بغاوت پر اکسائے گا اس طرح مشرق وسطیٰ میں غیر معمولی حالات پیدا ہوجائیں گے جس کے اثرات براہ راست سعودی عرب متحدہ عرب امارات اور بحرین پر پڑیں گے۔
امریکہ اسرائیل کو لیکر اتنا سنجیدہ ہے کہ اس نے سوڈان کے بشیر عمر کا تختہ الٹوادیا اگر پاکستانی حکمران سعودی عرب کا ساتھ نہ دیں تو ان کا حشر بھی بھٹو بینظیر جیسا ہوگا۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ آئندہ چند مہینوں کے دوران مسلم دنیا کے کئی حکمرانوں کو جان کے شدید خطرات لاحق ہونگے یہ بات مذکورہ حکمران خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں سعودی شاہی خاندان کی حفاظت پہلے سی آئی اے کرتی تھی آئندہ یہ ذمہ داری موساد انجام دے گی یعنی خطہ حجار کے حکمرانوں کی جان صہیونی بوتل میں بند ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں