سیاسی مکالمے کا راستہ کھل سکتا ہے!

تحریر:راحت ملک
موقر جرید ے کے معروف صحافی جناب سہیل وڑائچ
نے ہفتہ عشرہ قبل اپنے کالم میں محترمہ مریم نواز کی جان کو لاحق دہشت گردی کے جن خطرات کی جونشاندہی کی تھی وہ شدید حساسیت اور تشویش کے پہلو رکھتے ہیں بالخصوص شدید حساسیت کا اھم نکتہ یہ تھا کہ اعلیٰ سرکاری سطح پر محترمہ کو راستے سے ہٹا دینے کے متعلق فیصلہ ہورہاہے۔ جو بہت بھیانک سنسی خیز پہلو تھا۔ کیونکہ ایسا ہونا بعداز قیاس بھی نہیں لیکن انتہائی تباہ کن اثرات کا حامل بھیانک ہوگا۔ جناب سہیل وڑائچ کی تحریر کے متعلق کسی حلقے نے اب تک تردید کی ہے نہ اس پر کسی قسم کا تبصرہ یا خیال آرائی البتہ مستزاد یہ کہ پنجاب حکومت بے باضابطہ طورپر مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر جناب رانا ثناء اللہ کے متعلق تنبیہ جاری کی تھی کہ انہیں 13دسمبرکے جلسے میں دہشت گردی کانشانہ بنائے جانے کاخطرہ ہے اس انتباہ کے دوروز بعد شاھدرہ میں دہشت گردوں کے ایک مبینہ گروہ کے خلاف کارروائی کی اطلاع آئی تھی بتایاگیا تھا دہشت گرد افغانستان سے تربیت لے کر پاکستان آئے تھے جنہیں بھارتی خفیہ ایجنسی را کی مالی معاونت میسر تھی کیا رانا ثنااللہ انہی ھلاک کئے گئے دہشت گردوں کا ہدف تھے؟ یا رانا ثناء اللہ کے متعلق جاری انتباہ کسی ایسے گروہ کے متعلق ملنے والی اطلاعات کے متعلق تھا جو ابھی تک قانون کی گرفت سے بچاہوا ہے؟ اس کے معنی یہ ہونگے کہ رانا ثناء اللہ پر حملے سے متعلق پنجاب حکومت کا جاری انتباہ تاحال فعال ہے اگر رانا صاحب کو جلسہ گاہ میں نشانہ بنایاگیا(اللہ انہیں حفظ وامان میں رکھے) تو کیا اس حملہ کے منفی اثرات سے دیگر رہنماء بالخصوص محترمہ مریم نواز محفوظ رہیں گی؟(اللہ ان کی حفاظت فرمائے) مسئلہ یہ ہے کہ محترمہ مریم نواز اور رانا ثناء اللہ ایک ہی جماعت کے رہنماء ہیں جو جلسہ گاہ میں بہت نزدیکی فاصلے پر موجود ہونگے مفروضہ طورپر اگر دہشت گرد رانا ثناء کو نشانہ بناتے ہیں تو کیا محترمہ مریم نوازکو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچے گا؟ ظاہر ہے ایسی صورت میں کسی کو بھی یا دیگر اکابرین کو بھی نقصان پہنچنے کا احتمال ہوگا جن میں پی ڈی ایم کے تمام رہنما شامل ہیں یہ تشویش ناک منظر نامہ دل ہلادینے کیلئے کافی ہے تاہم یہ قیاس اطمینان بخش ہوسکتا ہے کہ پنجاب پولیس نے گزشتہ روز جن مبینہ دہشت گردوں کے خلاف خفیہ اطلاع پر کارروائی کی تھی وہی دراصل جناب رانا ثناء اللہ کو نشانہ بنانے کے عزائم رکھتے تھے چنانچہ یہ سمجھنا مناسب ہوگا کہ پنجاب حکومت نے بروقت کارروائی کرکے جناب رانا ثناء اللہ پر ہونے والے امکانی خطرے کاسدباب کرلیا ہے لیکن جناب سہیل وڑائچ کے بیان کردہ خدشات میں جس جانب انگلی اٹھائی گئی تھی نہ تو انہوں نے اس کی تردید کی ہے نہ ہی وہ قانون کی گرفت میں آسکتے ہیں؟ تو کیا محترمہ مریم نواز کے متعلق جناب سہیل وڑائچ کے بیان کردہ خدشات ہنوز موجود ہیں؟
اس پہلو پر ہونے والی بحث میں ایک دلیل دی جاتی ہے کہ ایسا ہونا ممکن نہیں کیونکہ ییہ بہت بھیانک ہوگا اور اس کے مابعد اثرات سے سبھی آگاہ ہیں لہٰذا اسکا تو وقوع پذیرہونا ممکن نہیں۔!!!
اس دلیل میں جتنا وزن ہے تاریخ اسی نسبت سے زیادہ خطرات کی نشاندہی کرتی ہے بابائے قوم کو کراچی ماڑی پور ائیر پورٹ سے شدید بیماری کے عالم میں ہسپتال پہنچانے کیلئے بھیجی گئی ایمبولینس کا خراب ہوجانا بابائے قوم کااسی ایمبولینس میں انتہائی مخدوش حالت (صحت اور ماحول) میں کئی گھنٹے دوسری ایمبولینس کا منتظر رہنا ایسا واقعہ ہے جس پر کئی محققین نے قائد اعظم کو قتل کئے جانے کا شبہ ظاہر کیا تھا۔ بیماری کے عالم میں جب گورنر جنرل کوئٹہ سے کراچی پہنچے تھیتو ائیر پورٹ پر ان کے پروٹوکول کے مطابق استقبال کے لئے کونسی شخصیت ائیر پورٹ ر موجود تھی؟یہ سوال بھی شکوک کے سایے گہرے کرتا ہے۔بعد ازاں وزیراعظم جناب لیاقت علی کا راولپنڈی کے جلسہ عام میں قتل اور قاتل کو موقع پر گولی مار دینے کا واقعہ ابتک پر اسرار معمہ ہے جس کی رپورٹ بھی منظر عام پر نہیں آسکی۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی اچانک رحلت جس کے متعلق شک ہے کہ انہیں زہر دے کر شہید کیا گیا تھا ایسے واقعات میں جو "پس پردہ قوتوں ” کی استعداد کار اور ذہنیت کو واضح کرتے ہیں 4 اپریل 1979ء تک کسی کو گمان نہیں تھا کہ جناب بھٹو کو پھاسی دے دی جائے گی۔محترمہ بے نظیر بھٹو کو کس طرح شہید کیا گیا۔یہ بھی ایک ناقابل حل معمہ ہے۔بلوچستان میں ہونے والے واقعات جناب نواب بگٹی کا سانحہ۔پھر متعدد بار منتخب وزرائے اعظم کو برطرف کرنے کے واقعات بتاتے ہیں کہ ان کے پیچھے کا ر فر عناصر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ ہر قسم کے حالات پر قابو پاسکتے ہیں۔ تو کچھ بھی کر گذرنا ان کے لیے ناممکن نہیں۔چنانچہ یہی منفی خیال و ارادہ وہ عنصر ہے جو میری تشویش کو بڑھاتا ہے کہ اللہ نہ کر ے کہ محترمہ مریم نواز کو کوئی نقصان پہنچے یا پہنچانے کی کوشش ہو۔لے کن اس خوش گمانی کو ذہنوں سے جھٹکنا ہوگا کہ مریم نواز کو نقصان پہنچانے کی قیمت کوئی نہیں چکا سکے گا۔!!!! ماضی کے متذکرہ واقعات اور اس کے علاوہ کئی کہانیاں (لاپتہ افرادکا مسئلہ،صحافیوں کا قتل)چیخ چیخ کر خبر دار کرتے ہیں کہ کسی سانحہ کا وقوع پذیر ہو جانا بعید از قیاس نہیں۔یہاں دشمنوں کے بچھائے ہوئے جال اور ان کے نیٹ ورک و عزائم بھی بھیانک خدشات کی گھمبیرتا نمایاں کرتے ہیں بنیادی مسئلہ ملک میں قانون کی بالادستی قائم نہ ہونے کا ہے۔ معاشروں میں نجی اور سرکاری طاقتوں اور عامتہ الناس کے درمیان طاقت کا خوشگوار توازن معیاری معقول نظام عدل سے قائم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں آئین کی پامالی و۔بیتوقیری۔۔ اور پارلیمان کی تذلیل اتنی سہل و ارزاں ہوچکی ہے کہ اب کسی کیلئے بھی سیاست اور سیاستدانوں پر تبرا بھیجنا مشکل نہیں رہا۔ اب تو برقی میڈیا میں بالوں کے ایک اشتہار میں بھی گندی سیاست سے گریز کا اظہار محبت کے ہم معنی بنادیا گیا ہے خیر یہ تو معقطے آنے والی گسترانہ پہیلی ہے
ملک میں پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک روزبروز توانائی حاصل کررہی ہے لاہور کا جلسہ اسی تناظر میں اہمیت اختیار کررہا ہے مرکزی حکومت نے جناب اعجاز شاہ کی جگہ گول پیندے والے جناب شیخ رشید کو وزارت داخلہ کا قلمندان سونپ دیا ہے کیایہ تبدیلی جناب اعجاز شاہ کی ناکامی کی دلیل ہے یا ان کی جانب سے کسی معذرت خواہی کانتیجہ؟
حکومت اور ذرائع بلاغ پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کا امکان رد کئے جانے پر تنقید کررہے ہیں جبکہ مذاکرات اب بھی ممکن ہوسکتے ہیں اگر حکومت سیاسی سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرے حکومت مذاکرات کیلئے ایسا ایجنڈا پیش کرکے حالات کا رخ بدل سکتی ہے جس سے پی ڈی ایم اختلاف کریے نہ پی ٹی آئی کے سابقہ سیاسی موقف اور ساکھ پر منفی اثرپڑے مثلا ً
1۔۔۔ ملک میں پارلیمان کی بالادستی ممکن بنانے کیلئے مطلوبہ آئینی و قانونی اقدامات پر اتفاق رائے پیدا کرنا
2۔۔ عام انتخابات میں ہر قسم کی سرکاری مداخلت کے خاتمے کیبموثر تدارک کیلئے آئینی، قانونی وانتظامی اقدامات کا تعین کرنا
3۔۔۔ امور مملکت کو آئین پاکستان میں طے کردہ ڈھانچے۔طریقہ کار اور ریاستی طاقت کے معینہ دائرہ کار کی تقسیم کو مضبوط ومستحکم بنانے کے لئے باہمی مشاورت۔
4۔۔۔ احتساب سب کے لئے۔۔کے نعرے کر عملاً ممکن بنانے کے لئے سب کے لیے ایک یکساں نظام کی تشکیل دینا جو سیاسی انتقام جانبداری یاسیاسی لانڈری کے منفی تاثر کو زائل کرسکے۔
5۔۔۔احتسابی عمل شفاف اور سریع الحرکت ہو۔بد عنوانی کے مرتکب افراد کے خلاف مقررہ مدت میں تحقیقات کر نے کے بعد۔ٹرائل اور گرفتاری اور تیز تر عدالتی مراحل کا مکینزم بنانے کے لئے سیاسی اتفاق رائے
ان پانچ نکات پر مشتمل ایجنڈے کے ذریعے اگر حکومت پی ڈی ایم کو مذاکرات کی دعوت دے اور مذاکرات کے دوران کسی بھی نوعیت کے انتخابی عمل کو ملتوی رکھنے کا عندیہ ظاہر کیا جائے تو سیاسی گفت وشنید کے بند دروازے کھل سکتے ہیں ان مذاکرات کے نتیجے اتفاق رائے سے اگلے انتخابات کا شیڈول بھی طے پاسکتا ہے۔ کرونا کا سہارا لینے کی بجائے سیاسی بصیرت وپہل کاری کے ذریعے گہری ہوتی سیاسی کشیدگی اور درجہ حرارت کو کم کیا جاسکتا ہے۔اگر
اتر جائے تیرے دل میں مری بات۔

اپنا تبصرہ بھیجیں