ہاتھی میرے ساتھی

تحریر: انورساجدی
کاون ایک ہاتھی کا نام ہے جس نے پاکستان میں 35سال تک ایک اذیت ناک زندگی گزاری اس کی بیماری زبوں حالی اور نامساعد حالات نہ صرف پاکستانی عدالتوں تک پہنچے بلکہ عالمی برادری نے بھی اس کا نوٹس لیا جانوروں کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے کوشش کی کہ کاون کو دوبارہ اپنے مسکن کمبوڈیا بھیجا جائے مسئلہ یہ تھا کہ کاون کئی ہزار کلومیٹر کاسفر کیسے کرے گا عالمی تنظیموں کی کاوشوں سے روس ایک خصوصی طیارہ دینے پرآمادہ ہوگیا جس میں سوار کرکے کاون کوکمبوڈیا روانہ کردیا گیا جہاں اس کا علاج معالجہ کیاجائے گا جس کے بعد اسے مشرق بعید کے گھنے کالے جنگلوں میں چھوڑدیاجائے گاہوسکتا ہے کہ قدرتی ماحول میں اس کی بقیہ زندگی اچھی گزرے۔
پاکستان میں جانوروں اور انسانوں سے یکساں سلوک ہورہا ہے یہاں پر نہ تو انسانوں کے بنیادی حقوق کی حرمت کا خیال رکھاجاتا ہے اور نہ ہی بے زبان جانوروں پررحم کیاجاتا ہے اسلام آبادجو ریاست کادارالحکومت ہے جہاں انسانوں کے رہنے کیلئے نسبتاً دیگرعلاقوں کی نسبت بہتر حالات ہیں وہاں کے چڑیا گھرمرغدار میں جانوروں کی بہت بری حالت ہے یہاں جو شیر تھے انہیں پنجروں سے باہر نکالنے کیلئے غیرتربیت یافتہ عملے نے آگ لگادی جس سے شیر جل کر مرگئے باقی شہروں کا بھی یہی حال ہوگا لیکن کراچی کے گاندھی ذولوجیکل گارڈن میں تمام حیوانوں کی قابل رحم حالت ہے اسی طرح سفاری پارک میں جو جانور ہیں وہ لاغر بیماراور نقاہت کا شکار ہیں ملک کے جنگلوں اورصحراؤں میں جو چرندپرند ہیں انہیں بے دردی کے ساتھ مارا جارہا ہے حال ہی میں ایک نودولتیہ ٹی وی اینکر نے سینکڑوں تیتر مارے اور انہیں اپنی گاڑی کے بانٹ پر رکھا تاکہ معلوم ہوسکے یہ اینکر بڑے شکاری دولت مند اور بڑا آدمی ہے اس اینکر کے اثرورسوخ کایہ عالم ہے کہ اس نے ایک ہفتہ میں دومرتبہ وزیراعظم عمران خان کا انٹرویو کیا برسوں پہلے بھٹو نے عرب شیوخ کی امداد حاصل کرنے کیلئے انہیں تلوروں کے قتل عالم کیلئے چولستان بلایا تھا ان شیوخ نے نہ صرف ہر طرح کا شکار کیا بلکہ انکو اتنا مزہ آیا کہ انہوں نے اس صحرا میں محلات تعمیر کئے اور ایئرپورٹ بھی بنائے شیوخ نے جو قتل عام کیا تلوروں سمیت موسمی پرندوں نے اپنا رخ تبدیل کردیا وہ پہلے پاکستان آتے تھے اب راجھستان جارہے ہیں چترال میں بہت ہی قیمتی مارخور اونچی چوٹیوں میں رہتے ہیں وفاقی سرکار نے انکے شکار کیلئے عالمی لائسنس جاری کئے جس کی وجہ سے یہ قیمتی جانور کی نسل کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے چلتن میں جومارخور ہیں معلوم نہیں کہ ان کا کیاحال ہے ہنگول نیشنل پارک میں جو پہاڑی بکرے ہیں ان کی آبادی مسلسل کم ہورہی ہے بلوچستان کے بیشتر علاقوں سے ہرن کی نسل ختم ہوگئی ہے حتیٰ کہ بھیڑیئے سیہہ اور ہپتار ”ہیانا“ بھی ناپید ہوگئے ہیں سرائیکی علاقے میں چودھریوں، جاگیرداروں،ڈبہ پیروں اور نودولتیہ اشرافیہ نے ہرنوں کی نایاب نسل تباہ کردی ہے۔یہ لوگ جو حال اپنے ملک کا کررہے ہیں اس سے براحال چرند پرند جانوروں اور حیوانوں کاکررہے ہیں۔
کاون ہاتھی کے کمبوڈیا جانے کے بعد اسلام آباد میں صرف دوجانور باقی رہ گئے ایک سور اور دوسرا بندر،سور اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ شہری آبادی کے اندر دندناتے پھررہے ہیں انہیں کئی بار وزیروں کے انکیلو میں دیکھا گیا ہے چونکہ مرگلہ پہاڑ کے جنگلوں میں پہلے جو چیتے رہتے تھے انکو مار کر ختم کردیا گیا ہے اس لئے سوروں کی آبادی میں اضافہ ہورہا ہے سور اپنی فطرت میں ایک عجیب وغریب جانور ہے اس کی گردن نہیں ہوتی اوریہ مڑ نہیں سکتا اس لئے سیدھا وار کرتا ہے کہنے کی حد تک یہ غیرت مند جانور نہیں ہے لیکن نیشنل جیوگرافک کی فلموں میں یہ واحد جانور ہے جو شیروں کے ساتھ بہادری کے ساتھ لڑتا ہے معلوم نہیں کہ اسلام آباد کی اشرافیہ پرسوروں کا اثر ہوگیا ہے یا سوروں پراشرافیہ کا اثر پڑگیا ہے انکی بعض خصلتیں ملتی جلتی ہیں
جہاں تک بندروں کا تعلق ہے تو مرگلہ پہاڑ ان سے بھرا پڑا ہے مرغزارسے پیرسوہاوا جاتے ہوئے راستے میں ہزاروں بندر کھیل کود میں مصروف دکھائی دیتے ہیں لوگ انہیں خوراک بھی پھینکتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مفت خور ہوگئے ہیں اور سارا دن انتظار کرتے ہیں کہ لوگ آئیں اور انہیں کھانے کی اشیاء دیدیں۔ اسلام آباد کی اشرافیہ کا بھی یہی حال ہے کہ ملک کی ساری آمدنی اسلام آباد میں جمع ہوتی ہے اور وہیں سے تقسیم ہوتی ہے اشرافیہ اس آمدنی کا بڑاحصہ چٹ کرجاتی ہے اس لئے عام آدمی کیلئے کچھ بچتا نہیں ہے25کروڑ آبادی میں سے20کروڑ لوگ نان شبیہ کو محتاج ہیں ساری دولت صرف ایک فیصد اشرافیہ کے پاس ہے باقی چار کروڑ لوگ وہ ہیں جنہیں دو وقت کی روٹی میسر ہے۔آج تک کسی حد حکومت کو یہ احساس نہیں ہوا کہ 25کروڑ لوگوں کیلئے مناسب انتظامات کئے جائیں آبادی میں اتنی تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے کہ دو دہائی بعد آبادی دوگنی ہوجائے گی آمدنی کے جو محدود ذرائع ہیں ان میں اضافہ ممکن نہیں ہے یعنی20سال بعد غربت کی شرح دوگنی ہوجائے گی کروڑوں بچے اسکولوں کی بجائے گلیوں میں ہونگے جو بڑے ہوکر ڈاکے ڈالیں گے،منشیات فروش اور کریمنل بن جائیں گے یاخود منشیات کی لت میں مبتلا ہوجائیں گے انہیں روزگار میسر نہیں ہوگا حکومت کی کوئی پلاننگ نہیں ہے صرف سطحی اقدامات اور اعلانات کئے جارہے ہیں بڑوں کاخیال ہے کہ کراچی اور لاہور کے مسائل ناقابل حل ہیں اس لئے بنڈل آئی لینڈ اور دریائے راوی کے کنارے نئے شہر بسائے جائیں وہ نہیں جانتے کہ ان شہروں کا سیوریج کہاں جائیگا بارش کا نکاس کیسے ہوگا انکو گیس اور بجلی کی فراہمی کو کیسے یقینی بنایا جائیگا اگر حکمران کراچی جیسے شہر کو نہ سنبھال سکے جو دودھ دینے والی گائے ہے وہ نئے شہروں کو کیسے سنبھال پائیں گے یہ شہر بناکر وہ مستقبل کے حکمرانوں کیلئے مسائل چھوڑ کر جائیں گے کیونکہ مجموعی طور پر پاکستان کا موجودہ نظام اور اسکے تحت چلنے والی ہرچیز فیل ہوچکی ہے اگر حالات اسی طرح رہے تو کوئی بعید نہیں کہ پاکستان ایک دن صومالیہ بن جائے اسکی ایک جھلک روپے کی گرتی ہوئی قدر سے لگایا جاسکتا ہے اس وقت پاکستانی کرنسی ایشیاء کی سب سے کمزور کرنسی ہے کیا نیپال،کیا بھوٹان،کیا بنگلہ دیش اور کیا افغانستان ہر حکومت کی کرنسی روپیہ سے بہتر ہے پاکستانی حکمران ساری دنیا میں اپنی ساکھ کھوچکے ہیں جو رہی سہی کسر تھی وہ موجودہ حکومت پوری کررہی ہے اس نے سارے دوست ممالک اور ہمسایہ ناراض کردیئے ہیں
ایک واحد دوست ترکی رہ گیا ہے جو آئندہ چل کر ضرور ناراض ہوگا کیونکہ اس کی شہریت کے قانون کے بعد ہزاروں پاکستانیوں نے ترکی پر ہلہ بول دیا ہے
لوگ بڑی تعداد میں ڈھائی لاکھ ڈالر مالیت کی جائیداد خرید کر شہریت حاصل کررہے ہیں سوشل میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ابتک کئی ہزار لوگ ترکی کی شہریت کیلئے درخواست دے چکے ہیں پاکستانیوں کاپسندیدہ مقام استنبول شہر ہے اس کا یورپی حصہ پاکستانوں کا مرکز بنتا جارہا ہے ان کو خوش فہمی ہے کہ ایک دن ترکی یورپی یونین کاحصہ بن جائیگا اور وہ خودبخود یورپی شہری بن جائیں گے لیکن خدشہ یہ ہے کہ اگراستنبول کی80لاکھ کی آبادی میں پانچ لاکھ پاکستانیوں کا اضافہ ہوگیا تو وہ دنیا کے اس خوبصورت ترین شہر کا باجا بجادیں گے کیونکہ پاکستانیوں میں جوخاص اوصاف ہیں ان کی بدولت وہ جلد اپنااصلی رنگ دکھائیں گے جس کے بعد ترکی مجبور ہوجائیگا کہ ان کی جائیدادیں ضبط کرکے ان کی شہریت ختم کردے۔ترکی وہ ملک ہے کہ اس کی پالیسیوں میں کوئی تسلسل نہیں ہے آج طیب اردگان ہے تو پالیسی مختلف ہے کل کوئی اور آگیا تو ساری پالیسیاں تبدیل ہوجائیں گی جیسے کہ یو اے ای نے پانچ سالوں میں اپنی کئی پالیسیاں تبدیل کی ہیں ترکی کوئی جمہوری یا یورپی ملک نہیں ہے جہاں حکمرانوں کے آنے جانے سے پالیسیوں میں فرق نہ آئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں