طبقاتی نظام تعلیم
تحریر حضور بخش قادر
ملک میں چند خاندان حکمرانی کرتے چلے آ رہے ہیں چونکہ ملک میں سب سے زیادہ آبادی غرباً پر مشتمل ہے جو بشکل دو وقت کی روٹی کما سکتے ہیں مگر آن اشرفیہ نے آج تک غرباً کے حقوق کی پاسداری نہیں کی ھے نہ ان کو بہتر صحت کی سہولیات فراہم کئے گئے اور نہ ہی تعلیم پینے کے صاف پانی روڑ نکاسی آب اور بجلی اور روز مرہ زندگی کے دیگر سہولیات ان کو میسر ہیں حالانکہ سالانہ بجٹ کے دوران غرباً کیلیے اربوں روپے کے فنڈز کے اعلانات ہوتے ہیں مگر دؤر دؤر تک عمل درآمد نہیں ہوتا اس کی سب سے بڑی وجوہات یہ ہیں کہ حکمران طبقے یا امرا ء معمولی بیماری کے علاج کے لیے باہر کے ممالک کا رخ کرتے ہیں ان کے بچے بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح پانی بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منرل واٹر استعمال کرتے ہیں باقی ں جلی کا متبادل نظام ان کے پاس ہے ملک میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کے بعد حکومت نے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اس سلسلے میں صوبائی حکومت نے بھی بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کی سفارش کی تھی جس کے بعد سرکاری تعلیمی ادارے بند کر دیئے گئے ویسے بھی سرد علاقوں میں موسم سرما کے تعطیلات حسب معمول دسمبر کے وسط میں شروع ہونے والے تھے مگر کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے تعطیلات پہلے کرنے پڑے جس سے بلوچستان میں تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوگئے دوسری جانب پرائیویٹ سکولز میں پڑھائی کا سلسلہ جاری ہے ان کا کہنا ہے کہ طلباء اور طالبات کے تعلیمی سال ضائع ہونگے ایک مضبوط معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا کوئی تصور نہیں ہوتااور خاص کر کامیاب قوموں میں جو بات مشترکہ طور پر دیکھی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ وہاں کا نظام تعلیم نہ صرف قابل ِ تعریف، دورِحاضر کے مطابق، اور ہر ایک کے لئے دستیاب ہوتا ہے بلکہ تمام طبقات کے لئے حصول تعلیم کے مساوی حقوق متعین ہوتے ہیں۔کسی بھی فرد کے لئے کسی ادارے یا کسی مخصوص طرز کی فنی تعلیم کا حصول اس فرد کی اپنی صلاحیت پر موقوف ہوتا ہے، حکومتی ادارے تعاون کرتے ہیں، سرکاری سطح پر کمیٹیاں تشکیل پاتی ہیں اور یوں اپنی قوم اور اپنے ملک کے لئے بغیر کسی تفریق کے فنی، سائنسی اور تکنیکی ماہرین کو ا?گے لایاجاتاہے۔اس طرح کی سالوں کی مسلسل اور مستقل مزاج محنت کے بعد قوم ان لوگوں کا کمالات سے مستفید ہوتی ہے جنھیں ہم محقیقین، مبصرین، سائنس دان، موجد،اسکالرز اور انقلابی شخصیات کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں شرح خواندگی میں بہتری کے لیے اقدامات نہیں کئے جارہے ہیں جس کی توقع کی جاسکتی تھی، دوسری طرف غربت کے چکی میں پسنے والا نوجوان اعلی اور معیاری تعلیم کو اپنی دسترس سے باہر گردانتا ہے۔یوں کئی ایک قابل نوجوان اپنے ہنر اور کمالِ مہارت سے قوم کو مستفید کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ تعلیم کسی ایک خاندان یا طبقے کی وراثت نہیں ہے یہ ہر انسان کے لئے مساوی فوائد سمیٹے اپنی تان بان کے ساتھ موجزن رہتی ہے، یہ ہمار ے نظام کی بدقسمتی ہے کہ ا?ج تعلیم بھی طبقات میں بٹ چکی ہے اور نظام تعلیم بھی تقسیم کا شکا ر ہیں، اعلی تعلیم کے لئے اعلی وسائل درکار ہیں، اور نچلے طبقے کے لئے موجود سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، نئی نسل اس تقسیم کے بعد قومی یکجہتی کے فلسفے سے دور ہوتی جارہی ہے، ہمارے معاشرہ ویسے بھی کئی ایک تقسیم میں بٹا ہوا ہے، گروہ، قوم، لسانیت، فرقہ، صوبائیت،مالی حیثیت اور اس کے بعد اب تعلیم بھی کئی معیاروں میں بٹ چکی ہے۔دوسری طرف دورِ حاضر میں کئی نجی اور سرکاری ادارے ایسے ہیں جو اسکالر شپ کے پروگرامز کو باقاعدہ ا?گے بڑھارہے ہیں، کئی ایک رفاعی تنظیمیں اور اصلاحِ معاشرہ سے معنون تحریکیں اپنی اپنی طرز اور بساط کے مطابق اس مسئلے کے سدباب کے لئے کوشاں ہیں، کئی ایک قومی اور بین الاقوامی این جی اوز بھی اس کارِ خیر میں اپنا کردار نبھا رہی ہیں۔ لیکن ان تمام کاوشوں کا اثر کسی محدود حلقے تک تو موثر ہوسکتا ہے جبکہ قومی سطح پر اس مسئلے کے حل کے لئے باقاعدہ اور منظم طور پر اصلاحات درکار ہیں۔ وفاقی اور صوبائی محکمہ تعلیم کے وجود میں ہونے کے بعد شاید مزید کسی کمیٹی کے قیام کی ضرورت نہیں رہتی، ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی اخراجات، نظام ِ تعلیم کی یکساں اور ا?سان فراہمی، نصاب کی تجدید اور سرکاری اسکول سمیت دیگر تعلیمی اداروں کی اصلاحات پر خاطر خواہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔نصابِ تعلیم بھی ایسے اصولوں پر استوار ہونا ضروری ہے جس کے نتیجے میں ہمارے طلباء جدید تحقیقات اور سائنسی اصولوں میں ترمیم شدہ قواعد کے بارے میں بخوبی جانچ سکیں، قومی سطح پر ایک ایسا نظم ہونا ضروری ہے جس کے بعد تعلیمی سلسلے میں موجود طبقاتی اثرات کا خاتمہ ہوسکے۔ سرکاری اسکولوں کی حالت زار میں بہتری کے لئے صوبائی اور وفاقی وزارتوں کو اب حرکت میں ا?نے کی ضرورت ہے۔ اب ایک غریب بچے کو کمپیوٹر سیکھنے کے لئے کسی نجی ادارے میں جانے کی نوبت ا?نا سرکاری اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔انگریزی کا بھی یہی حال ہے۔ سات بجے سے بارہ بجے کے تعلیمی دورانیہ کے بعد بھی اگر انگریزی سیکھنے کے لئے والدین کو ہزاروں روپے پھونکنے پڑیں تو کیایہ تعلیمی اداروں کی حالت پر سوالیہ نشان نہیں؟ وزارتِ تعلیم کے اعلی عہدیداروں اور منصب پر فائز افسران کو اب عملی اقدامات کرنا ہونگے۔ یہ براہِ راست قومی تعمیر کا مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ وطن کے مستقبل کا بھی سوال ہے۔ اگر ہمیں مستقبل میں ایک نئی اور کامیاب قوم بن کر ابھرنا ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی میدان سے طبقاتی عفریت کو باہر نکالنا ہوگا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں یکساں تعلیمی نصاب پر ایک اجلاس کی سربراہی کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وفاقی وزارت تعلیم صوبوں کے ساتھ مل کر اگلے سال 2021 اپریل میں نئے تعلیمی سال گبکے آغاز پر سرکاری و نجی اسکولوں اور مدراس میں پرائمری کی سطح پر یکساں تعلیمی نظام متعارف کرانے کی کوشش کررہی ہے۔ اور وفاقی وزیر تعلیم کے مطابق