امریکہ کا بجھتا چراغ

تحریر: جمشید حسنی
شکست خوردہ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا ہے۔ٹرمپ کی خواہش ہے کہ جانے سے پہلے اسرائیل کے لئے مسائل کم کرے سعودی اور اسرائیل تعلقات بھی بحال ہورہے ہیں۔متحدہ عرب امارات قطر بحرین نے پہلے ہی اسرائیل سے تعلقات بحال کررکھے ہیں۔فلسطینی ریاست کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ہے غیر عرب ممالک ایران پاکستان ترکی ملائیشیا انڈونیشیا ڈٹے ہوئے ہیں۔عربوں کے پاس تیل کی دولت ہے مگر ہنر مند افرادی قوت نہیں ان کی معیشتیں بیرون ملک سے آنے والے محنت کشوں کی مرہون منت ہیں۔نہ تعلیم ہے نہ ٹیکنالوجی نہ زراعت دولت کافی ہے عام آدمی کو خوار نہیں ہونا پڑتا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اتحادیوں نے سلطنت عثمانیہ کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مشرق وسطی کو چھوٹے چھوٹے ملکوں میں تقسیم کردیا۔ان کا انحصار مغربی ممالک پر ہے۔جرمنی نے اعلان کیا کہ یمن کے مسئلہ کے سبب وہ مزید ایک سال سعودی عرب پر اسلحہ نہیں بیچے گا۔امریکہ نے کہا ہے کہ وہ 23ارب ڈالر کے F-35جنگی جہاز عرب امارات پر فروخت کر یگا۔امریکہ مغرب میں اسلحہ سازی روز گار کا وسیلہ ہے پرانا اسلحہ بیچ کر نئی تحقیق اور ایجادات ہوتی ہیں پرانی ٹیکنالوجی تیسری دنیا کو منتقل کردی جاتی ہے۔ہمارے پاس بھی امریکیF-16جہاز ہیں۔ہماری معیشت نیم زرعی نیم صنعتی ہے۔ہم روز مرہ کی ضروریات کی اشیاء بناتے ہیں۔ٹیکسٹائل کی صنعت عمدہ ہے مگر مصنوعات کی فروخت کے لئے عالمی منڈی میں مقابلہ ہے۔بنگلہ دیش تیار ملبوسات بناتا ہے اور زرمبادلہ کماتا ہے انڈونیشیا بھارت ملائیشیا جاپان میں بھی ٹیکسٹائل انڈسٹری ہے۔ہماری ستر فیصد آبادی دیہات میں زراعت سے منسلک ہے مگر زراعت حکومت کی ترجیح نہیں مصنوعی کھاد سمگلنگ میں ہمسایہ ممالک چلی جاتی ہے۔ہم غلہ اور چینی باہر سے منگواتے ہیں پھر افغانستان کے غلہ کی ضروریات جائز نا جائز پاکستان سے پوری ہوتی ہیں۔افغانستان کے ہمایہ ممالک قازقستان،کرغستان،ترکمانستان،ازبکستان،تاجکستان،ایران کی پیداوار اتنی زیادہ نہیں کہ افغانستان کی ضرورت پور ی کرسکیں۔یہ سب خشکی میں گرے ممالک ہیں افغانستان کی بیرونی تجارت پاکستان سمندری راستے سے ہوتی ہے ہمارا بڑا مسئلہ ماحولیاتی ہے۔زیر زمین پانی کی سطح گررہی ہے۔دریائی پانی کو ہم ڈیموں کے ذریعے ذخیرہ نہیں کرپاتے پانی سمندر میں ضائع ہوجاتا ہے پورے بلوچستان میں کوئی دریا نہیں زراعت خشکا بہ سیلابی ہے یا پھر ٹیوب ویل بجلی ارزاں نہیں،مستقل نہیں بہترین پھل پیدا ہوتے ہیں مگر حکومت کنو،سیب،انگو،آم جیسے قیمتی پھل برآمد نہیں کرپاتی۔ہالینڈ پھول،دودھ پنیر بیچ کر زرمبادلہ کماتا ہے پاکستان دودھ پیدا کر نے والا دنیا کا چھٹا بڑاملک ہے۔دودھ پھر بھی مہنگا ہے یہاں بچے کم غذائیت کا شکار ہیں یہ نہیں کہ ارباب اقتدار بے خبر ہے منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔سیاسی لیڈروں کی توجہ عوامی مسائل سے زیادہ حصول اقتدار پر ہے۔معاملات میں شفافیت نہ آسکی ایم پی اے ایم این اے فنڈ زہا ضمہ کا چورن ہے۔قومی دولت بیرون ملک منتقل ہوتی رہیں۔
بات چلی تھی عرب اسرائیل سے اسلامی اخوت ہمارا اور اسرائیل کا ایک دوسرے سے کوئی لینا دینا ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور ہیں کوئی علاقائی تجارتی مفاد نہیں اگر عرب اسرائیل بنتے ہیں توہماری ایران ترکی کی پوزیشن عجیب ہوگی اسرائیل ہندوستان کی دوستی ہے۔بر طانیہ اور یورپی یونین کے مذاکرات ہیں مسئلہ ماہی گیری اور معاہدہ پر عملدرآمد کا ہے۔یورپی یونین سے علیحدگی پر برطانیہ میں دو انتخابات ہوئے اسرائیل میں دو سال میں چوتھے انتخاب ہیں۔امریکہ میں کورونا ویکسین آگئی ہے روزانہ تین ہزاراموت ہیں 2 لاکھ 86ہزار لوگ مرچکے ہیں ترکی نے روس سے ویکسین خریدی امریکہ نے ویکسین اپنے ملک میں استعمال کرنے وقف کردی ہے۔ٹرمپ نے 17ریاستوں کی حمایت سے یونیورسٹی اور انہیں ارب روپیہ کا پیکیج دیا ہے۔شاعر نے کہا
بلوچستان میں نہ ہسپتال نہ تعلیمی ادارہ گوادر کا معائلہ بھی ٹھنڈا ٹھنڈا شیخ رشید کی ایم ایل ون حزب اختلاب کے استعفے ہیں مارچ میں سینیٹ کے انتخابات ہونے ہیں۔استعفوں کے بعد ساٹھ دن میں انتخابات آئینی ضرورت ہے۔استعفوں کا سینیٹ کے انتخابات پر کیا اثر ہوگا۔ہی تو آئینی ماہرین بتلا سکتے ہیں عمران خان کہتے ہیں یہ استعفیٰ دیں میں انتخابات کرادوں گا۔لانگ مارچ ہوگا۔چوہان،فردوس اعوان،شبلی فراز نوکری کی مجبوریاں ہیں،گرتی گفتار ہے کاش غریب کی بھوک باتوں سے مٹ سکتی۔
عمران خان کی تبدیلی بھی حضرت عمرؓ کے دور کے بیوہ کی ہانڈی ہے جس میں پانی ابل رہا ہے۔