ناخوشگوارخبریں

تحریر: انور سا جدی
پاکستان کے اندر جو خبریں ہیں وہ اس قابل نہیں کہ ان پر بحث کی جائے البتہ مولانا نے لاڑکانہ میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کیا ہے جو قابل ذکر ہے کیونکہ بالائی سندھ میں جے یو آئی کی طاقت میں کافی اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے اس حلقہ میں جے یو آئی کے تعاون سے جی ڈی اے نے پیپلزپارٹی کوضمنی الیکشن میں شکست دی تھی اس فتح پر مولانا سومرو نے جشن منایا تھا میراخیال ہے کہ آئندہ انتخابات میں جے یو آئی زیر ینہ سندھ میں پیپلزپارٹی کوسخت ٹکر دے گی اگراس کے امیدوار کامیاب نہ بھی ہوئے تو پیپلزپارٹی کے اچھے خاصے ووٹ خراب کریں گے اگرچہ آج پی پی اور جے یو آئی،پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہیں لیکن آئندہ انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل اور حریف کاکردارادا کریں گے جہاں تک سندھ کا تعلق ہے توچند وقفوں کے سوا یہ پارٹی1972ء سے اقتدار میں ہے اس نے وڈیروں،سیدوں،میروں اور جاگیرداروں کواکٹھا کرکے ایک اسٹیٹس کوبرقراررکھا ہے غریب آدمی محنت کشوں اور ہاریوں کی زندگی ویسی کی ویسی ہے جو50سال پہلے تھی اس ”اسٹیٹس کو“ کو توڑنے کیلئے آج تک کوئی موثرسیاسی قوت پیدا نہیں ہوئی جس دن ہوگی پیپلزپارٹی زوال کی طرف جائیگی پارٹی کی حکومت کاموجودہ دورانیہ بھی 12سال پر محیط ہے سندھ تو اپنی جگہ اس نے لیاری اور ملیر سمیت کراچی کی ان آبادیوں پر بھی کوئی توجہ نہیں دی جو50سال سے اسکوووٹ دے رہے ہیں۔بلکہ سندھ حکومت نے ہزاروں قدیم باشندوں کوملیر اور دیہی علاقوں سے بے دخل کرکے ملک ریاض کے حوالے کردیئے اس سے اس کی کارکردگی اور عوام کے ساتھ ہمدردی کااندازہ لگایاجاسکتا ہے۔
گزشتہ ہفتہ کی اہم خبر تھی کہ یو اے ای نے پاکستان سمیت 11غریب ممالک کے باشندوں کے داخلے پر پابندی عائد کردی ہے اس کی وجہ اسرائیل سے تعلقات کرونا سے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات ہیں۔یو اے ای کو موقع ملا ہے کہ وہ پاکستان کی کاہل اور غیرذمہ دار ورک فورس سے جان چھڑائے سابقہ ادوار کی بات اور تھی1971ء میں یو اے ای کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اسکی بھرپور مدد کی تھی اور ہزاروں پاکستانی تعمیر وترقی میں حصہ لینے کیلئے بھیجے تھے لیکن اب وقت بدل چکا ہے یو اے ای مڈل ایسٹ کا ایک بہت ہی ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے جہاں بھارتی ماہرین اور سرمایہ کار اس کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں جن کے بغیر اس ملک کی ترقی کو برقراررکھنا مشکل ہے چنانچہ وہ پاکستان سے تعلقات میں خرابی کے بعد بھارت بنگلہ دیش،نیپال اوردیگر ممالک سے ماہرین اور ورک فورس بلائیگا۔یو اے ای کے لیڈروں کو معلوم ہے کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بعد پاکستان کے مذہبی طبقہ کے جذبات کیا ہیں لہٰذا وہ ایک خوف میں مبتلا ہے اگرمرحوم علامہ خادم رضوی کے خطابات سنے جائیں تو انہوں نے عوام کو عرب شیوخ کے بارے میں بہت بھڑکایا ہے اور ان کی پاکستان آمد اور سرائیکی علاقے میں حرکات وسکنات کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اگردیکھاجائے تو حالیہ برسوں میں علامہ صاحب نے پاکستانی مسلمانوں کے جذبات کو جس طرح بھٹکایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی وہ اپنے ہرخطبہ میں جہاد پر زور دیتے تھے اور بتاتے تھے کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا ہے وہ مسلمان حکمرانوں کیخلاف بغاوت پر بھی زوردیتے تھے ان کی بات سننے والے وہ غریب لوگ تھے جو معاشی اور سماجی ناہمواریوں کاشکار تھے اس لئے انہوں نے تحریک لبیک میں جائے پناہ ڈھونڈی 2017ء میں فیض آباد دھرنے کی کامیابی کے بعد انہوں نے حال ہی میں ایک اور دھرنا دے کر حکومت سے جو تحریری معاہدہ کیا وہ ان کی ایک اورکامیابی تھی چونکہ یہ دنیا کے ایک عظیم پاور فرانس کے بارے میں تھا لہٰذا یہ معاہدہ گلے پڑگیا لیکن یہ بات یادرکھنے کی ہے اگرعلامہ صاحب کے جانشین صحیح ثابت نہ ہوئے تو اس جماعت سے جان چھڑانا بہت مشکل ہوگا کیونکہ علامہ اپنے لاکھوں پیروکار چھوڑ کر گئے ہیں جو ایک اشارے پر کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
ایک اور خبر یہ تھی کہ نیوزی لینڈ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم سے کہا ہے کہ اگر اس نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا تو اسے واپس بھیج دیاجائے گا۔وجہ اس کی کرکٹ بورڈ اور کھلاڑیوں کی انتہائی غیرذمہ داری تھی ٹیم کا پاکستان میں ٹیسٹ کیا گیا تھا جو نیوزی لینڈ جاکر جعلی ثابت ہوگیا دوبارہ ٹیسٹ کے نتیجے میں پتہ چلا کہ آدھی ٹیم کرونا میں مبتلا ہے نیوزی لینڈ کے حکام نے سختی سے حکم دیا کہ کمروں سے باہر نہیں جانا ہے پریکٹس نہیں کرنی ہے لیکن جب حکام نے ہوٹل پر چھاپہ مارا تو گبرو جوان لابی میں تانک جھانک کرتے ہوئے پائے گئے انہوں نے ماسک بھی نہیں پہن رکھے تھے یہ رویہ اس وقت پاکستان کے اکثر لوگوں کا ہے حکمرانوں سے لیکر عام لوگوں تک سب اپنی اپنی جگہ غیرذمہ داری کا مظاہرہ کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پاکستان کی کوئی ساکھ باقی نہ رہی دوست ساتھ چھوڑگئے،ہمدرد الگ ہوگئے اوردنیا کا دوسرا بڑا اسلامی ملک عالمی برادری میں یکہ وتنہا رہ گیا ہے۔
چند روز قبل ایک آڈیو سننے کوملی جب کچھ لوگ یو اے ای سے سعودی عرب جارہے تھے ایک شخص کے مطابق سعودی امیگریشن حکام نے کہا کہ انڈیا،بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگرممالک کے لوگ ایک طرف ہوجائیں اور پاکستانی الگ ہوجائیں پھر انہوں نے کہاکہ پاکستانیوں میں جو بلوچ ہیں وہ بھی الگ ہوجائیں پاکستانیوں کو کئی گھنٹے تک بٹھایا گیا اور داخل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ دیگر ممالک کے لوگوں کو فوری طور پر جانے دیا گیا اگرسعودی عرب کا رویہ اتنا بدل گیا ہے تو دوسروں کا کیا عالم ہوگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی جو خارجہ پالیسی ہے وہ شدید ناکامی سے دوچار ہے عمران خان نے آکر ایسی غلطیاں کیں پوری ریاست کی وقعت اور وقار کو ڈبودیا اگریہی حالات رہے تو مشکلات میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا اگرسعودی عرب نے لاکھوں پاکستانیوں کو نکال دیا تو زرمبادلہ کہاں سے آئیگا بدقسمتی سے وزیرخارجہ داخلی محاذ پرمصروف ہیں اور کپاس کی سنڈیوں کو مارنے کی تراکیب دریافت کررہے ہیں جبکہ خارجہ محاذ ملتان سے بہت دور ہے ماضی میں ایس ایم ظفر اور منظور قادر جیسے غیر موثر وزیرخارجہ تھے تو اس وقت ریاست کی اپنی ساکھ بڑی تھی پاکستان اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا زیادہ رقبہ اور جغرافیہ کی وجہ سے عالمی برادری اس کو اہمیت دیتی تھی لیکن اب یہ وہ زمانہ نہیں ہے یہ ٹیکنالوجی اور معاشی ترقی کا دور ہے پاکستان ٹیکنالوجی میں بہت پیچھے ہے معیشت مانگے تانگے کی ہے اخراجات بہت زیادہ اورآمدنی بہت کم ہے وزیراعظم نے صحیح سوچا ہے کہ سندھ کے جزائر پرقبضہ کرکے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا انتظام کیا جائے لیکن وہ بھول گئے کہ یہ جزائر آئینی طور پر سندھ اور بلوچستان کی ملکیت ہیں انہوں نے دریائے راوی پر جو عظیم منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے وہ قابل عمل نہیں ہے اول تو راوی دریا اکثرسوکھا رہتا ہے بارشوں کے سیزن میں اس میں سیلاب آتا ہے اگر دریا کے بہاؤ کو روکا گیا تو لاہور شہر زیرآب آسکتا ہے اور یہ اسکی حالت کراچی ڈیفنس سے بھی بری ہوسکتی ہے یہ سہانے منصوبے محض خواب ہیں اور دل بہلانے کے اچھے خیال ہیں کیونکہ جب تک ان پر کام کا آغاز ہو یہ حکومت اپنی مدت پوری کرکے جاچکی ہوگی آئندہ آنے والی کوئی بھی حکومت ان پر عملدرآمد نہیں کرے گی البتہ بنڈل آئی لینڈ پروجیکٹ میں ملک ریاض شریک ہیں وہ ضرور اس پر کچھ نہ کچھ کریں گے کیونکہ ملک ریاض راولپنڈی،لاہور،مری کی پہاڑیاں ہڑپ کرنے کے بعد سندھ پہنچے ہیں اور کشتیاں جلاکر پہنچے ہیں وہ ملیر سے دادو تک ہزاروں ایکڑ ہڑپ کرچکے جس کے بعد ان کی نظرکراچی کے قریب واقع جزائر پر ہے۔یہ جزائر ملک ریاض کی اربوں ڈالر دولت میں مزید اضافہ کاباعث بن سکتے ہیں لیکن ملک ریاض عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کے پاس وقت تھوڑا ہے لیکن عمر کے آخری حصے میں حرص وہوس میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ملک صاحب آج کل اسی مرض کے شکار ہیں۔ایک دلچسپ خبر گزشتہ ہفتہ کی تھی جب وزیراعظم عمران خان نے تربت شہر کو اپنی آمد سے جلوہ بخشا تھا دورے کے بعد چیف سیکریٹری نے کمشنر کو جو خط لکھا ہے وہ ایک ادبی وانتظامی شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے انہوں نے سرزنش کی ہے کہ کھانے کے موقع پر کولڈڈرنک کا انتظام اچھا نہ تھا کراکری بھی کسی قابل نہ تھی۔
معلوم نہیں کہ چیف سیکریٹری نے یہ نشاندہی وزیراعظم کے کہنے پر کیا ہے یا اس نے اپنے طور پر کی ہے اگر وزیراعظم نے ایسا کہا ہے تو اس سے ان کی سادگی کے پردے چاک ہوجاتے ہیں اور ریاست مدینہ کی قلعی کھل جاتی ہے اگرچیف سیکریٹری نے اپنے طور پر کمشنر صاحب کو نشانہ بنایا ہے تو یہ ان کا آپس کا معاملہ ہے۔
چیف سیکریٹری خاطر جمع رکھیں آئندہ چند سالوں میں جب تربت بہت بڑا شہر بن جائے گا یہ سدرن ہیڈکوارٹرہوگا یہاں پر پی سی ہوٹل کے شاندار انتظامات ہونگے تو ایسے مسائل پیدا نہیں ہونگے اس وقت تربت ایک دورافتادہ اورپسماندہ شہر ہے جبکہ ٓنے والے سالوں میں یہ جہلم،کھاریاں اورگجرات کی طرح وسیع وعریض شاہراؤں،خوبصورت بلے وارڈز، عالیشان عمارتوں اور پارکوں کا شہر ہوگا نہ صرف یہ بلکہ 100کلومیٹردور گوادر ایک اور عظیم شہر ہوگا جس پر پرمٹ کے بغیر عام لوگوں کاداخلہ ممنوع ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں