وزارت‘ ماہرانہ مشاورت اور مذاکرات

تحریر: راحت ملک
عدالتی فیصلے کے بعد حکمران جماعت نے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو وزارت خزانہ کا قلمدان سونپ دیا ہے اب وہ مشیر نہیں رہے بلکہ مکمل وفاقی وزیر ہوگئے ہیں۔عدالتی حکم میں استدلال کیا گیا تھا کہ کہ کوئی مشیر کابینہ کارکن نہیں ہوسکتا ہے نہ وہ کسی کابینہ کمیٹی کی سربرابی کر سکتا ہے۔چنانچہ حکومت نے جناب شیخ کی کرسی بدل دی۔آئین کے مطابق اب انہیں90روز میں پارلیمان کی رکنیت حاصل کرنی ہے۔حکومت کے سامنے دو راستے ہوسکتے ہیں۔اول یہ کہ وہ فوری طور پر صوبہ کے پی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے کسی سینیٹر سے استعفے دلا کر ان کی جگہ جناب شیخ کو سینیٹر بنوائے۔اس کے لئے شاید جناب حفیظ شیخ کا نام صوبہ کے پی کی ووٹر لسٹ میں درج کرانا ہوگا۔بر حال دو سرا راستہ مارچ2021ءتک انتظار کر نے والا ہے جو تین ماہ بعد ہونے ہیں۔پی ڈی ایم سینیٹ کے انہی انتخابات سے قبل صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے لئے جدوجہد کررہی ہے۔قیاس غالب ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں اگر صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہوئیں تو موجودہ وفاقی حکومت بھی برقرار نہیں رہ پائے گی یوں شیخ حفیظ صاحب کا ایک بار پھر سینیٹ آف پاکستان کا معززرکن بننا ممکن نہیں رہے گا۔جناب حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ بنانا حکومت کے لئے کیوں ضروری بلکہ ناگزیر ہے؟
معیشت کے متعلق فیصلوں کے لئے اگر حکومت کو کسی ماہر معیشت دان کی ضرورت ہے توکیا پی ٹی آئی اور اتحادیوں کے پاس ایک بھی ایسا شخص موجود نہیں جو معاشیات کے رموز سے کما حقہ آگاہ ہو؟
یہ سوال اگلے سوال کو جنم دیتا ہے کہ کیا معاشی استحکام وانقلابی تبدیلیوں کے بارے میں حکمران جماعت کے دعوے محض بہلاوے تھے؟
پی ٹی آئی کے معاشی ارسطو جناب اسدعمر کو سمجھایا گیا تھا جنہوں نے 2018ءکے بعد وزیر خزانہ بننے کے بعد اپنی مہارت کا بھر پور مظاہرہ کیا وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے لیے تیار نہیں تھے۔چنانچہ رواں ہفتے میں جناب اسد عمر کی معاشی مہارت پر لطیف طنز کرتے ہوئے جناب عمران خان نے اقرار کیا ہے کہ ” آئی ایم کے پاس جانے میں تاخیر حکومت کی غلطی تھی "
قارئین کی یادداشت کے لئے مکرر عرض ہے کہ جناب عمران خان اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی لندن سے اکنامکس کی تعلیم حاصل کی ہے کیا آکسفورڈ سے فارغ التحصیل اکنامکس کے سند یافتہ شخص بطور بطور وزیراعظم وسیاسی رہنماءملکی معیشت چلانے اور اس کی سمت درست رکھنے کے لئے کسی دوسرے ماہر کا محتاج ہونا چاہیے؟بالفرض اسکی ضرورت ہو تو بھی جناب حفیظ شیخ ہی مرکزٍ انتخاب کیوں؟اور اگر وہی واحد انتخاب ہیں تو پھر ان کی علمی و تجرباتی مہارت سے مستفید ہونے کے لئے انہیں مشیر برائے وزیراعظم بنا کر کام کیوں نہیں چلایا جاسکتا ؟۔محکمہ خزانہ کے سیاہ وسفید کا با اختیار مالک بنانا کیوں ضروری۔بلکہ ع
مجبوری ہے؟ یاد رہے کہ جناب شیخ کو اس وقت مشیر خزانہ بنا کر وزارت خزانہ ان کے سپر د کی گئی تھی جب عمران حکومت نے آئی ایم ایف سے معاشی پیکیج لینے کا فیصلہ کیا تھا اور ابتدائی مذاکرات میں ہی عالمی مالیاتی ادارے نے ملکی معیشت اپنے کنٹرول میں لینے کے لئے اپنے ایک اہم اہلکار کو پاکستان کے امور خزانہ کا نگران بنانے کا حکم دیا تھا۔بعد ازاں سٹیٹ بینک کے لئے گورنر کا عہدہ بلکہ ادارہ بھی اسی عالمی مالیاتی ادارے نے انی گرفت میں لینا لازم قرار دیا تھا۔ اب جبکہ عدلیہ نے مشیر کی کابینہ رکنیت پر قد غن عائد کی ہے تو جناب شیخ کو اسپیشل سیکرٹری خزانہ کے عہدے پر بذریعہ کنٹریکٹ تعینات کرنا حکومت کے لیے زیادہ سہل تھا۔وزیراعظم محکمہ خزانہ کی وزارت خود سنبھال کر اسپیشل سیکرٹری کو محکمہ خزانہ کا مالک ونگران اعلیٰ بناسکتے تھے۔ اس طرح سینیٹر بنانے کے کیکھڑ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ لگتا ہے آئی ایم ایف بلاشرکت غیرے پاکستان کے محکمہ خزانہ پر مکلک کنٹرول چاھتا ہے ایسا نہیں تو پھر انہیں نئی صورتحال میں وزیربنانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ قیاس غالب ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط میں یہ بھی شامل ہو کہ معیشت اور خزانہ پر اس کا براہ راست کنٹرول ہوگا تو قرضے کی قسطیں جاری ہونگی۔۔۔
کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خودکشی کرلوں گا میں اس جان سوز وعدے پر عمل کا قطعی متمنی نہیں لیکن مالیاتی ادارے کے قدموں تلے بچھ جانا۔مستحسن ہرگز نہیں مانتا۔ معروف امریکی لکھاری جان پرکنز کے بقول "آئی ایم ایف کے معاشی غار تگر جہاں تعینات ہوتے ہیں اس ملک میں کبھی معاشی بہتری نہیں آئی”۔پاکستان کی معاشی شرح نمو5.8فیصد سے گر کر منفی چار تک آگئی ہے تو سمجھ لینا چاہیےکہ اس انحطاط کے اسباب کیا ہیں؟۔معاشی انحطاط کی اتنی پستی اور بڑھتی ہوئی آبادی اور بے روز گاری کے درمیان بہت تفاوت ہے جسے عبور کرنا ممکن نہیں۔تاوقتکہ محصولات میں اضافہ اور غیر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی نہ کی جایے۔ رواں دفاعی اخراجات مجہول معیشت نہیں اٹھا سکتی۔ایک مختلف اور صنعتی وتجارتی عمل سے آگاہ اور دوست حکومت کا جلد قیام ہی اس تاریکی میں جگنو کی مثل ملکی معیشت کی امید افزا طور پر سمت متعین کرسکتا ہے۔
پی ڈی ایم تحریک بلا شبہ محدود نقاط پر مبنی سیاسی اتحاد ہے جس کے اغراض و مقاصد میں آئین کی مکمل پاسدار پارلیمان کی بالادستی اور سیاست میں جاری مداخلت کے خاتمے کو یقینی بنا کر از سر نو جمہوری انتخابات کا انعقاد کرانا ہے جس میں کسی قسم کی دھاندلی ہو نہ کسی جماعت کی سرپرستی و مخالفت۔۔ عوام کو بلا خوف وخطر آزادانہ شفاف طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع ملے اور جو پارٹی بھی کامیابی حاصل کر ے اسے اپنی عوامی تائید و حمایت پرمکمل بھروسہ ہو بیساکھیوں کی محتاج نہ ہو تو ممکن ہے ملک درپیش کثیر الجہت سیاسی معاشی عدم استحکام کے چنگل سے نکل پائے۔مذکورہ اغراض ومقاصد ،تمام سیاسی جماعتون کو مواقع دینگے کہ وہ خوش امیدی و عزم کے ساتھ،انتخابی منشور پر عوام کی تائید حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہو۔کامیابی کی صورت میں بلا مداخلت اپنے معاشی نظم کا اطلاق کر ے۔سیاسی سفارتی اورقومی سلامتی کے مسائل حل کرے۔ رواں تجربے والے اقتدار واختیار کی دوئی،یاتقسیم کا خاتمہ ہوگا۔تو ایک مستحکم سیاسی حکومت ہمسائیہ ممالک کے ساتھ بہتر انداز و اعتماد کے ذریعے پر امن طور پر مسائل حل کرپایے گی۔خطے میں استحکام سلامتی اور ترقی کے لئے اسلام آباد میں مکمل بااختیار مقتدر سیاسی حکمرانی انتہائی لازم ہے اب شراکت اقتدار اور پس پردہ کار فرمائی کے حاکمانہ اطوار کے فرسودہ و ناکام تجربے کو خیر باد کہنے کا وقت آن پہنچا ہے۔یہ ہدف اورغائیت عوام کی خوشحالی و آسودہ زندگی کے خواب کی تعبیر کرسکتا ہے تو ملک میں آباد اقوام کو فیصلہ سازی واختیار دینے سے مضبوط وفاقی قومی جمہوری پاکستان خطے میں اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کے دیرینہ خواب کی تعبیر بھی حاصل کرسکتا ہے۔
پی ڈی ایم تحریک احتجاجی جلسوں کے بعد آج لاہور جلسہ میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان وٹائم فریم بھی پیش کرے گی۔اسمبلیوں سے استعفے بارے میں پی ڈی ایم اصولی اتفاق رائے حاصل کرچکی ہے وقت کے تعین کے متعلق اختلاف واتفاق ہوسکتا ہے جمہوری اتحاد کا حوصلہ افزائ پہلو یہی ہے کہ اختلافی حکمت عملی پر گفت وشنید سے حتمی فیصلے کئے جارہے ہیں۔حکومت کا یہ کہنا بعید از عمل ہے کہ وہ ضمنی انتخابات کے ذریعے خالی ہونے والی نشستیں نہ صرف پر کرے گی بلکہ ان پر فاتحانہ قبضہ بھی کر پائے گی کیا عملی سیاست میں کم وبیش نصف ارکان کے استعفوں کے بعد اسمبلیوں کا قائم رہنا ممکن ہوگا؟ جمہوری روایات اس کا جواب نفی میں دیتی ہیں۔
دسمبر1970ءکے انتخابات کے نتائج تسلیم نہ کئے جانے کے خلاف بطور احتجاج عوامی لیگ نے جیتی ہوئی نشستوں سے استعفے دے دیئے تھے فوجی آمر جنرل یحییٰ نے ضمنی انتخابات بھی کر الیئے تھے کیا وہ عوامی لیگ کو سیاسی طور پر مات دے سکے؟ تاریخی سانحہ رونما ہوا اور آمر کی ہٹ دھرمی ملک کا ایک بازو بھی کھا گئی۔
1977ءکے انتخابی معرکے میں7مارچ کے قومی اسمبلی کے نتائج مسترد ہویے اور 10مارچ کو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا گیا تو بھٹو جیسے مقبول وصاحب بصیرت رہنمائ سیاسی حالات کے سامنے ٹھہر نہ پائے۔انہیں جلد دو بارہ عام انتخابات پر آمادہ ہونا پڑا۔یہ الگ بات کہ جنرل ضیائ اور ان کے ساتھی پہلے ہی اقتدار پر قبضہ کا منصوبہ بنا چکے تھے۔پھر جو کچھ ہوا وہ ہماری ملکی تاریخ کا سیاہ تر باب ہے۔1970ءکے تجربے سے سبق نہ سیکھنے کا خمیازہ اسی فرسودہ عمل کا اعادہ کر کے ادا کیا گیا۔اب تک اس کے زخم مندیل نہیں ہوئے۔؛حالیہ تحریک کے نتیجے میں حکومت کے رویے میں کچھ کچھ تبدیلی محسوس ہورہی ہے۔نومبر کے اختتام تک اپوزیشن کو چوروں کا گروہ قرار دیا جارہا تھا جن سے صادق وامین وزیراعظم نے بات چیت کا امکان یکسر مسترد کیا تھا۔اب 13دسمبر تک حکومت تواتر سے انہی چوروں سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کررہی ہے۔لیکن اپنی اس پیشکش میں این آر او نہ دینے کی مینگنی ڈالنے کا سلسلہ بھی جاری ہے دوسری طرف پی ڈی ایم کی تحریک کامیابی کے امکانات کی روشنی میں زیادہ پرعزم ہورہی ہے۔مذاکرات کے سوال پر بحث کے دو رخ سامنے آگئے ہیں۔جناب شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ اب مذاکرات ان سے ہونگے جو اختیارات کے حامل اور سیاست میں مداخلت کے ذریعے اثر انداز ہوتے ہیں۔ذرائع ابلاغ نے اس موقف کو اچک لیا اور پی ڈی ایم کے گران مشر میاں نواز شریف کے بنیادی نقطہ نظر کے برعکس قرار دیا۔بادی النظر میں ذرائع ابلاغ کی بات درست ہے تاہم مفصل تجزیئے میں یہ رائے سیاسی منظر نامے سے لگا نہیں کھاتی۔
اگر پی ڈی ایم حکومت سے مذاکرات کرے اور ایک اتفاق رائے بھی سامنے آجائے تو کیا حکومت فوری طور پر منصفانہ شفاف آزادانہ انتخابات کا اہتمام کر پائے گی؟ لیذا سیاسی مداخلت کے سدباب کے لئے ناگزیر طور پر طاقت کے صنم گر حلقے سے بات چیت کرنی ہوگی۔
حالات جس سمت آگے بڑھ رہے ہیں وہ ملکی تاریخ میں منفرد نوعیت کا واقعہ ہے قبل ازیں حکومت کے خلاف بننے والے سیاسی اتحاد طاقت کے اشارہٍ ابرو کا نتیجہ یا سرپرستی کے زیر سایہ کام کرتے تھے۔پی ڈی ایم۔۔ایم آر ڈی کے بعد قائم ہونے والا دوسرا اتحاد ہے جسے اسٹیبلشمنٹ کی معاونت میسر نہیں۔ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران اسٹیبلشمنٹ براہ راست حکمران تھی مارشل لاءاور فوجی عدالتیں موجود تھیں قانون شہنشاہ وقت کی خواہش کا نام تھا۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے اور اب براہ راست فرنٹ فٹ پر آنا شاید اب اد کے لیے ممکن نہیں۔پی ڈی ایم گو کہ حکومت کی نااہلیوں پر تنقید کررہی ہے لیکن دراصل وہ موجودہ سلیکٹڈ حکومت کی کاکردگی کی ذمہ داری سلیکٹرز پر عائد کرتی ہے۔گران مشر میاں نواز شریف اور واجہ مولانا فضل الرحمان کا بیانیہ جتنا واضح دو ٹوک ہے اسی نسبت سے گہرائی میں متاثر کرنے والا ہے۔سائیں بلاول بھٹو زرداری کے لب ولہجہ میں موجودہ تلخی پیپلزپارٹی کے ماضی کی عکاس ہے لیکن گودی مریم نواز کا انداز بیان مسلم لیگ کے دہائیوں پرانے سیاسی کلچر سے قطعی مختلف ہے سیاسی مزاحمت کی بڑھتی تحریک کے اسباب ہیں جو حل طلب ہیں۔تحریک نے دو راستے واضح کردیئے ہیں۔
الف۔۔قومی جمہوری تحریک کے نتیجے میں فوج اور عدلیہ سیاسی مداخلت سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہوجائیں۔اس کے لئے ضروری ہے کہ عوامی دبا? میں اتنی شدت توانائی اور قوت موجود ہو کہ مذکورہ دونوں ادارے اپنے اپنے کردار سے رجوع کرنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اور وہ خود قومی تحریک کے قابل اعتماد بھروسہ مند سیاسی عمل کو راستہ دیں اس کی فطری سیاسی حرکبات کے مطابق پارلیمان میں آئینی ذرائع بروئے کار لانے کا آزادانہ ماحول مہیا کریں. پھر جیسے ہی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تعاون آئینی حدود و تقاضوں تک محدود ہوا تو اپوزیشن پارلیمانی طریقہ اختیار کرنے پر آمادہ ہوسکتی ہے جس سے لانگ مارچ اسلام آباد میں دھرنے اور اس کے حوالے سے سیاسی انار کی اور کرونا وبائ کے سدباب کا امکان روشن ہوجائے گا۔اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کے لئے پی ڈی ایم کا غیر متزلزل عزم نمایاں ہو کر سامنے آگیا ہے۔دریں حالات بحران سے بچنے کے لئے حکومت مستعفی ہو کر پارلیمان میں بلا مداخلت نئی وسیع البنیاد حکومت سازی کے لئے پی ڈی ایم کو اعتماد میں لے بات چیت کرے جس میں نئے انتخابات کا فیصلہ ہو ان تمام شکوک اور تنازعات ختم کر نے کے لئے آئینی اصلاحات انتظامی اقدامات اور الیکشن کمیشن کی آزادی فعالیت و موثر کردار کو مستحکم کرنے کا عمل شروع ہوسکتا ھے
وہ حلقے جو اپوزیشن کے رہنماﺅں کی جانب سے اصل حکمران اور طاقت کے مرکز سے ہی بات چیت کے بیان کو عسکری ادارے کو سیاست میں ملوث کرنے کی دعوت کے مترادف سمجھتے ہیں کیا وہ چاہتے ہیں کہ قومی تحریک اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان براہ راست ٹکراﺅ ہوجائے؟اگر ان کے اعتراض کی غرض و غایت یہ نہیں تو پھرانہیں اپنی تنقید کی سمت درست کرنی چاہیے کہ اپوزیشن کے موقف کا مقصد و مدعا سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کو ملوث کرنے کے بر عکس اس کے کردار کو ختم کرنا ہے یہ مقصد بات چیت کے کسی مرحلے میں طے ہو جائے تو یقینا یہ بات قابل تحسین ہے جس پر ملامت کی بجائیحمایت کی جانی چاھییکہ اہل دانش کا وزن سریع الحرکت اثرات و فوائد لاسکتا ہے۔