”ہمارے نوحے“

تحریر: انور ساجدی
پیرغیب درہ بولان کا ایک تفریحی مقام ہے جہاں ہرسال تفریح کیلئے جانے والے کئی نوجوان کُنب کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر جان کی بازی ہار جاتے تھے کولپور سے لیکر ڈھاڈر تک کاوسیع وعریض علاقہ بہت ہی مخیر العقول ہے آبشاریں بہتے چشمے اور دریا بہت ہی دلکش نظارہ پیش کرتے ہیں بولان چونکہ حملہ آوروں کی گزرگاہ رہا ہے اس لئے اس علاقہ نے تاریخ کے کافی نشیب وفراز دیکھے ہیں درہ بولان کے مشرقی دہانے پر ڈھاڈر کا شہر ہزاروں سال سے آباد ہے یہ ریاست قلات کا سرمائی ہیڈکوارٹر رہا ہے پاکستان بننے کے بعد یہاں پر خان قلات کی جورہائش گاہ تھی اسے سرکاری تحویل میں لیکر ڈپٹی کمشنر ہاؤس بنایا گیا جس طرح کہ قلات شہر میں وزیراعظم ہاؤس آج کل ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ ہے ڈھاڈر وہ بدقسمت مقام ہے کہ جہاں ریاست قلات کے آخری خان میراحمد یار خان کو مجبور کیا گیا کہ وہ الحاق کی دستاویزات پردستخط کردیں بدقسمتی سے خان صاحب نے اس نازک موقع پر ویسی تحریرنہیں لکھی جو ریاست واشنگٹن کے دارالحکومت سیاٹل پر یورپی قبضہ گری کے بعد وہاں کے انڈین سردار نے لکھی تھی انگریزوں نے اس تحریر کو اپنے عجائب گھروں میں محفوظ رکھا اور انکار کرنے والے سردار کے مجسمے بنایا کہ انہوں نے اپنی سرزمین سرنڈر کرنے کی دستاویز پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا جن لوگوں نے خوف کے مارے میں دستاویزات پر دستخط کئے تھے آج ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں ہے بولان صدیوں سے بلوچ وطن کا اٹوٹ انگ ہے اور اسے بہت کم طاقتوں نے چیلنج کیا ہے عہد حاضر میں خان عبدالصمد خان اچکزئی نے پشتونخوا میپ بنانے کے بعد چترال تابولان کانعرہ لگایا تھا جسے محترم محمود خان گاہے گاہے دہراتے رہتے ہیں لیکن یہ ایک سیاسی نعرہ ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے بولان میں مچھ کا مشہور قصبہ بھی واقع ہے جہاں کی سینٹرل جیل سے ساری دنیا واقف ہے۔
حال ہی میں پیر غیب کی تفریح گاہ کی قدرتی ہیئت تبدیل کرکے اسے مصنوعی طرح دینے کی کوشش کی گئی ہے سنا ہے کہ صوبائی حکومت نے یہاں پر چند بنچ اور کرسیاں رکھ کر کروڑوں روپے خرچ کئے ہیں اس منصوبے کا مقصد ان چرواہوں اورخانہ بدوشوں کی آمد کوروکنا ہے جو صدیوں سے آزادانہ نقل وحمل کرتے تھے۔بھیڑبکریوں کے ریوڑ اور اونٹوں کے گلے چرانے آتے ہیں بولان چونکہ کافی عرصہ سے ایک حساس علاقہ ہے اس لئے اسے نظم میں لانا حکومت کیلئے ضروری تھا آئندہ کچھ عرصہ میں یہاں کے چپے چپے پر طرح طرح کی تعمیرات دیکھنے کو ملیں گی اسی طرح جھالاوان اورکچھی کے درمیان واقع درہ مولہ بھی ایک خاص نظم میں لایاجائیگا کسی زمانے میں لک جھاؤ اور لک باراں بھی حساس علاقے تھے لیکن ساحلی شاہراہ کی تعمیر کے بعد ان کی پرانی حیثیت باقی نہ رہی۔میراذاتی خیال ہے کہ لکھ جھاؤ کے ساتھ واقع دڑون کے پہاڑی سلسلہ اور ہنگول کے نیشنل پارک کے ان حصوں کو جو زیادہ کارآمد نہیں ہیں مقامی انسانی آبادی کیلئے اس طرح کا ”ریزرو“ بنایاجائیگا جو امریکہ میں ریڈانڈین آبادی کیلئے بنائے گئے تھے جبکہ پوری ساحلی شاہراہ اوراسکے اطراف کے علاقوں کو ریڈزون قراردے کر غیر مہذب مقامی آبادی کا اس میں داخلہ ممنوع کردیاجائیگا اس کام کا آغاز نصف صدی پہلے سونمیانی کے بندر سے کیا گیا تھا یہاں جوشہر اور تحصیل ہیڈکوارٹرز تھا اسے وندر میں منتقل کردیا گیا تھا اسکے بعد یہی عمل اورماڑہ میں دہرایا گیا تھا تازہ خبر یہ ہے کہ باڑ لگاکر گوادر شہر کو غیر ضروری افراد کی آمدورفت کیلئے بند کیاجارہا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ جب کسی شہر میں بندرگاہ قائم ہو جہاں امکانی طور پر ہزاروں لوگ کام کرتے ہیں اسے کیسے سیل کیاجاسکتا ہے اگربندرگاہ کمرشل نہیں اسٹریٹجک پورٹ ہے تو بے شک اسے بند کیاجاسکتا ہے اگر اسکی حیثیت کمرشل پورٹ کی ہے تو اسے کیسے بند رکھاجاسکتا ہے لگتا ہے کہ گوادر کے خفیہ ماسٹرپلان کے ابتدائی خاکوں پرعملدرآمد شروع کردیا گیا ہے آئندہ کچھ عرصہ میں واضح ہوگا کہ گوادر کے موجودہ شہر کو خالی کروایا جائیگا یااسے اثارقدیمہ قراردے کر مقامی آبادی کوکہیں اور منتقل کیاجائے گا۔اس بات سے تو سبھی واقف ہیں کہ گوادر سے جیونی تک جو ساحلی پٹی ہے وہ فروخت کردی گئی ہے جہاں عالیشان رہائشی اور کمرشل کمپلیکس تعمیر کئے جائیں گے اگرگوادر میں لوگوں کا داخلہ ممنوع ہوگا تو جیونی کیسے بچے گا جس کا ساحل بہت زیادہ خوبصورت ہے چونکہ یہ مغربی بلوچستان کا نقطہ آغاز ہے لہٰذا یہاں اہم نوعیت کی تعمیرات بنیادی پلان کا حصہ ہونگی۔سنی سنائی خبر ہے کہ پی پی ایل اور اوجی ڈی سی نے ساحلوں پرتیل وگیس کے وسیع ذخائر دریافت کرلئے ہیں لہٰذا ان کی حفاظت کیلئے بھی غیر ضروری آبادی کو دوررکھنا ضروری ہے ویسے بھی باتل پہاڑ کے ایک حصے کو کافی سال پہلے ”ہیمرہیڈ“ قراردیا گیا تھایہ علامتی استعارہ ہے کیونکہ مشرقی یروشلم کی پہاڑی کا نام یہی ہے جو زبور اورتوریت میں بھی درج ہے یہودی عقائد کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس پہاڑی پر اپنے ہاتھوں سے پیاز اور باقلہ کاشت کیاتھا اورزیتون اور سنجد کے درخت اگائے تھے۔یروشلم پرقبضہ کے بعد یہودی ریاست نے سب سے پہلے ہیمرہیڈ پرقبضہ کیا تھا اور وہاں پر فلسطینیوں کونکال کر پہلے باڑ لگائی تھی جس کے بعد یہودیوں کیلئے نئی بستیاں تعمیر کی تھیں معلوم نہیں کہ گوادر کی باتل پہاڑی کو کیابنانامقصود ہے۔یہاں پر جو تعمیرات کی جائیگی یاتفریحی مقامات بنائے جائیں گے جو مقامی ماہی گیروں کیلئے ممنوع قراردیئے جائیں گے جیسے کہ کوئی بھی شخص اجازت کے بغیر ایسٹ میں داخل نہیں ہوسکتا اگر گوادر میں کسی کو داخلہ کی اجازت ملی تو وہ چند ایک مقامی شرفاہونگے جن کی حب الوطنی شک وشبہ سے بالاتر ہوجیسے کہ نوید کلمتی،اشرف حسین،حمل کلمتی اور انکے چند ایک ساتھی حتیٰ کہ سینئرمحب وطن شخصیت رحیم ظفر بھی راہ فراراختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ گنز میں ان کا رہنا ممکن نہیں ہے۔
مجھے یاد نہیں لیکن یہی کوئی 25سال پہلے لکھا تھا کہ میں گوادر کو ”سلام آخر“ پیش کرنے گیا تھا اس وقت لوگ اس بات پر یقین کرنے کوتیار نہیں تھے بلکہ اسے ترقی مخالف سوچ کا غماز قراردیتے تھے لیکن وقت سچ کو آگے لارہا ہے اسی طرح میں نے بلوچ وطن کودرپیش خطرات کے بارے میں جوتحریر میں لکھیں ان کا اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا کہ مستقبل کا مورخ لکھے کہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے ان خطرات کے بارے میں بروقت آگاہ کیا تھا میرے کالم ”نوحہ“ کی حیثیت رکھتے ہیں وہ نوحے جویہودیوں نے فلسطین نے محروم ہونے کے بعد لکھے تھے یا یورپی آبادکاروں کے ہاتھوں اپنی سرزمین چھن جانے کے بعد ریڈانڈین شاعروں نے کہے تھے۔
”نوحہ“ یہودی عقائد کا حصہ ہے حتیٰ کہ انہوں نے دیوار گریہ بھی تعمیر کررکھی ہے جہاں لوگ بڑی تعداد میں جاکر آہ وزاری کرتے ہیں بلوچی کلچر میں زہیروک زہیرہیگ یا لیکو کو کافی اہمیت حاصل ہے جو یہودی روایات سے ملتی جلتی صنف ہے۔
1948ء کے بعد بلوچ مزاحمتی شاعری میں اس صنف کا کافی استعمال ہوا ہے لیکن1958ء سے اب تک کافی شاعری ہوئی ہے البتہ نثر لکھنے سے گریز کیا گیا ہے کیونکہ شاعری پکڑی نہیں جاسکتی۔
2006ء سے مزاحمتی شاعری اس پیمانے پر لکھی گئی ہے کہ اس کا تصور کرنا محال ہے۔
بدقسمتی سے ناگفتہ بہ حالات میں جہاں انسان انکے حقوق اور زیست کاحق متاثر ہوا ہے وہاں پرلٹریچر بھی متاثر ہے جبکہ دانشوروں کی کمی پیدا ہوگئی ہے جو گزشتہ عہد کے دانشور تھے وہ بوڑھے ہوکر صاحب فراش ہوگئے ہیں جبکہ نئے دانشور گنے چنے ہیں۔
اگرمستقبل کامورخ یعنی آنے والا شاہ محمدمری پروفیسر منظور بلوچ اور نصیر دشتی غیرجانبدار ہوئے تو میرے سینکڑوں ”نوحوں“ کا ایمانداری کے ساتھ تذکرہ کریں گے اور آنے والی نسلوں کو بتائیں گے چاہے وہ آزاد حیثیت میں رہ رہے ہوں یا غلامی کی زندگی گزاررہے ہیں کہ آپ کے ساتھ جو کچھ ہوا اس پر خاموشی اختیار نہیں کی گئی بلکہ کھبی بلندآہنگ اور کبھی سسکتی ہوئی آوازوں کے ذریعے ظلم وزیادتی کو اجاگر کیاگیا۔
قوموں کی زندگی میں نامساعد ادوار آتے ہیں اسکی مثال اہل یہود ہے جو2ہزار سال کے مصائب کے بعد1948ء میں پہلی بار اپنی سرزمین پرداخل ہوئے اگرچہ بلوچوں کی ان سے کوئی مماثلت نہیں ہے لیکن حیرت کی بات ہے کہ وہ بھی ہزاروں سال مصائب کے باوجود زندہ ہیں اور ان کی جدوجہد بھی جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں