حکومت دوہرے دباﺅ میں

تحریر: راحت ملک
بلاشہ کرونا کی وباء پھر سے پھیلنے لگی ہے23فروری 2020ءکے روز پاکستان کے تفتان بارڈر پر آن دھمکنے والی یہ وباءجس طرح ملک میں داخل ہوئی اس پر مختلف قیاس آرائیاں جاری ہیں عجلت پسندی ،نااہلی،غفلت اور بعض مخصوص مذہبی وابستگی رکھنے والے معاونین کو بھی کرونا کو پاکستان داخل کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔بہر طور جب مارچ میں کرونا پاکستان میں زور پکڑرہا تھا تو جناب عمران خان اسے نزلہ قرار دے رہے تھے۔یہ الگ بات ہے کہ ان کے فرمان کا نزلہ عوام پر گرا یا حکومتی فراست وبصیرت پر۔۔۔البتہ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سو سال قبل پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد ہندوستان میں انفلوائنز کی بھیانک وباءدر آئی تھی جس سے ہزاروں افراد متاثر ہوئے بے شمار موت کے منہ میں چلے گئے تھے اور اب ایک بار پھر کرونا کوڈ19 دنیا بھرمیں خطرناک وباء کی صورت پھیل رہا ہے ہلاکتیں بڑھ رہی ہیں اورخطرات کا گراف بھی بلند ہورہا ہے۔مارچ2020 میں کرونا کے آغاز پر سیاسی رہنماﺅں اہل الرایے افراد مصنفین اور تجزئیہ کاروں نے پر زور استد لال کے ساتھ حکومت سے ملک بھر میں موثر لاک ڈاﺅن کر نے کے مطالبات کئے تھے یہ ناچیز بھی اس تجویز کا حامی تھا بلکہ میرا استدلال تھا کہ حکومت ہر مہربان ماں کی طرح ریاست کے ان تمام شہریوں کی بلا امتیاز و تحقیق مکمل کفالت کے لئے تمام تر وسائل وقف کردے۔احساس پروگرام یا کسی بھی دیگر نام پر پہلے مستحق افراد کے اندراج اور پھر چھان پھٹک اور اس کے بعد 12ہزار روپے کی مالی امداد ایک سنگین مذاق کے علاوہ کچھ نہیں۔۔وباء کی مشکلات کے عرصہ میں ہر اس شہری کو مالی مدد مہیا کی جائے جو اس کی استدعا کرے۔میں نے تمام بینکوں۔ان کے اے ٹی ایمز اور موبائل کمپنیوں کے زیر اہتمام چلنے والے ترسیل زر کے نظام کو نادرا کے نظام سے منسلک کر کے ہر خاندان کو پچاس ہزار روپے فی الفور دینے کی تجویز دی تھی۔اس مقصد کے لئے شناختی کارڈ کو بنیاد بنایا جاسکتا تھا۔کیونکہ ہرشخص کے قومی شناختی کارڈ کے نمبر میں اس کے خاندان کا نمبر بھی درج ہے لہذا کسی بھی خاندان کا کوئی ایک فرد متذکرہ ذرائع سے مالی مدد حاصل کر کے مکمل لاک ڈاﺅن کے ایام اطمینان سے گھر میں بسر کرسکتا تھا۔مستحق افراد کے لئے خاندان کو اکائی بنایا جاتا تو ہر خاندان کو مالی مدد مہیا ہوپاتی۔جو خاندان نے مالی مدد وصول کرلیتا اس کے خاندان کے نمبر پر امداد جاری ہونے کے بعد مذکورہ خاندان کے کسی دیگر افراد کا امداد حاصل کرنا ناممکن ہوسکتا تھا۔وغیرہ وغیرہ۔۔
تاہم محترم جناب عمران خان غربت اور کمزور معاشی افراد کے نام پر مکمل لاک ڈاﺅن کی مسلسل مخالفت کرتے رہے سندھ میں لاک ڈاﺅن کے بعد جب پنجاب اور کے پی کے کی حکومتوں نے لاک ڈاﺅن کا فیصلہ کیا تو جناب وزیراعظم نے اس فیصلے کی توثیق کرنے کی بجائے ” اسے زبردستی کرایا گیا اقدام ” قرار دے کر لاک ڈاﺅن پالیسی پر تنقید کی تھی۔
دنیا کے دیگر جن دیگر ممالک نے بھی مکمل لاک ڈاﺅن سے گریز کیا تھا وہاں ہلے بھی اور اب بھی کرونا کی تباہیاں زیادی ہیں مگر وفاقی مجلس غوغا ھاے کے اراکین نے اس عمل کو عالمی سطح پر جناب عمران خان کی بصیرت مند پالیسی کی تائید کا لقب دیا تھا۔
جبکہ صورتحال یہ ہے رہی کہ تب جن ممالک نے اپنے اپنے ہاں کرونا وباءسے متاثرہ علاقوں میں سخت لاک ڈاﺅن کیا وہاں کرونا قابو میں آگیا چین اٹلی کوریا اور مشرقی بعید کے دیگر ممالک نے سخت یعنی موثر لاک ڈاﺅن کیا تھا چنانچہ اب جبکہ کرونا کی دوسری لہر کا شور برپا ہے اس سے وہی ممالک پھر زیادہ تیزی سے متاثر ہورہے ہیں جنہوں نے مارچ میں سخت یا مکمل لاک ڈا?ن سے گریز کیا تھا شاید پاکستان کی صورتحال بھی ثانی الذکر ممالک جیسی ہے تاہم ہمارے مسائل اور بحران کی نوعیت محض کرونا وباءنہیں بلکہ یہ سیاسی وباءسے بھی گہری پیوستگی رکھتی ہے وہ حکومت جو کرونا کو محض نزلہ قرار دے چکی ہے اب زیادہ سنجیدگی مگر خوفزدگی کے عالم میں کرونا کے پھیلاﺅ کی بات کررہی ہے تو کیا واقعی پاکستان میں حالات زیادہ سنگین ہیں۔؟
سال رواں کی دوسری سہ ماہی میں پھیلنے والے کرونا کے متعلق شعبہ صحت کے ماہرین کی نجی اور غیر تحریری رائے یہ رہی ہے کہ پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں کرونا کی وبا ءبہت شدید تھی کم وبیش 40فیصد دیہی آبادی کرونا میں مبتلا ہوئی بالخصوص محنت کش جوان افراد لیکن انہیں معلوم بھی نہیں ہوا کہ وہ کرونا کے مریض ہیں کیونکہ ان کے ٹیسٹ ہوئے نا انہوں نے کسی معالج سے رابطہ کیا۔بخار کھانسی کی صورت میں روایتی ٹوٹکے استعمال کئے اور صحت یاب ہوگے کیونکہ غربت افلاس کے ہاتھوں حفظان صحت سے عاری سطح پر زندگی بتاتے ہوئے ان کے اجسام میں قدرتی طور پر بیماریوں اور وباءسے لڑنے کی بھی مزاحمتی قوت شہروں میں خوشحال آسودہ حال زندگی بسر کرنے والے نرم مزاج افراد کے مقابلے میں بہت متحرک اور مضبوط تھی جس نے کرونا میں مبتلا ہونے پر مزاحمت کی ۔عام خیال ہے کہ ایک بار کرونا سے صحتیاب ہونے والے شخص میں کرونا کے خلاف مزاحمتی نظام مستحکم ہوجاتا ہے اسی پس منظر میں صحت یاب افراد کے خون کے سفید ذرات (WBC)مریضوں کو لگائے گئے جس سے ان کا مزاحمتی نظام موثر ہوا اور وہ بھی وباءکا مقابلہ کر کے صحت یاب ہوئے۔اگریہ قیاس آرائی درست اور طبی سائنسی معیار سے ہم آہنگ ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ مجوزہ نئی لہر کے خلاف ملک کی دیہی علاقوں کی کم وبیش40فیصد آبادی قدرتی طور پر مزاحمتی نظام کی وجہ سے اب اس وباءمیں دوبارہ مبتلا ہونے سے بچ سکتی ہے۔لیکن ایک خیال یہ بھی ہے کہ وائرس مختلف اوقات میں حملہ آور ہوتے ہوئے اپنی نوعیت یاکیفیت بدل لیتا ہے بدلی ہوئی شناختی و ساختیاتی صورت کی بنا پر وہ پیلے صحت یاب ہونے مریض پر بھی یکساں طاقت سے اثر انداز ہوتا ہے خیر یہ الگ مباحثہ ہے میں صحت یاب مریضوں سے (WBC)لے کر مریضوں کو لگانے کے عمل کو اہمیت دوں گا۔اور یہ قیاس کرنا چاہتا ہوں کہ پسماندہ معیار زندگی حفظان صحت سے عاری حالات اور مرض میں مبتلا ہونے کے بعد صحت یاب ہونے جانے والے افراد کے معاملات ملحوظ رکھیں تو یہ قیاس قرین حقیقت ہوسکتا ہے کہ بھیانک وائرس کرونا پاکستان میں دوسری لہر کے دوران بھی زیادہ بھیانک ثابت نہیں ہوگا یا کم از کم پہلے جیسا ہی خطرناک ہوگا۔
دریں حالات یہ ممکن نہیں کہ مذکورہ استدلال کے پہلوﺅںسے حکومتی حلقے نابلد ہیں۔جناب ڈاکٹر فیصل نے آج منگل کی شب ایک ٹی وی چینل پر کہا ہے یہ کہنا
” ابھی قبل ازوقت ہے کہ نئی کرونا لہر پاکستان میں پہلے کی نسبت زیادہ خطرناک ہوگی”
چنانچہ اس بحث میں میرا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ حالات کے خطرناک ہونے کی مبہم صورتحال میں وہ کونسی وجہ ہے جو حکومت کو کرونا وباءکے شدید اور بھیانک پھیلاﺅکے اظہار یا واویلا پر مجبور کررہی ہے ؟اس سوال کا جواب واضح طور پر حکومتی وزراءاور معاونین کے بیانات سے مل جاتا ہے جو پی ڈی ایم کو کروناکے امکانی خدشات کی بنیاد پر اپنی احتجاجی تحریک جلسے اور جلوس ملتوی کردینے کے مطالبات اور دلائل پیش کر رھے ہیں
ماضی میں کرونا کے متعلق وزیراعظم کے بچگانہ رویے سے جہاں عوام میں کرونا کے متعلق سنجیدہ فکری منفی طور پر متاثر ہوئی۔عوام کی بڑی تعداد نے کرونا کو وبائ سمجھنے سے انکا ر کیا بلکہ اسے سمجھنے کو ایمان کے بھی منافی قرار دیا۔اس رجحان میں مذہبی جنونیت کی روایتی سوچ کے اثرات بھی موجود رھےتھے تو حکومت کے سطحی رویے نے اثرات ڈالیے تھے مذکورہ طفلانہ سرکاری رویے نے حکومت کی ساکھ کو متاثر بھی کیا چنانچہ اب جبکہ حکومت کرونا( بلکہ پی ڈی ایم) سے خائف ہے اور عوام سے ایس او پیز پر سنجیدہ عمل کی ہدایت کررہی ہے تو لوگ حکومت کی بات پر دھیان دینے سے گریزاں ہیں۔دیگر اسباب کے ساتھ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں جنم لینے والی بے پناہ مہنگائی بے روز گاری غربت افلاس اور اشیائ ضروریہ سے محرومی نے عوام میں کرونا کے خلاف اقدامات کے خلاف گہری مزاحمت پیدا کی ہے۔
حزب اختلاف کی بڑھتی احتجاجی تحریک روکنے سیاسی مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے سے حکومت کے انکار نے سیاسی درجہ حرارت میں شدید ابھار پیدا کیا ہے۔حکومت پی ڈی ایم کے جلسوں پربراہ راست کرونا پھیلانے کا الزام عائد کررہی ہے۔ حالانکہ گزشتہ ہفتے تک حکومتی جماعت نے سیاسی اجتماعات منعقد کئے جی بی کے انتخابات اور انتخابی مہم انہی ایام میں انجام پذیر ہوئی جب کرونا کے پھیلنے کی اطلاعات ملکی و عالمی ذرائع پر ارزاں ہورہی تھیں حکومت نے جی بی انتخابات میں ہر ذریعے سے اپنی جیت ممکن بنا نے کےبعد اپنے جلسے منسوخ کئے وزیراعظم اس اعلان سے ٹھیک ایک روز قبل سیاسی اجتماعات سے خطاب کر چکے تھے جہاں انہوں نے فیس ماسک پہننے کا تکلف بھی روا نہیں رکھا تھا۔
امریکہ جہاں کرونا سے زیادہ تباہی ہورہی ہے 20 نومبر کو صدارتی انتخابات مکمل ہوئے انتخابی مہم میں لاکھوں افراد جمع ہوئے پاکستان میں محترم مولانا خادم رضوی کی نماز جنازہ میں لاکھوں افراد کاجم غفیر لاہور میں دیکھا گیا حکومت نے اس اجتماع کو روکنے کے لئے کسی قسم کا اقدام کیا نہ ہی کوئی وارننگ جاری کی نہ حکومت کی رٹ چیلنج کرنے والوں سے آھنی ہاتھ سے نبٹنے کا روائتی بیان داغا۔ لیکن پشاور کے احتجاجی سیاسی جلسے سے قبل وزیراعظم نے ضروری سمجھا کہ وہ دھمکی آمیز تنبیہ جاری فرمائیں کہ ” پشاور جلسہ سے کرونا پھیلا تو اس کی ذمہ دار پی ڈی ایم ہوگی۔”
یہ برملا بات ہے کہ کرونا وباء اپنی جگہ لیکن ملک میں متنازعہ انتخابات کے نتیجے میں مسلط شدہ
نااہل حکومت کی ناقص کارکردگی بھی ایک خطرناک سیاسی وباءکی صورت ملک کے شعبے میں موجود ہے۔کرونا تو افراد کو انفرادی طور پر متاثر کرتا ہے کوئی ایک شخص کرونا سے ہلاک ہوتا یا دوسروں تک ادے پھیلا کر زندگی اجیرن کرتاہے جبکہ معاشی انحطاط روزگار کا خاتمہ عام آدمی کی قوت خرید سے باہر نکلی مہنگائی اشیاءضروریہ کی قلت و جی ڈی پی میں ترقی معکوس پورے ملک کی زندگی کو اجتماعی طور پر اجیرن بناتی ہے دریں حالات عوام کے جان ومال صحت زندگی اور معاشی بر بادی سے بچاﺅکے لئے کرونا اور عمرانا۔۔ دونوں سے فوری نجات بلکل معقول مطالبہ اور وقتی ضرورت ہے چنانچہ یہ مطالبہ جائز ہوگا کہ پی ڈی ایم کے جلسوں سے کرونا پھیلاﺅکے خدشے کو ختم کرنے کے لئے حکومت زیادہ سنجیدگی اور خیر خواہی کا عملی مظاہرہ کرے اقتدار سے چمٹے رہنے کی بجائے مستعفی ہوجائے تو احتجاجی سیاست سمیت کرونا کا خدشہ ختم ہو جائیگا ملک کی معیشت سیاست۔ سفارت کاری کی تباہی اور جی ڈی پی کا انحطاط بھی رک جائے گا۔
پی ڈی ایم اور حکومت کے درمیان جو تنازعات موجود ہیں ان میں عوامی جمہوری رائے چرانے کا عمل بہت بنیادی سوال ہے جسے حل کئے بغیر مسائل کا خاتمہ ممکن نہیں۔المیہ ہے کہ جمہوریت کی مدعی ایک حکومت اپوزیشن کے ان مطالبات پر سنجیدہ توجہ دینے یا بہ الفاظ دیگر آزادنہ منصفانہ انتخابات یقینی بنانے سے فاصلہ اختیار کررہی ہے۔الزامات در الزامات کے ماحول میں بڑھتی کشیدگی خطرناک ہوسکتی ہے دریں حالات اگر فریقین۔

الف۔۔اتفاق کر لیں کہ یکم جنوری 2021 تک حکومتیں تحلیل کر کے
1۔ وسیع البنیاد سیاسی حکومتیں قائم کی جائیگی جو آزادانہ منصفانہ انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے غیر سیاسی محکموں کی مداخلت روکنے کے لئے موثر میکنزم تشکیل دیں گی

2۔اور یکم مارچ کو تمام اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی بعد ازاں نگران حکومتیں جون 2012 کے پہلے ہفتے تک انتخابات کراکے اقتدار و اختیار یقینی طور نو منتخب حکومتوں کو منتقل کرینگی جو شراکت اقتدار کے رائج نسخے سے مکمل مبرا ہو گا۔
3۔ وسیع البنیاد حکومت تمام ریاستی محکموں کو آئین کی پاسداری وبالادستی تسلیم کرنے پر قائل مجبور یا رضا مند کرینگی۔
4۔ الیکشن کیشن کو مکمل خود مختار ادارہ بنایا جائے گا جو انتخابات کے بعد تمام ابتخابی عذر داریوں کو چھ ماہ میں منطقی انجام تک پہنچانے کا پابند ہوگا۔الیکشن کمیشن کسی بھی سطح کے سرکاری اہلکار. ادارے کی سیاسی عمل وانتخابات میں دخل اندازی۔یا اثر انداز ہونے پر ملازمت سے برخاست کر کے قانون کے مطابق سزا دینے کا مجاز ہوگا۔
5۔ جون2021میں نئے عام انتخابات ہونگے جس کے بعد سینیٹ کے نصف ارکان کا انتخاب عمل میں آئے گا تو شاید پی ڈی ایم کے لئے احتجاجی تحریک ختم کرنا ممکن ہوسکے بصورت دیگر پی ڈی ایم تحریک سے بچنے کے لئے کرونا کا سہارا لینے کی حکومتی پالیسی اس کے لئے ناقابل برداشت سماجی بوجھ بن سکتی ہے کیونکہ مکمل لاک کے بغیر حکومت پی ڈی ایم کے جلسے نہیں روک سکے گی۔جلسے روکنے کے لئے کرونا کے نام پر مکمل لاک ڈاﺅن ناگزیر ہوگا۔
کیا پی ڈی ایم کے لئے یہ ایسا عمل نہیں ہوگا جو عوام کے وسیع حلقوں کو حکومت کے مقابل صف آرا کر دے گا۔؟
پی ڈی ایم جلسے ملتوی نہیں کرے گی اور احتجاج کو زیادہ پرو زور بنائے گی یہ اس کی تحریک کی کامیابی کے لئے لازمی ہے جبکہ حکومت کے انتظامی اقدامات تصادم پیدا کرینگے جو حالات میں مزید سنگینی لایے گا۔ اور کرونا کے نام پر مکمل لاک ڈاﺅن ہی پی ڈی ایم کے جلسوں سے کچھ تحفظ سے دے سکا تو ادکے ساتھ سماج کی وسیع پرتوں تاجر محنت کش کاریگر دکاندار دیہاڑی دار غریب اور نچلے متوسط طبقے کو حکومت کے مقابل صف آر کردے گا ہر دو صورتوں میں پی ڈی ایم کے اغراض کی تکمیل ممکن ہے اور حکومت عقل کے ناخن سے محروم ہونے کا گہرا کرتے ہوئے ” میں نا مانوں کی ” کا راگ الاپ کر ہر روز اپنے زوال اور سیاسی خودکشی کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ سیاسی عدم بصیرت ایسے ہی حادثات کا باعث ہوا کرتی ہے اور اب بھی اس کا امکان ہلے سے زیادہ اور واضع طور پر موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں