دباؤ، تناؤ اور مٹاؤ.!!!

تحریر: راحت ملک
جولائی 2018 کے انتخابی نتائج اول روز سے ہی متنازعہ رہے ہیں ان نتائج کو کسی بھی جانب سے خوش دلانہ پذیرائی کبھی نہیں ملی۔ اپوزیشن کے علاوہ حکمران جماعت بھی انتخابی عمل کی شفافیت پر معترض رہی ہے انتخابی نتائج کے اعلان کے دوران آر ٹی ایس سسٹم کا ناکارہ و ناکام ہوجانا ایک منفی پہلو تھا جس سے نتائج کی صحت متاثر ہوئی جبکہ عام انتخابات سے قبل رونما ہوئے واقعات کی روشنی میں یہ تو نوشتہ دیوار تھا کہ انتخابی عمل غیر جانبدارانہ شفافیت سے قطعاً عاری ہوگا۔2017کے آخری دنوں میں بلوچستان حکومت میں تقسیم مسلم لیگ حکومت کا خاتمہ۔ جناب عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں نئی حکومت کا قیام اور اس کے ذریعے سینیٹ کے انتخابات میں آزاد ارکان کی کامیابی جو دراصل فلور کراسنگ کی قانون شکنی تھی مگر اس سیاسی کھیل کے انتہائی اہم مرحلیاور نازک صورتحال کے عروج کے لمحوں میں عدلیہ نے معاونت کی سابقہ روایت نبھائی اور مسلم لیگ کے صدر نواز شریف کو پارٹی قیادت کیلئے بھی نااہل قرار دے کر جس انتخابی سیاسی لائحہ عمل کی راہ ہموار کی تھی اس کے مرتبین کیلئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ مسلم لیگ کو اگلیانتخابات میں دوبارہ کامیابی میسر آسکے۔
مشر نوازشریف کی نااہلی کیلئے عدلیہ پر دباؤ کی کہانی اب تک طشت ازبام ہوچکی ہے قصہ کوتاہ۔ یہ کہ جولائی 2018کے انتخابات نتائج سمیت ہمیشہ مشکوک رہے ہیں اس انتخابی "آذریت ” کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت شراکت اقتدار کے دیرینہ آرزومندانہ فارمولے کی تکمیل کے ساتھ بنی تھی جسے این آر او کے ذریعے برسراقتدار (اختیارات ست معذور) آنے والی حکومت قرار دینا غلط نہیں ہوگا گو کہ اس نتیجہ سے اختلاف رکھنے والے بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جو
جواباں غزل کے طور پر بہت کچھ ارشادات فرما سکتے ہیں۔ میرا کہنا مگر یہ ہے کہ موجودہ دورمیں جس تعداد وانداز میں محکمہ دفاع سے فارغ ہونے والے آفیسران کو مختلف سول اداروں کی سربراہی یا ملازمت کے بہترین مواقع ملے ہیں وہ
” سیاسی آذریت” اور متذکرہ صدر این آر او ملنے کے ٹھوس شواہد ہیں دیگر حوالے بھی اپنی جگہ ٹھوس حقیقت رکھتے ہیں تاہم انہیں یہاں بحث سے خارج کرلیں تو بھی حاصل نتیجہ کی صحت پرکسی طور منفی اثر مرتب نہیں ہوتا۔
یہ کہاجاسکتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے ارکان نے اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف اٹھاکر بالواسطہ طورپر انتخابی نتائج تسلیم کرلیے تھے یہ الزام اس وقت کی سیاسی پیچید گی کی درست اورمکمل عکاسی نہیں کرتا آج کے معترضین پہلے روز نتائج مسترد کئے جانے پر "راندہ درگاہ قرار پانے والی سیاسی جماعتوں پر جمہوریت دشمنی اور شکست تسلیم نہ کرنے کی اخلاقی جرآت سے محروم ہونے کے ایسے ایسے تبرے بیجتے کہ اللہ امان الحفیظ۔ ضمنی طورپر یہ بھی یاد رھے کہ مذکورہ اعتراض تو پی ٹی آئی پر بھی وارد ہوگا جس نے دھاندلی اور عدم شفافیت کے مقدمات درج بھی کرائے تھے کیا بعد ازاں اس نے نتائج کے بارے اپنے نکتہ نظر سے رجوع کرلیاتھا؟
کوئٹہ شہر سے کامیاب قرار دیئے گئے رکن قومی اسمبلی جو ڈپٹی اسپیکر بھی ہیں کے خلاف عدالت عالیہ بلوچستان کافیصلہ آچکا ہے جس کے خلاف قانونی استحقاق کے مطابق جناب قاسم خان سوری نے الیکشن کمیشن میں اپیل دائر کر رکھی ہے وہ کونسی وجوہات یا رکاوٹیں ہیں جو اس اپیل کو منطقی انجام تک پہنچنے نہیں دے رہی ہیں؟ یہ توجہ طلب نقطہ ہے۔الیکشن کمیشن میں اپیل قومی اسمبلی کی رکنیت کے بچاؤ کے لئے دائر ہے۔ کیا سیاسی اختلاقیات کا تقاضا نہیں تھا کہ اپیل کا فیصلہ آنے تک جناب قاسم سوری ڈپٹی سپیکر کا عہدہ چھوڑ دیتے؟اس سوال کا جواب حکومتی جماعت کی جمہوری ساکھ اور سیاسی ثقافت کے متعلق نیز آذریت کے تقاضوں کے سبھی اسرار عریاں کرتا ہے مگر۔۔۔چھوڑیئے صاحب جہاں آئین و پارلیمان کی توقیر نہ ہو وہاں قانون کی بالادستی بارے سوچنا قرین حقیقت نہیں۔
بروز ہفتہ5دسمبر کو جناب وزیراعظم نے پی ڈی ایم کے لاہور کے مجوزہ جلسے بارے اپنی سرکاری پالیسی کا اعلان کیا ہے اسے سن کر حکومت کی سیاسی ذھنی بلوغت بارے تمام تر خوش گمانی ختم ہوگئی ہے۔جناب عمران خان نے فرمایا کہ۔
” 13دسمبر کے جلسہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے لیکن آرگنائزر اور کرسیاں ولاؤڈ سپیکر دینے والوں پر مقدمہ ہوگا”۔ جلسہ کے خلاف حکومتی استدلال کرونا وباء پر استوار ہے مگر حکومت کے وزراء خود اجتماعات منعقد کر کے کرونا کی دھجیاں اڑ رہے ہیں لیکن اپوزیشن کے احتجاج کو کچلنے کے لئے کرونا کا شور کرتے ہیں۔بلا شبہ کرونا ایک خطرناک وائرس ہے کیا موجودہ حکومت کی ناقص کارکردگی معیشت کا انحطاط پذیری اقتصادی بربادی اور کرپشن کے الزامات مہنگائی بے روزگاری سفارتی تنہائی اور بڑھتا ہوا سیاسی عدم استحکام ملک وعوام کے لئے زیادہ سنگین خطرہ نہیں؟ یہ سوال ترجیح کا ہے کہ زیادہ بھیانک کو ترجیح سمجھا جائے یا وائرس کے چھوٹے خطرے کو؟
حکومت سیاسی تدبیر سے عاری نہ ہوتی تو سیاسی خلفشار و اختلافات کو بڑھاوا دینے کی بجائے جمہوری وآئینی حدود و تقاضوں کے اندر مکالمے کو فروغ دیتی اب جبکہ پانی سر سے اونچا ہوچکا تب بھی وزیراعظم اپوزیشن کے ساتھ بات چیت پر آمادہ نہیں اگر دعوت گفت وشنید دی بھی تو دودھ میں مینگنیاں ڈال کر۔کہ اپوزیشن تو بات چیت میں این آر او مانگتی ہے مذاکرات تو ہوسکتے ہیں مگر میں این آر نہیں دونگا“
یہ بیانیہ تو اب اپنی اثرآفرینی وافادیت کھو چکا ہے چنانچہ حکومت احتجاج کی مزاحمت کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ پر بد ترین سنسر شپ و پابندیاں عا ئد کر کے اختلافی آوازوں کو دبانے میں مصروف ھے۔بھلا اسے جمہوری حکمرانی کہا جاسکتا ہے؟ اور کیا وزیراعظم کے پاس این آر او دینے کا اختیار ہے؟ مقدمات درج ہوں تو صرف مجاز عدالتیں ہی انہیں انجام تک پہنچا سکتی ہیں۔ انتخابی نتائج اور اطاعت و تابع داری ملحوظ رکھیں تو کہینا درست ہے کہ جناب عمران تو خود این آر او کیے ذریعے وزیراعظم بنے ہیں۔ انتظامی اختیار کی بری مثال البتہ یہ ہے کہ وہ اپنے اقرباء،دوست اور حلیفوں کے خلاف مقدمات چلنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔کبھی کسی اہم عہدے دار کو محض ذاتی وضاحتی بیان پر ہی سنگین مالی بد عنوانیوں کے سنگین اعتراضات سے پاک قرار دے دیتے ہیں۔اپنے دو معاونین خصوصی برائے صحت کو مالی بے قاعدگیوں پر برطرف کرچکے ہیں لیکن ان کا احتساب ہوا ہے نہ مقدمات بنے۔۔۔
اپوزیشن کا لاہور میں ہونے والا جلسہ بہت اہمیت رکھتا ہے ملتان کے جلسہ نے فیصلہ کن سیاسی معرکہ آرائی کا اگلا پڑاؤ 13دسمبر لاہور کے جلسے کو بنادیا ہے ملتان میں جلسہ روکنے کے سرکاری عزائم عوام کے جم غفیر کے سامنے سرنگوں ہوگیے تھے کیا لاہور میں پنجاب حکومت جلسہ روکنے میں کامیاب ہوسکتی ہے؟اگر لاہور میں تعینات سی سی پی او کی تقرری کے میرٹ اور سی سی پی او کے رویوں و بیانات کو مد نظررکھیں تو جلسہ سبوتاڑکرنے کیلئے ریاستی جبر کے استعمال کے خدشے کو تقویت ملتی ہے ایسا ہوا تو لڑکھٹراتی حکومت کیلئے حالات مزید کشیدہ و پیچیدہ ہوجائینگے۔
لاہور جلسہ کے بطن سے کیا برامد ہوسکتا ہے؟
اگرچہ حکومت جلسے کیلئے نیم دلانہ بیانیہ اپنا رہی ہے تاہم گومگوار اور خوف کی کیفیت برقرار رکھنے پر بھی گامزن ہے۔ لیکن جلسے کا انعقاد یقینی ہے۔ اس سے قبل 8دسمبر کو پی ڈی ایم قیادت جدوجہد کے اگلے مرحلے کی حکمت عملی طے کرے گی امکان غالب ہے کہ پی ڈی ایم عوامی اجتماعات موخر کرکے فوری فیصلہ کن وار کرنے کا ارادہ کرلے جس کی شکل اسمبلیوں سے استعفیٰ کی صورت سامنے آسکتی ہے یاپھر لاہور جلسے کو لانگ مارچ میں بھی بدلا جاسکتا ہے!!!
احتجاجی تحریک کے تین پہلو قابل تفہیم ہوچکے ہیں۔
1۔دباؤ۔ 2۔تناؤ۔ اور۔3۔مٹاؤ
اب تک کے عوامی جلسوں سے حکومت اور پس حکومت موجودہ حلقے پر پڑنے والے عوامی دباؤ کے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔
مشر شہباز شریف نے پیرول کے دوران ایک بار پھر نیشنل ڈائیلاگ کی بات کی تھی جبکہ ان کی جماعت احتجاجی تحریک میں بھر پور طور پر شریک ہے تو کیادریں حالات وسیع البنیادمکالمہ سیاسی اعتبار سے خوبصورت جمہوری تجویز ہو سکتی ہے؟ کیا میاں شہباز شریف نے از خود اس تجویز کا اعادہ کیا ہے؟یا انہیں اسیری کے دوران اس مقصد کے لئے پیام دیا گیا تھا جسے انہوں نے بیان کردیا ہے؟ بہر حال یہ بیان اس مقتدرہ کے داخلی حلقے پر پڑنے والے دباؤ کی وضاحت ضرور کرتا ہے۔جواب
تناؤ کے مرحلے میں ہے۔واقفان حال اور بعض دیگر ذرائع اس امر کی نشاندہی کررہے ہیں کہ اقتدار واختیار کے مراکز میں تعاون رفتہ رفتہ تناؤ میں بدل رہا ہے اس کی دوسری قسم برسراقتدار جماعت کے اندرونی حلقے میں بھی اپنا اثر نمایاں کررہی ہے جبکہ اختیار کے درون ٍخانہ میں بھی محکمے اور افراد ک بیچ تخصیص کے نتیجے میں اہم سولاات اٹھ رہے ہیں۔
پی ڈی ایم تحریک کا تیسرا نکتہ مٹاؤ بہت اہم ہے۔ دباؤ اور تناؤ کے ذریعے حکومت کی سربراہی سے دست ِ شفقت مٹائے جانے کے بعد حکومت مٹاؤ کا مرحلہ شروع ہوگا۔زیادہ ممکن ہے کہ متذکرہ صورتحال میں پی ڈی ایم قومی اسمبلی اور پنجاب،بلوچستان میں تحاریک عدم اعتماد سامنے لے آے۔سر پرستانہ دست تعاون پیچھے ہٹ گیا تو مذکورہ تحاریک کی ناکامی کے امکانات باقی نہیں رہیں گے۔کیا پی ڈی ایم اس صورت میں اپنی حکومتیں تشکیل دے گی یا نئے انتخابات کی طرف معاملات بڑھائے گی۔؟
اس پہلو کو کسی طور نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ استعفوں کے آپشن پر بھی مرحلہ وار عمل کیا جائے،آخری وار قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا ہوسکتا ہے اور اگر اس سے قبل سندھ اسمبلی تحلیل،پنجاب وبلوچستان میں عدم اعتماد یا استعفوں کے ذریعے اسمبلیاں ختم ہوتی ہیں تو پھر شاید قوی اسملی سے استعفے دینے کی نوبت نہ آئے۔میرا مشورہ ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے لئے کسی بھی اقدام سے قبل ممکن بنایا جائے کہ مختصر مدت کی وسیع البنیاد حکومت قائم ہو جو نئے انتخابات کے منصفانہ شفاف آزادانہ انعقاد کو ممکن بنائے،سیاسی مداخلت کے سب دروازے اتفاق رائے سے بند کرائے تاکہ آنے والی حکومت عوامی نمائندگی کے حقیقی اعتماد کے ساتھ بر سراقتدار آئے تو اسے شراکت اقتدار کا سامنا نہ کرنا پڑے یہی راستہ استحکام پاکستان کے خواب کو تعبیر دے سکتا جس کی تکمیل کا انحصار ریاستی مائنڈ سیٹ میں تبدیلی پر ہے امید کرنی چاہیے کہ اب ہر کوئی پاکستان کو بحران سے نکالنے۔ اسے معاشی و سیاسی استحکام بخشنے کیلئے اپنے حصے کا کردار شخصی یا محکمانہ انا و ضد کے محدود دائرے سے نکلنے پر اکتفا کرلے گا۔