بنگلہ دیش کل اور آج

تحریر:صباح الدین صبا
پاکستانی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور وقت کی منفرد بین الاقوامی صورتحال میں آج سے 49 برس پہلے نوزائیدہ ملک بنگلہ دیش بھارتی توسیع پسندوں کی جھولی میں جا گرا تھا۔ اور عمومی قوم پرست رحجان اور بعض بنگالی رہنماﺅں کی دانشمندی کے باوجود کوئی تصور نہ کر سکتا تھا کہ بنگلہ دیش بھارت کے دائرہ اثر سے کسی حد تک بھی الگ ہو سکتا ہے۔ لیکن تاریخ کے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ 49 سال بعد آج صورتحال تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ یہ کہنا شاید درست نہ ہو کہ بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان دوستانہ تعلقات نہ رہے۔ اور یہ کہنا بھی قبل از وقت ہو گا کہ بنگلہ دیش بھارت کے حلقہ اثر سے باہر نکل آیا ہے۔ بنگلہ دیش کے قیام میں بھارت کے فعال معاون کردار کو فراموش کرنا کم از کم عوامی لیگ کی حکومت کے بس کی بات نہیں۔ لیکن انتہائی محتاط طریقے سے ایک بات کہی جا سکتی ہےکہ آج بنگلہ دیش” فرخا بیراج اور ٹیسٹا تنازعات“ کے بعد عالمی توازن قوت میں تبدیلی اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی آزادی اور خود مختاری برقرار کرنے کیلئے تیار ہوتا نظر آرہا ہے۔ اور وہاں اس بات پر اتفاق رائے نظر آتا ہے کہ بنگلہ دیش کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں آزاد ہے۔ معروف بنگلہ دیشی سفارتکار ہمایوں کبیر کا کہنا ہے کہ
"Since 2016 China has Consistantly supported Bangladesh financially. As a result Dhaka’s relation with Beiging have naturally strengthened over the last four years”
بنگلہ دیش اور عوامی جمہوریہ چین کے تعلقات ماضی میں اچھے نہیں تھے۔ چین نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی حمایت نہیں کی تھی لہٰذا دونوں ملکوں کے درمیان رشتے میں غیر معمولی کشیدگی منطقی تھی۔ اب ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تبدیلی نہ اچانک ہے نہ ہی خود کار طریقے سے آ گئی ہے۔ انتہائی نا مساعد حالات میں بھی صورتحال کو بہتر بنانے کی کوششیں جاری تھیں۔ خاص طور سے 1987میں معروف کمیونسٹ رہنما محمد طحہٰ کی قیادت میں ایک وفد کے دورہ چین کو اس سلسلے میں موثر اولین قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد سے بائیں بازو کے رہنماﺅں اور وفود کے تواتر کے ساتھ چین کے دورے ہوتے رہے خاص طور سے سابق طالبعلم رہنماءراشد خان مینن اور کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش کے جنرل سیکریٹری دلیپ بروا کے چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ قریبی اور متحرک رابطوں نے حالات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج سے 49 سال قبل 16 دسمبر 1971ءکو سقوط ڈھاکہ یا قیام بنگلہ دیش عمل میں آیا۔ سابق مشرقی پاکستان ، پاکستان کی اکثریتی آبادی کا گھر تھا اور اس اعتبار سے یہ ایک منفرد واقعہ تھا کہ کسی ملک کے چھوٹے نہیں بڑے حصے نے علیحدگی حاصل کی۔ یہ واقعہ اس حوالے سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ڈھاکہ کا شہر ہی تھا کہ جہاں 1906ءمیں پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تھا۔ بنگلہ دیش کے بانی اور پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان تحریک پاکستان کے متحرک رہنماﺅں میں سے تھےاور اپنی اس پوزیشن پر وہ کبھی شرمندہ نہ ہوئے۔
ایک ممتاز برطانوی صحافی جیک اسمتھ جو شورش کے دنوں میں بطور صحافی خطے میں موجود تھے انھوں نے بعد ازاں اپنی ایک کتاب میں تحریر کیا کہ بھارت اور پاکستان کی حکومتیں بالترتیب مغربی بنگال اور مشرقی پاکستان کی صورتحال سے پریشان تھیں اور خاص طور سے مشرقی پاکستان کی تیزی سے خراب ہوتی صورتحال مغربی بنگال کی نکسل تحریک سے ان کے فعال رابطے اور مشترکہ کاروائیاں دونوں ممالک کیلئے درد سر بنے ہوئے تھے۔ برطانوی صحافی کے مطابق سابق مشرقی پاکستان میں بائیں بازو کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو ختم کرنا حکومت پاکستان کی اولین دلچسپی تھی۔ اور دونوں ملکوں کے درمیان یہ طے تھاکہ جب تک مشرقی پاکستان کی صورتحال پاکستانی انتظامیہ کی دسترس میں رہی ٹھیک ہے بصورت دیگر بھارت یہاں فوجی کاروائی کرنے پر مجبور ہو گا کیونکہ مشرقی پاکستان بنگال کے بائیں بازو کے انقلابیوں اور مغربی بنگال کے نکسل عناصر کے درمیان بڑھتا ہوا اشتراک نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت کیلئے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔
بنگلہ دیش کی تحریک آزادی میں شریک بعض عناصر نے آزادی کے بعد اپنی تحریروں میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ ان کی طرف سے پوری جنگ سے قبل بھارتی مداخلت کے ذریعے بنگلہ دیش کے قیام کو وہ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور ان کے خیال میں قبل از وقت آزادی دراصل بنگلہ دیشی عوام کی حقیقی آزادی اور اس کے ثمرات کو زائل کرنے کی سازش ہے۔
بہر حال بنگلہ دیش کے قیام سے علاقے میں بھارتی بالادستی مظبوط ہوئی مغربی بنگال کی نکسل تحریک کے ممتاز رہنماﺅں کو پھانسی دے دی گئی اور تحریک کو دبا دیا گیا۔ بنگلہ دیش کے پہلے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمان نے بھارتی بالادستی کو قبول کیا اور ملک کے اندر بائیں بازو کے عناصر کےخلاف سخت گیر رویہ اختیار کیا اور خارجہ پالیسی میں بھارت اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو اہمیت دی۔ عوامی جمہوریہ چین نے تحریک آزادی میں ان کا ساتھ نہیں دیا تھا بلکہ پاکستان حکومت کے ساتھ کھڑا رہا تھا۔ لہٰذا عام تاثر تھا کہ چین اور بنگلہ دیش کے درمیان معمول کے تعلقات شائد بحال نہ ہو سکیں۔ خاص طور سے اس وجہ سے بھی کہ بھارت اپنی علاقائی بالادستی کی راہ میں چین کو اہم رکاوٹ تصور کرتا ہے۔ حکومتوں میں تبدیلی کے ساتھ بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آتی رہی۔ عام تاثر کے مطابق عوامی لیگ بھارت کے ساتھ جبکہ بی این پی بھارت مخالف تھی۔ اس میں شبہ نہیں کہ بی این پی کے دور حکومت میں چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں اس سلسلے میں 2009ءکے عام انتخابات اور ان کے نتیجے میں جیتنے والی بائیں بازو کی جماعتوں اور ان
کی حکومت میں شراکت داری نے چین کے حوالے سے بنگلہ دیش میں موجود ماحول کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ان انتخابات میں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے ایک 14 جماعتی اتحاد کے پلیٹ فارم سے حصہ لیا۔ جس میں کمیونسٹ پارٹی آف بنگلہ دیش ( ایم – ایل ) اور ورکرز پارٹی آف بنگلہ دیش بھی شامل تھیں۔ انتخابات میں کامیابی کے بعد بائیں بازو کی یہ دونوں جماعتیں حکومت کا حصہ بنیں۔ کمیونسٹ پارٹی ( ایم – ایل ) کے چیئرمین دلیپ بروا حکومت کے وزیر صنعت تھے۔ انھوں نے چین بنگلہ دیش تعلقات کے فروغ کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ دلیپ بروا نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ کی قیادت میں چین نے بے مثال ترقی کی ہے۔ چینی عوام کا معیار زندگی بہتر بنا ہے جس کی پوری دنیا معترف ہے۔ انھوں نے چینی کمیونسٹ پارٹی کی سیاسی استقامت ، نظری بلوغت، علمی و دانش کے اعلیٰ معیار کو سراہا۔ حال ہی میں ڈھاکہ میں چائنہ سلک روڈ فورم قائم کیا گیا ہے جس کے چیئرمین دلیپ بروا ہیں۔ دلیپ بروا بائیں بازو کے تجربہ کار رہنماء ہیں۔ وہ 1970ءمیں اپنے زمانہ طالبعلمی میں ایسٹ پاکستان اسٹوڈنتس یونین کے رہنماءتھے۔ بنگلہ دیش کی کابینہ کے ایک اور رکن راشد خان مینن جو اس وقت سماجی بہبود کے وزیر ہیں انھوں نے چین میں اصلاحات اور کھلے پن کی پالیسی کی 40 ویں سالگرہ کے موقع پر چین کی کامیابیوں پر مبارکباد دی اور کہا کہ بنگلہ دیش اس کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے۔ راشد خان مینن نے چین کے موجودہ صدر ڑی جن پنگ کی قیادت اور کامیابیوں کو خاص طورسے خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے چینی خصوصیات کےحامل چینی سوشلسٹ نظام کو خاص طور سے سراہا۔ بنگلہ دیشی وزیر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ چین چھوٹے ملکوں کو غربت دور کرنے میں مدد دے گا۔ انھوں نے صدر ڑی جن پنگ کے عالمی ویڑن کی تعریف کی اور کہا کہ بی اینڈ آر منصوبہ انسانوں کی مشترکہ ترقی کا منصوبہ ہے۔ جو بنگلہ دیش سمیت دنیا بھر کے ملکوں کے عوام کی آرزوﺅں کو پورا کرنے میں معاون ہو گا۔ راشد خان مینن موجودہ حکومت کے وزیر صنعت بھی رہ چکے ہیں۔ انھوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز طالبعلم سیاست سے کیا تھا اور وہ ایسٹ پاکستان اسٹوڈنٹس یونین کے انتہائی مقبول سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ ورکرز پارٹی آف بنگلہ دیش کے چیئرمین ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 2009ئ کے بعد عوامی لیگ نے بعض دائیں بازو کے انتہا پسند قوم پرستوں کو پیچھے دھکیل کر بنگلہ دیش کے بائیں بازو کے ساتھ تعلقات استوار کئے اور ان رہنماﺅں نے بھی 1971ءی جنگ میں ہونے والے نقصان کا ازالہ کرنے میں فعال اور دانشمندانہ کردار ادا کیا۔ جس کے بعد آج بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی یکسر تبدیل نظر آ رہی ہے۔ اور خود وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد بھی چین کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا قومی مفاد میں ضروری سمجھتی ہیں۔ بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات پر سب سے زیادہ شکوک و شبہات خود بھارتی ذرائع ابلاغ پیدا کر رہے ہیں۔ حالانکہ بنگلہ دیش کی قیادت نے واضح طور پر کہا ہے کہ آج کی بدلی ہوئی دنیا میں کوئی ملک کسی ملک سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ اور خاص طور سے بنگلہ دیش کا تیزی سے بڑھتی ہوئی چینی معیشت سے خود کو الگ تھلگ کرنا ممکن نہیں تاہم اس کا یہ مطلب نہیں کہ بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی قیمت پر یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ بہر حال بھارتی صحافی پرناب رنجن چکروتی نیو انڈین ایکسپریس میں ” بنگلہ دیش بھی چین کے ریڈار پر ” کے عنوان سے مضمون لکھا ہے۔ ہندوستان ٹائمز نے اپنے اداریہ ” فوکس آن بنگلہ دیش ” میں خبردار کیا ہے کہ بھارت اپنی ناقص پالیسیوں کے باعث ایک پڑوسی دوست کو کھو رہا ہے۔ بنگلہ دیشی رہنماﺅں اور میڈیا نے بھارتی حلقے کی جانب سے شکوک و شبہات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کے لوگوں نے اس سلسلے میں قطعی Pragmatic رویہ اختیار کیا ہے۔ ان کا عام طور پر یہ موقف ہے کہ چین سے تعلقات میں بہتری کا یہ مطلب اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کے ساتھ ان کی خصوصی دوستی میں کوئی فرق آ رہا ہے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کی پروفیسر لیلوفر یاسمین کا کہنا ہے کہ
” بنگلہ دیش کی ایک آزادانہ پالیسی ہونی چاہئے۔ تا کہ یہ بھارت ،چین ، امریکہ اور دیگر قوتوں سے الگ الگ معاملات کر سکے۔ "
جہانگیر نگر یونیورسٹی کے استاد شہاب انعام خان کا موقف ہے کہ ” بیرونی تعلقات جذباتی بنیادوں پر استوار نہیں ہوتے بلکہ انھیں قومی مفاد کے مطابق ہی مرتب کیا جاتا ہے۔ "
ممتاز سفارتکار اور امریکہ میں بنگلہ دیش کے سابق سفیر ہمایوںکبیر نے کہا ہے کہ ” 2016ءسے چین بنگلہ دیش کو مسلسل معاشی امدادا فراہم کر رہا ہے۔ جس کے نتیجے گذشتہ چار برسوں میں ڈھاکہ کے بیجنگ کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔
تاہم بھارت میں بنگلہ دیش کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات پر عدم اطمینان ہے۔
معروف بھارتی اخبار روزنامہ ” ہندو ” لکھتا ہے کہ 2019ئ میں بنگلہ دیشی وزیر اعظم کے از سر نو منتخب ہونے کے بعد سے تمام بھارتی منصوبے معطل کر دیئے گئے ہیں اور بنگلہ دیش تمام اہم منصوبوں کے ٹھیکے چینی کمپنیوں کو دے رہا ہے۔ ” یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں آئین کی شق 370 اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے علاوہ بھارت میں شہریت کے نئے قانون اور مسلم اقلیت کے خلاف فسادات پر بنگلہ دیشی حکومت خاص طور سے وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد نے بھارتی پالیسیوں پرکھل کر نکتہ چینی کی ہے۔ بھارت کو بنگلہ دیش کے قیام میں اپنے کردار کے باعث ہمیشہ سے یہ گمان رہا ہے کہ کسی بھی صورت میں اس سے دور نہیں جا سکتا۔ اور خاص طورسے بنگلہ دیش کی چین کے ساتھ بڑھتی ہوئی قربت اس لیئے بھی ان سے ہضم نہیں ہوئی کہ چین کے ساتھ بنگلہ دیش کے تعلقات ہمیشہ سے خوشگوار نہیں تھے۔ چین نے 1971ءمیں بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کی حمایت نہیں کی تھی۔ لیکن بھارتی حکمران بھول گئے کہ اکیسویں صدی معیشت کی صدی ہے۔ آج دنیا بدل رہی ہے۔ اور بنگلہ دیش سمیت کسی ملک کے لیئے خطے میں ہونے والی تبدیلیوں سے الگ تھلگ رہنا ممکن نہیں ہے۔ آج اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بنگلہ دیش کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر بھارت نہیں چین ہے۔ بلکہ چینی حکام بنگلہ دیش کو اہم اسٹریٹجک پارٹنر قرار دیتے ہیں۔اور بنگلہ دیش بھی چین کو قابل اعتماد اتحادی اور ہر موسم کا دوست قرار دیتا ہے۔ بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی دعوت پر چینی کمپنیاں بنگلہ دیش کے اسپیشل زونز میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں جبکہ چاٹگام کے قریب چینی کمپنیوں کیلئے ایک خصوصی اکنامک زون تعمیر کیا جا رہا ہے۔ چین اپنے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت بنگلہ دیش میں 24 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش میں چینی سرمایہ کاری کا کل حجم 38 ارب ڈالر بتایا جاتا ہے۔ چین روہنگیا مسلمانوں کی امداد اور وطن واپسی میں بھی بنگلہ دیش کی مدد کر رہا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش نہ صرف چین بلکہ پاکستان سے بھی اپنے تعلقات بہتر بنا رہا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان اور بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے درمیان ٹیلی فونک رابطے کو بھی بھارتی سفارتی حلقے میں تشویش کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان کے تجارتی تعلقات بھی بحال ہو چکے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ آج کی بدلتی ہوئی دنیا میں علاقائی تعاون کے تناظر کو خطے میں امن اور ترقی کے حوالے سے کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ بھارت سمیت تمام ممالک کے درمیان اچھے تعلقات جنوبی ایشیاءاور پورے خطے کیلئے سود مند ہوسکتے ہیں۔ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر زمینی حقائق کو فراخ دلی سے تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کیلئے بنگلہ دیش کی خارجہ پالیسی میں سیکھنے کیلئے بہت کچھ موجود ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں