ایک دلکش منظر نامہ

تحریر: انور ساجدی
عجیب اتفاق ہے کہ دو سال پہلے مشرقی بلوچستان کو ساؤتھ اور نارتھ زون میں تقسیم کیا گیا اب مغربی بلوچستان کو جو کہ ایران کے زیر قبضہ ہے چار حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے دونوں مقاصد یکساں ہیں تاکہ بلوچوں کے وطن کے حصیبخرے کرکے ان کی مرکزیت کو ختم کیا جائے کچھ بھی کریں اس حقیقت کو ختم نہیں کیا جاسکتا کہ کراچی سے لیکر بندر عباس تک جو ساحل ہے وہ بلوچ عوام کا بنیادی مسکن ان کے وطن کا اٹوٹ انگ اور ناقابل تقسیم جز ہے بے شک وقت کی طاقتیں عارضی طور پر کامیابی حاصل کرلیں لیکن یہ معاملہ کبھی ختم نہیں ہوگا اور ہمیشہ باقی رہے گا ایران تو ایک مطلق العنان ریاست ہے جہاں جمہوریت نہیں ہے آزادی اظہار مفقود ہے عوام کو بنیادی حقوق حاصل نہیں ہیں اور اس کے آئین میں واضح طور پر درج ہے کہ تمام عقائد پر اہل تشیع کے مسلک کو فوقیت حاصل رہے گی کسی بھی کلیدی عہدے پر کوئی اقلیتی فرد متعین نہیں ہوسکتا واجہ حسین بُرکی کتاب پڑھنے سے پہلے مجھے اس نکتہ پر یقین نہیں آرہا تھا لیکن ایرانی آئین کے مطالعہ کے بعد یہ حقیقت اچھی طرح آشکار ہوگئی اس کے برعکس پاکستان کا آئین ایک وفاقی جمہوری اور پارلیمانی ہیئت رکھتا ہے گوکہ یہاں پر بھی اقلیتی مسلک سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا لیکن دیگر تمام عہدوں پر ان کی تقرری پر کوئی پابندی نہیں ہے آئین میں بنیادی حقوق میں وضع کردیئے گئے ہیں اور ریاست میں رہنے والے تمام آبادی کو جینے کا حق دیدیا گیا ہے بدقسمتی سے وفاق کی ایک اکائی بلوچستان کو یہ حق حاصل نہیں اگرچہ یہاں پر کرینوں پر پھانسی دینے کی روایت نہیں ہے لیکن زندگی کی جو حرمت ہونی چاہئے وہ عملاً و دیعت نہیں کی گئی ہے جو لوگ اپنے بنیادی حقوق طلب کریں تو انہیں ریاست دشمن قرار دے کر ان سے جینے کا حق چھین لیا جاتا ہے اول تو ایک ریاست کے جو شہری ہیں انہیں یکساں حقوق اور مواقع ملنے چاہئیں لیکن یہ قراردینا کہ ایک حصے کے عوام کو دوسرے پر فضیلت حاصل ہے ایک بے انتہاامتیازی رویہ اور افسوسناک روایت ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے اگر ریاست اپنی اولاد میں تفریق کرے اور بعض کو جائز حق نہ دے تو اسے کیا نام دیا جائے اہل دانش طے کرسکتے ہیں۔
خلیج اور مشرق وسطیٰ کے جو حالات ہیں وہ اسرائیل کی وجہ سے دلچسپ بنتے جارہے ہیں عرب ممالک ایک ایک کرکے اسرائیل کی گود میں گرتے جارہے ہیں کسی کو یہ فکر نہیں کہ فلسطین کی سرزمین اور ان کے عوام کا کیا بنے گا اسرائیل نے اوسلو معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے نہ صرف مشرقی یروشلم کی ساری زمین ہڑپ کرلی ہے بلکہ وہ بالآخرفلسطین کی ساری زمین کو گریٹر اسرائیل کا حصہ بناکر فلسطینی عوام کو ایک بار پھر مہاجر بننے پر مجبور کررہا ہے حالانکہ سابق امریکی صدر کلنٹن نے دیوار گریہ کے سامنے ایک شاندار خطاب میں کہا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین دو حقیقتیں ہیں دونوں کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے اس کے بعد یہ خیال پیدا ہوا تھا کہ دو ریاستی فارمولے پر عمل کے بعد اس علاقے میں امن قائم ہوجائے گا جبکہ یروشلم مشترکہ دارالحکومت ہوگا لیکن کلنٹن کے بعد جو امریکی صدر آئے انہوں نے سخت جانبداری سے کام لیا جبکہ یاسرعرفات کی موت کے بعد فلسطین میں قیادت کا بحران بھی پیدا ہوگیا فلسطین کے صدر ابوضامن عرف محمود عباس بس واجبیسے لیڈر ہیں جو یاسرعرفات کی طرح دنیا کیلئے کوئی سحر نہیں رکھتے ان کی شخصیت کی وجہ سے عرب ممالک نے فلسطین کی امداد بند کردی ہے جس کی وجہ سے ایک بہت بڑا انسانی مسئلہ پیدا ہوا ہے فلسطینی بچے بھوک اور فاقوں سے بلبلا رہے ہیں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے سارا انفرااسٹرکچر تباہ ہوگیا ہے روزگار کے ذرائع ناپید ہیں اس حقیقت سے صرف نظر کرکے عرب ملک یکے بعد دیگرے صہیونی ریاست کو تسلیم کررہے ہیں اگرچہ اسرائیل کو بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہے لیکن لاکھوں فلسطینی بھی اسی طرح انسان ہیں ان کے بچوں کا بھی انہی طرح مستقبل ہے جو یہودی بچوں کا ہے عرب ممالک کو چاہئے تھا کہ وہ پہلے فلسطینی عوام کو زندہ رہنے کا حق دلا دیتے اس کے بعد ہی اسرائیل کو تسلیم کرلیتے لیکن نہیں انہیں جلدی ہے غالباً وہ ایران کے خار میں ایسا کررہے ہیں جو زبانی کلامی فلسطین کی حمایت کررہا ہے اور ظاہری طور پر اسرائیل کا سب سے بڑا دشمن ہے لیکن درحقیقت ایسا نہیں ہے اسرائیل اور امریکہ کے بعد یا اسلامی ممالک کی حد تک سب سے زیادہ یہودی آبادی ایران میں ہے چند سال قبل ایک ایرانی نژاد یہودی اسرائیل کا صدر بھی بن گیا تھا اسرائیل اور ایران کا اختلاف لبنان اور حزب اللہ پر ہے کیونکہ حزب اللہ ایران کی مدد سے کبھی کبھار اسرائیل پر جنوبی بیروت سے گولہ باری کرتا ہے جو یہودی ریاست کو قابل قبول نہیں ہے ایران ہی کے تعاون سے لبنان کی شیعہ آبادی میں کافی اضافہ ہوا ہے جبکہ بیروت کی ایک تہائی آبادی حسن نصر اللہ کے زیر اثرآگئی ہے سعودی عرب اسرائیل سے تعلقات اس لئے قائم کرناچاہتا ہے تاکہ اسرائیل اپنے خطرناک اسلحہ کے ذریعے ایران کو سر اٹھانے کے قابل نہ چھوڑے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ ایران بہت بڑا ملک ہے اسرائیل کیلئے ممکن نہیں کہ وہ اسے صفحہ ہستی سے مٹا دے بلکہ جوابی کارروائی میں خود اسرائیل ختم ہوسکتا ہے جس کا رقبہ بلوچستان کے ایک سب ڈویژن سے بھی چھوٹا ہے ایران کو یہ بالادستی بھی حاصل ہے کہ اس کے پاس فدائین کی بڑی تعداد موجود ہے جو حسن بن صبا کے فدائین کی طرح کسی بھی ملک کو تہہ و بالا کرسکتے ہیں۔
ایران نے کافی سال پہلے ہمسایہ سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرلی تھی جو اتنی ترقی یافتہ ہوچکی ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل دونوں کو نشانہ بناسکتی ہے دنیا کے ایک بڑے حصے میں یورینیم کی افزدوگی کیسے ہوئی اور میزائل ٹیکنالوجی کیسے اسمگل ہوئی اگر ڈاکٹر قدیر خان امریکہ کے ہاتھ لگتا تو سب کچھ پتہ چل جاتا لیکن جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹر قدیر خان کو ٹی وی پر بٹھاکر معافی منگوالی اور پھر زیر حراست رکھ کر امریکہ کو رسائی نہیں دی چند روز قبل امریکہ سٹلائٹ نے نشاندہی کی تھی کہ سعودی عرب کے ایک دور افتادہ مقام پر ایک یورینیم پلانٹ کام کررہا ہے یعنی سعودی عرب ایٹمی اسلحہ بنانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ ایران کا مقابلہ کرسکے لیکن ایران تو جیسے تیسے کرکے یہ ہتھیار بنا چکا ہے اور اس کا پروگرام سعودی عرب سے آگے ہے ایک مسئلہ یہ ہے کہ سعودی عرب ان دنوں پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور ان کے سرپرستوں سے کیوں ناراض ہے آیااس کی وجہ ترکی سے تعلقات ہیں یا یمن کی جنگ میں حصہ نہ لینا یا اس سے بھی کوئی بڑی وجہ ہے جہاں تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کا تعلق ہے تو سعودی عرب کیلئے یہ اتنی بڑی وجہ نہیں ہے ضرور کوئی اور وجہ ہوگی جو پوشیدہ ہے یہ کہنا کہ سعودی ولی عہد ارطغول ڈرامہ دکھانے کی وجہ سے ناراض ہے بعید از قیاس ہے ویسے وزیراعظم کے واضح اعلان کے باجود کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا دونوں ممالک کے درمیان روابط موجود ہیں طرح طرح کی افواہیں بھی سننے کو مل رہی ہیں وزیراعظم نے چند روز قبل افغانستان کا جو دورہ کیا مخالفین نے کہا کہ وہ وہاں ایک اعلیٰ اسرائیلی عہدیدار سے ملاقات کرنے گئے تھے جو پہلے سے وہاں موجود تھے حالانکہ یہ حقیقت نہیں ہے بات چیت بیک ڈور چینل سے چلی رہی ہے اور زیادہ امکان یہ ہے کہ یہ قطر میں چل رہی ہے جس کے اسرائیل سے قریبی تعلقات ہیں ایک عجیب بات یہ ہے کہ چین عرب ممالک اور اسرائیل کے تعلقات پر مکمل طور پر خاموش ہے جبکہ ماضی میں وہ فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے چین چونکہ ایک منافع خور ساہوکار ہے آج کل وہ صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول میں فرانس کی طرح مدد دے رہا ہے چین کی موجودہ قیادت ہر معاملہ میں برد باری اور صبر سے کام لے رہی ہے سی پیک کا معاملہ دیکھیں اس نے مزید سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچ لیا ہے لیکن یہ بات صیغہ راز میں رکھی ہے وہ بعض تحفظات دور ہونے تک گرمجوشیکا مظاہرہ نہیں کرے گا جہاں تک گوادر پورٹ کی فعالیت کا پروپیگنڈہ ہے یہ جھوٹ پر مبنی ہے صرف پورٹ کا نام زندہ رکھنے کیلئے بعض محدود سرگرمیاں ہورہی ہیں چین کے مطمئن ہونے تک یہ رپورٹ بلکہ سی پیک کا پورا منصوبہ فعال نہیں ہوسکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں