سیاسی بازیگری

تحریر: انورساجدی
یہ پہلا موقع ہے کہ حکومت کی پروپیگنڈہ مشنری لاہور جلسہ کے حوالے سے اپوزیشن پر حاوی رہی حکومت نے تمام ٹی وی چینلوں اور میڈیا ہاؤسز کواپنے زیر اثر لاکر جلسہ سے پہلے پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ عوام نے جلسہ میں شرکت نہیں کی یہ بات اس حد تک صحیح ہے کہ اجتماع اتنا بڑا نہیں تھا جتنا 10اپریل1986ء کو بینظیر کی وطن واپسی کے موقع پر تھا یا حال ہی میں جتنے لوگوں نے علامہ خادم رضوی کے جنازہ میں شرکت کی اتنی تعداد ن لیگ کے جلسہ میں نہیں آئی اس کی کئی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ ن لیگ کی تنظیمی کمزوری ہے لگتا ہے کہ اس کے حامی دودھ پینے والے مجنوں ہیں وہ سختی برداشت کرنے اور حکومت سے لڑنے کے عادی نہیں ہیں دوسری بات یہ ہے کہ کئی حوالوں سے ن لیگ کی صفوں میں ہم آہنگی نہیں ہے خاص طور پر اسکے اراکین پارلیمنٹ استعفوں،ایجی ٹیشن،گھیراؤ جلاؤ،لانگ مارچ اور دھرنوں کے حق میں نہیں ہیں حکومت کی کوششوں سے سب سے بڑی اپوزیشن جماعت میں صوبہ سے لیکر مرکزی سطح پر فارورڈ بلاک بن چکا ہے جس دن لانگ مارچ کا آغاز ہوگا اس سے ایک دن یا ایک ہفتہ پہلے کئی ارکان بغاوت کا اعلان کردیں گے ایسی ہی صورتحال کا سامنا پیپلزپارٹی کو بھی کرنا پڑے گا۔جلسہ اگرچہ بڑا تھا لیکن توقعات کے مطابق نہیں تھا اس کی ایک وجہ پیپلزپارٹی کی دوغلی پالیسی تھی کیونکہ پارٹی جلسہ میں اتنے لوگ نہیں لائی جو گوجرانوالہ،ملتان یا کراچی میں لائی تھی اس کا ایک بنیادی سبب یہ تھا کہ اس جلسہ کی آرگنائزر ن لیگ تھی اور پیپلزپارٹی دکھانا چاہتی تھی کہ یہ دعویٰ غلط ہے کہ لاہور ن لیگ کا گڑھ اور سیاسی قلعہ ہے اگر پیپلزپارٹی25ہزار لوگ بھی لاتی تو حکومت کو جلسہ چھوٹا ہونے کا طعبہ دینے کا موقع نہ ملتا۔
چلیئے جلسہ ہوگیا پی ڈی ایم نے اعلان لاہور جاری کیا ہے جس میں کوئی جامع پروگرام شامل نہیں ہے صرف اراکین کے استعفے جمع کرنے کی تاریخ31دسمبر مقرر کی گئی ہے جبکہ لانگ مارچ کیلئے کوئی تاریخ مقرر نہیں کی گئی ہے البتہ حکومت کو الٹی میٹم دیا گیا ہے کہ وہ31دسمبر تک مستعفی ہوجائے اگرچہ یہ سیاسی حربے ہیں لیکن ابھی تک ایسا دباؤ دیکھنے میں نہیں آرہا کہ حکومت ڈر کر استعفیٰ دیدے۔ مولانانے لاہور جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جہاں ایک طرف طاقتور حلقوں سے گزارش کی کہ وہ تحریک انصاف کا ساتھ چھوڑدیں اور انکی دستگیری کریں دوسری جانب انہوں نے تڑی لگائی کہ اگرتحریک انصاف کی حمایت جاری رکھی گئی تو تحریک کو اس نہج پرلے جایاجائیگا کہ عوام اور مقتدرہ ایک دوسرے کیخلاف صف آرا ہوجائیں بعض ناقدین اس دھمکی کو بھی ملی بھگت کا نتیجہ قرار دیتے ہیں کیونکہ مولانا بتاچکے ہیں کہ انہوں نے اپنا پہلا دھرنا ان لوگوں کی اس یقین دہانی پر ختم کیا تھا کہ گزشتہ مارچ میں نئے انتخابات کروائے جائیں گے انہوں نے یہ بھی صاف بتادیا کہ انکودھوکہ دیا گیا لیکن اس دھوکہ کے باوجود مولانا نے کبھی رابطے نہیں توڑے اور کوشش جاری رکھی کہ کچھ نظر کرم ادھر بھی کیجئے سوال یہ ہے کہ پہلے دھوکے کے باوجود اس مرتبہ کونسی یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ مولانا دوبارہ رسک لینے چلے ہیں بلاول اور مریم کو یہ یقین کس نے دلایا ہے کہ جب مارچ اسلام آباد میں داخل ہوگا تو وزیراعظم استعفیٰ ان کی نذر کردیں گے ظاہر ہے کہ جب دو پہلوانوں میں مقابلہ ہوتو دونوں طرف سے داؤ پیچ استعمال ہونگے اپوزیشن کے پاس واحد حربہ یہ ہے کہ لانگ مارچ اور دھرنے میں لاکھوں لوگ شرکت کریں لیکن فروری میں جب مارچ ہوگا تو اسلام آباد میں بارش اور سردی ہوگی اس موسم کا مقابلہ پی ڈی ایم کے کارکن کیسے کریں گے یعنی وقت کا انتخاب درست نہیں ہے لیکن پی ڈی ایم کی مجبوری یہ ہے کہ مارچ میں سینیٹ کے الیکشن ہونے ہیں اگر اسکے اراکین نے استعفے اسپیکر کے پاس جمع نہیں کروائے تو تحریک انصاف اکثریت لے جائے گی۔جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم نہ گھر کارہے گا نہ گھاٹ کا چونکہ اس وقت مولانا اور مریم بی بی پرجوش کا جذبہ طاری ہے اس لئے وہ ہوش سے کام لیکر صحیح فیصلے کرنے سے عاری ہیں ہاں اگر انہیں پیچھے سے اہم قوتوں کی حمایت حاصل ہے تو یہ الگ بات ہے کیونکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ 1988ء سے اب تک ہرمرتبہ جب بھی تبدیلی لائی گئی وہ انہی قوتوں کے ذریعے لائی گئی اور جب بھی انتخابات ہوئے نتائج انہوں نے مرتب کئے ابھی اتنی جمہوریت اور بالغ نظری نہیں آئی کہ چند ہزار لوگ اسلام آباد جاکر انقلاب لائیں دباؤ بڑھانے کیلئے لندن میں مقیم ن لیگ کے سپریم لیڈر میاں نوازشریف پہلی بار مقتدرہ کو نہ صرف کھلم کھلا چیلنج دے رہے ہیں بلکہ نام بھی لے رہے ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ میاں نوازشریف اس دوران خفیہ مذاکرات بھی کررہے ہیں اس طرح کے مذاکرات دراصل لوہے کو ٹھنڈا کرنے کا پرانا طریقہ ہے افسوس کہ لوہار ہونے کے باوجود میاں نوازشریف اس حربہ کوسمجھنے سے قاصر ہیں مولانا کو سوچ سمجھ کر اپنالائحہ عمل طے کرنا چاہئے کیونکہ ان کی موجودہ تحریک ناکام ہوگئی تو ساری اپوزیشن کو ڈھائی سال تک نئے انتخابات کا انتظار کرنا پڑے گا یہ اتنی زیادہ مدت ہے کہ ن لیگ سمیت کئی جماعتیں اپنی موجودہ سیاسی طاقت اور مقبولیت کھوبیٹھیں گی اور یارلوگ آئندہ انتخابات میں نئے کھلاڑی میدان میں اتاردیں گے انکے سامنے واحد رکاوٹ پی ڈی ایم کی موجودہ تحریک ہے اگر یہ تحریک ناکام ہوگئی تو وہ آسانی کے ساتھ مستقبل کا پلان تشکیل دیدیں گے جہاں تک تحریک انصاف کی حکومت کاتعلق ہے تو اس کی سب سے بڑی کمزوری اس کی بیڈگورننس،معاشی نالائقی،بیروزگاری اور مہنگائی ہے یہ بات یقینی ہے کہ منتظمین آئندہ انتخابات تک اس جماعت کا زہر بھی نکال دیں گے اور اسے زیادہ سے زیادہ اس حد تک زندہ رکھیں گے جس طرح کہ ق لیگ کو رکھا ہے اس تناظر میں کہا جاسکتا ہے کہ اس ملک میں ایک نیاکھیل شروع ہوگیا ہے جو سیاسی فریق ہیں وہ استعمال میں لائے جارہے ہیں۔
اگر موجودہ نااہل حکومت سے جان چھڑانی ہے تو یہ مقصد بھی حاصل ہوجائے گا اگر پی ڈی ایم کا زہر نکال کر اسے ناکارہ بنانا ہے تو یہ مطلب بھی پورا ہوجائے گا جہاں تک سیاست میں عدم مداخلت یا آئین کی کامل بالادستی کاتعلق ہے تو یہ منزل ہنوز دوراست اس کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک نیامیثاق بنانا پڑے گا اور سوگند اٹھانا پڑے گا کہ وہ اس مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے بلکہ اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے چاہے اس کے لئے ڈی چوک کی بجائے کہیں اور دھرنا کیوں نہ دینا پڑے۔یہ وقتی اقتدار جو کبھی سیاسی رہنماؤں کومنتقل نہیں ہوتا بے کار ہے اگر ریاست کی سمت طے کرنی ہے اور1973ء کے آئین پر عملدرآمد کروانا ہوتو اس کے لئے طویل جدوجہد درکار ہے اس سلسلے میں محمود خان اچکزئی،اختر مینگل نیشنل پارٹی اور اے این پی کا موقف واضح ہے تاہم دو نام نہاد بڑی جماعتوں پرزیادہ بھروسہ نہیں کیاجاسکتا اگر انہیں دوبارہ حکومت ملنے کی توقع ہو تو وہ جُل دینے اور سمجھوتے کرنے میں دیر نہیں کریں گی۔حالیہ معاملات میں اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ تاش کے سارے پتے زرداری کے ہاتھ میں ہیں پی ڈی ایم کی تحریک کو ناکام بناناہو یا حکومت کو مزید دباؤ دینا ہو سب سے اہم رول زرداری ادا کرسکتے ہیں۔
وہ پہلاپتہ اس وقت پھنکیں گے جب استعفے اسپیکر کے پاس جمع کرنے ہوں اگر انہوں نے سندھ اسمبلی تحلیل کرنے اور استعفے جمع کرنے سے انکار کردیا تو پی ڈی ایم کی تحریک اسی دن دفن ہوجائے گی حالانکہ اس وقت زرداری اور نوازشریف روز ٹیلی فون پر لمبی گفتگو کرتے ہیں لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے مخلص ہیں یہ سیاست کی بازی گری ہے ہر ایک کے اپنے مقاصد اور اہداف ہیں تاہم اگر اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا تو کئی دہائیوں تک اس ملک میں نہ جمہوریت آسکتی ہے اور نہ آئین کی بالادستی قائم ہوسکتی ہے۔
سرداراخترمینگل نے مینار پاکستان کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے میرگل خان نصیر کاشعر پڑھا ہے یہ انقلابی شعر ہے جو1960ء کی دہائی میں انہوں نے لکھا تھا جب ایوبی مارشل لاء کے مظالم عروج پر تھے قلات اور دیگر علاقوں پر فوج کشی جاری تھی تو قلی کیمپ جانے کے بعد انہوں نے یہ اشعار کہے تھے ایوب خان نے ظلم کے جوپہاڑ توڑے تھے ان میں ڈیموگرافک تبدیلی شامل نہیں تھی۔لیکن جنرل پرویز مشرف الدین احمد دہلوی نے جو ہجرت کی حساسیت سے واقف تھے بلوچستان میں ڈیموگرافک تبدیلی کا منصوبہ بنایا انہوں نے نہ صرف ترقیات کی آڑ میں ساحل ووسائل پر قبضہ کیا بلکہ آبادکاری کاایک تفصیلی پلان بھی بنایا جس پرعملدرآمد تیزی کے ساتھ جاری رہے اختر مینگل اور مالک بلوچ کو چاہئے کہ وہ اسکے خلاف جدوجہد کریں اپنے عوام کو متحرک کریں اور آبادی کے توازن کو بگاڑنے کی کوشش ناکام کریں محترم محمود خان جو مظلوم قوموں کے حقوق کے علمبردار ہیں بلوچوں سے لاکھ اختلاف کریں مگر اس منصوبہ کیخلاف آواز اٹھائیں محمود خان ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں سکے کہ افغان مہاجرین انکے ووٹر نہیں بن سکے نہ آئندہ بنیں گے لیکن وہ زیادتی کیخلاف آواز نہیں اٹھائیں گے تو قوموں کے حقوق کیلئے انکے سارے دعوے باطل ہوجائیں گے۔
چند سال قبل کی بات ہے کہ محمود خان نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تمہارا گوادر گیا میں نے کہا جی خان صاحب کہنے لگے میں اسے بچاسکتا ہوں میں نے کہا کہ روکا کس نے ہیکہا کہ آپ مجھے آدھا حصہ لکھ کردیں تو میں بچاؤں گامیں نے کہا خان صاحب آپ آدھا حصہ سردارعطاء اللہ مینگل سے لکھوالیں کہنے لگے اگر آپ بھی لکھ دیں تو قبول ہے میں نے کہا کہ آدھا کیوں آپ پورا بلوچستان لے لیں لیکن ایک شرط ہے اس وقت جو تحریک چل رہی ہے آپ اس کی قیادت کریں جب بلوچستان مل جائے تو پورا لے لیں کہنے لگے تم شیطان ہو مجھے مروانا چاہتے ہوایک مرتبہ سردارصاحب نے کہا کہ یہ محمود خان بڑا سادہ آدمی ہے سارا پاکستان پنجاب سے حقوق مانگ رہا ہے یہ بے چارہ محکوم بلوچوں سے حق طلب کررہاہے

اپنا تبصرہ بھیجیں