نقش قدم
تحریر: انورساجدی
اس وقت حاضر اسٹاک میں جو سیاسی قیادت دستیاب ہے پاکستانی عوام کو انہی کے ساتھ گزارہ اور انہی پر انحصار کرنا پڑے گا ”اسٹیٹس کو“ توڑنے کا عمرانی تجربہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے ایک ایسا ضدی کپتان جو مدمقابل رہنماؤں کو کرکٹ ٹیم کے بچے سمجھتا ہے اور انہیں حقیر اور کمتر جان کر اپنی مرضی کے مطابق چلانا چاہتا ہے لیکن یہ کوئی کرکٹ ٹیم کا میچ نہیں ہے یہاں پر سوال ریاست کو چلانے اور عوام کے مسائل حل کرنے کا ہے گزشتہ ڈھائی برس میں پیش رفت ہونے کی بجائے ریاست ریورس گیئر میں چل رہی ہے لیکن کپتان ہار ماننے کو تیار نہیں ان کے غیر منتخب مشیروں کا لاؤ لشکر کوئی بات کوئی غلطی اور اپنی بدترین کارکردگی ماننے کو تیار نہیں ہے 2018 کو اقتدار سنبھالنے کے بعد کپتان نے کہا تھا کہ 2020 معاشی پرواز کا سال ہوگا اس سال نوکریاں ملنا شروع ہوجائیں گی بے گھر لوگوں کیلئے 20 لاکھ گھروں کی تعمیر شروع ہوجائے گی لیکن ہوا یہ کہ اسٹیل مل کے ساڑھے چار ہزار محنت کشوں کو بہ یک جنبش قلم فارغ کردیا گیا اس سے پہلے ریڈیو پاکستان کے سینکڑوں ملازمین کو برطرف کیا گیا تھا مجموعی طور پر ڈھائی سالوں میں لاکھوں لوگ روزگار سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں دستیاب اسٹاک میں اپوزیشن کے جو رہنما ہیں ان میں سب سے تجربہ کار لیڈر مولانا فضل الرحمن ہیں انہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہے 2002 میں جنرل مشرف سے لیکر نواز شریف کی آخری حکومت تک وہ اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ہیں لیکن گزشتہ انتخابات میں ان کی جماعت کو پشتونخواء میں بدترین شکست سے دوچار کیا گیا اگرچہ مولانا اسمبلیوں میں جانے اور حلف اٹھانے کے خلاف تھے لیکن زرداری نے سندھ حکومت کے لالچ میں انہیں مجبور کیا کہ وہ 2018 کے ”جھرلو“ کے نتائج تسلیم کرلیں چار و ناچار مولانا کو ایسا کرنا پڑا لیکن اس کا نتیجہ تباہ کن نکلا اگر مولانا کی بات مان لی جاتی تو ابتک وسط مدتی انتخابات ہوچکے ہوتے اور تحریک انصاف اقتدار سے باہر ہوتی پی ڈی ایم بننے سے قبل مولانا مسلسل زور لگاتے رہے کہ تحریک چلانے سے کہیں بہتر ہے کہ اسمبلیوں سے اجتماعی استعفے دیئے جائیں لیکن زرداری نے ایک بار پھر انہیں مجبور کیا کہ پہلے تحریک چلائی جائے اور آخری آپشن کے طور پر استعفے دیئے جائیں زرداری کا پلان اس طرح ہے کہ سندھ حکومت بھی بچائی جائے اور عمران خان کو بھی رخصت کیا جائے لیکن یہ حکمت عملی زیادہ کارگر نہیں ہے لاہور جلسہ کے بعد جب اپوزیشن اسلام آباد کی جانب مارچ کرے گی تو پتہ چلے گا کہ حکام بالا کا فیصلہ کیا ہے اگر حکومت نے پنجاب سے گزرتے ہوئے مارچ پر طاقت کا استعمال کیا تو صورتحال بہت دلچسپ ہوجائے گی کیونکہ اس کے نتیجے میں جگہ جگہ دھرنے ہونگے اور شہر شہر احتجاج ہوگا اگر حکومت نے مارچ میں رکاوٹ نہیں ڈالی تو اسلام آباد میں اچھا خاصا شغل مشغلہ لگ جائے گا چونکہ معیشت نہیں چل رہی ہے کاروبار ٹھپ ہے اس لئے لوگوں کی بلا سے انہیں دارالحکومت میں موج میلہ کا موقع ملے گا یہ موقع تو 2014 کے دھرنے کے وقت بھی ملا تھا لیکن تحریک انصاف کے دھرنے میں رنگینی زیادہ تھی جبکہ پی ڈی ایم کے دھرنے میں مولانا کے شاگردوں کے ڈنڈوں کے سوا اور کچھ نہیں ہوگا۔
ملتان جلسہ مستقبل کی ہلکی سی جھلک تھا کیونکہ بزدار سرکار نے کپتان کی براہ راست ہدایت راستے بند کئے کنٹینر لگائے شہر آنے والی گزرگاہوں پر ٹریکٹر ٹرالیاں کھڑی کردیں جلسہ گاہ بند کردیا لیکن اس کے باوجود کارکن پرعزم تھے اور انہوں نے پاور شو کرکے دکھایا جنوری میں شروع ہونے والے مارچ کا نتیجہ بھی یہی نکلے گا فیض آباد انٹر چینج یا ڈی چوک پر دھرنے کے دوران مذاکرات ہونگے لیکن یہ معلوم نہیں کہ کس سے ہونگے؟واحد مطالبہ ہوگا کہ حکومت استعفیٰ دے جب اس پر بات چیت ہوگی تو کہا جائے گا کہ وزیراعظم استعفیٰ دے کر گھر جائے ظاہر ہے کہ عمران خان یہ مطالبات تو تسلیم کرنے والے نہیں اس لئے مطالبہ بھی سلیکٹرز سے ہوگا اور بات چیت بھی انہی سے ہوگی اگر دارالحکومت 10 دن تک بند رہے تو حکام بالا یہ صورتحال برداشت نہیں کرپائیں گے اور مذاکرات کیلئے ایک ٹیم تشکیل دیں گے مولانا کے گزشتہ دھرنے میں اعلیٰ حکام نے چوہدری پرویز الٰہی کو درمیان میں ڈالا تھا اور مولانا کو یقین دہانی کروائی تھی کہ 3 ماہ کے عرصے میں ہم اس حکومت کو چلتا کردیں گے لیکن دھرنے کے بعد وعدہ خلافی ہوئی اور حکام بالا نے کام نکلنے کے بعد حکومت کی حمایت اور طرفداری جاری رکھی لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوگا زخم خوردہ مولانا کام پکا ہونے کے بعد ہی دھرنا ختم کریں گے وہ ایسی تیاری کرکے جائیں گے کہ عمران خان کو ڈیزل کے نرخ اچھی طرح یاد ہوجائیں 2018 کے انتخابی مہم اور کامیابی کے بعد انہوں نے مولانا کا بہت تمسخر اڑایا تھا اور یہ نہیں سوچا تھا کہ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا اور اسے بدلنے میں دیر نہیں لگتی عمران خان نے اپوزیشن کے ہر لیڈر کی تضحیک کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے وہ بلاول کی گئی دفعہ نقلیں اتار چکے ہیں اور ان کے لئے غیر مہذب صیغے استعمال کرچکے ہیں مریم نواز شریف کو نانی اور نہ جانے کیا کیا کہہ چکے ہیں اب جبکہ بدلہ اتارا جارہا ہے تو وہ سیخ پا ہیں حالانکہ جیسا کروگے ویسا بھرو گے بہت قدیم معقولہ ہے کپتان نے ایک منتخب حکومت کو گرانے کیلئے جو غیر جمہوری حربے استعمال کئے آج کی اپوزیشن بالکل ویسا ہی کررہی ہے بلکہ ان کے نقش قدم پر چل رہی ہے جب انہوں نے لاہور سے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا تھا تو ان سے کہا گیا تھا کہ اگر یہ ریت چل نکلی کہ چند ہزار لوگ اکٹھے ہوکر ایک منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوشش کریں تو حکومتیں کبھی مستحکم نہیں ہوسکیں گی لیکن وہ اپنی ضد پر اڑے رہے اگرچہ وہ دھرنے کے ذریعے حکومت تبدیل نہیں کرواسکے لیکن سازشوں کے ذریعے ٹرائیکا کو اپنے ساتھ ملاکر انتخابات میں جھرلو پھیر کر اقتدار میں آئے اب ان کو لینے کے دینے تو پڑیں گے۔
اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں کے لیڈر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری ہیں اس مرتبہ بلاول نے اپنی بہن آصفہ کو میدان میں اتارا دراصل دونوں خواتین کا تعلق سیاسی ”ڈانا سٹی“ سے ہے مریم شریف خاندان اور آصفہ بھٹو یا زرداری خاندان کی نمائندہ ہیں خواتین کے میدان سیاست میں آنے کے بعد ایک بنیادی بات یہ ہے کہ دو خاندانوں کی سیاست میں وارثت کا سلسلہ قائم ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے غریب لوگوں کی قسمت میں کوئی خوشگوار تبدیلی نہیں ہے نواز شریف ہمارے سامنے ضاء الحق کی انگلی پکڑ کر سیاست اور اقتدار میں آئے تھے اور ضیاء الحق کے زوال کے بعد انہوں نے ماضی سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور ایک ڈیموکریٹ بن کر آگئے لیکن اقتدار ہمیشہ ان کے گھر کی لونڈی رہی انہوں نے وزارت عظمیٰ تو اپنی جگہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی کسی اور کو نہیں دی اگر مستقبل میں ن لیگ دوبارہ اقتدار میں آگئی تو مریم بی بی ہی نواز شریف کی جانشین ہونگی اور اکثریت حاصل کرنے کے بعد وزارت عظمیٰ پر متمکن ہونگی اگر پیپلز پارٹی کو غیبیتائید سے اکثریت حاصل ہوئی تو بلاول کے علاو