ایک دن دوسانحے

تحریر: انورساجدی
نہایت اطمینان کی بات ہے کہ پاکستانی عوام سقوط ڈھاکہ کے سانحہ کو بھول چکے ہیں حکمران تو جنگی قیدیوں کے واپس آنے کے بعد ہی یہ واقعہ فراموش کرگئے تھے اس لئے انہوں نے کبھی بھولے سے بھی یاد نہیں کیا کہ16دسمبر1971ء کو ڈھاکہ کے تاریخی پلٹن میدان میں کیا ہوا تھا اتفاق سے کسی نے بی بی سی کی ایک آڈیو ریکارڈنگ فیس بک میں ڈالی تھی جس میں مشرقی کمان کے کمانڈر پاکستان دولخت ہونے کے ایک دن پہلے یعنی15دسمبر کو غیر ملکی میڈیا نمائندوں کے سامنے کہہ رہے تھے کہ ”ہم لڑیں گے“ آخر تک لڑیں گے ڈھاکہ کی گلی گلی لڑائی ہوگی نجانے ایک رات میں کیا کایا پلٹ گئی کہ اگلے دن جنرل نیازی نے اپنے کلاس فیلو ڈیرہ دون اکیڈمی کے ساتھی جنرل اروڑہ کے سامنے ہتھیار ڈالے۔
سقوط ڈھاکہ کے بارے میں سینکڑوں کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں ان اسباب وعوامل کا جائزہ لیا گیا ہے جو عالم اسلام کے سب سے بڑے ملک ٹوٹنے کے بارے میں ہیں ان تجزیہ کاروں میں امریکہ اور انگلینڈ کے گورے سرفہرست ہیں جنہوں نے غیرجانبداری سے واقعات کااحاطہ کیا ہے۔
16دسمبر تک یہ جو آج کا پاکستان ہے یہ مغربی پاکستان تھا اور اس وقت بھی اس پر پنجاب کا غلبہ تھا غالباً یہ تاریخ کاپہلا واقعہ ہے کہ اکثریت نے اقلیت سے علیحدگی کافیصلہ کیا یااقلیت نے اکثریت کوعلیحدہ ہونے پر مجبور کیا کسی نے یہ کلپ بھی بھیجی کہ مرکزی کابینہ نے فیصلہ کیا کہ سرکاری خط وکتابت انگریزی اور اردو میں ہوگی فیصلہ میں واضح کیا گیا تھا کہ بنگالی کو کسی صورت میں ذریعہ ابلاغ نہیں بنایاجائیگا۔یہ تو سبھی کومعلوم ہے کہ بانئی پاکستان نے بنگال کے دورہ کے دوران اردو کو قومی زبان قراردینے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد ڈھاکہ یونیورسٹی میں پہلے لسانی فسادات ہوئے تھے یہ اہل بنگال کو پہلا دھچکہ تھا کیونکہ مسلم لیگ 1906ء میں انہوں نے بنائی تھی اگرچہ نواب سلیم اللہ آف ڈھاکہ نہ کوئی نواب تھے اور نہ ہی ان کی مادری زبان بنگالی تھی لیکن نصابوں میں یہی پڑھایا گیا تھا کہ وہ نواب آف ڈھاکہ تھے اور بنگالی اشرافیہ کے سرخیل تھے نصابوں میں ہم نے پڑھاتھا کہ نواب بہادریار جنگ حیدرآباد کے نواب تھے اور جناح کے قریبی ساتھی تھے لیکن وہ کوئی نواب نہیں تھے البتہ بانئی پاکستان کے ساتھی ضرور تھے بلکہ ان کا تعلق سنی مسلک سے بھی نہیں تھا وہ مہدوی فرقہ سے تعلق رکھتے تھے۔
اگرشریف فاروق کی کتاب کا مطالعہ کیا جائے جو جنرل پرویز مشرف نے سرکاری سرپرستی میں شائع کروائی تھی یہ مسلم لیگ کی تاریخ ہے اس میں لیگ کا جو منشور شائع کیا گیا اس کا پہلا نکتہ ہی کچھ اس طرح ہے۔
برصغیر کے مسلمانوں کو انگریز
سرکار کی وفاداری پرراغب کرنا
یہ بہت وسیع موضوع ہے کہ انگریز نے ہندوستان کے سب سے عظیم خطہ یا صوبہ بنگال کو کس طرح تقسیم کیا متحدہ بنگال میں بہارآسام اور اڑسیہ بھی شامل تھے۔
انگریزوں نے فرقہ واریت کی بنیاد پر ایک زبان بولنے والے لوگوں کوتقسیم کیا اور کس طرح1940ء کے بعد مسلم لیگ کی قیادت نے متحدہ بنگال پر مشتمل پاکستان کے قیام کی تجویز رد کردی اور ایک غیرنظری وحدت کو پاکستان کا نام دیا بنگال اور پنجاب کے درمیان دوہزار میل کا فاصلہ تھا اور بیچ میں ہندوستان حائل تھا قیام پاکستان کے صرف سات سال بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے عزائم کھل کر سامنے آگئے انہوں نے ون یونٹ بناکر مشرقی اورمغربی پاکستان کی اصطلاح وضع کردی اور پیریٹی بناکر بنگالی اکثریت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا مغربی پاکستان کے بالادست طبقہ نے ملک کا دارالحکومت بھی یہیں پررکھا تمام اداروں کے ہیڈکوارٹر بھی مغربی پاکستان میں رکھے بنگالی کو قومی زبان پر تسلیم کرنے سے انکار کیا اور نظریہ پاکستان کا نظریہ گھڑ کر اسے بطور ہتھیار استعمال کیا حتیٰ کہ منٹو پارک لاہور میں قرار داد لاہور پیش کرنے والے عظیم بنگالی رہنما مولوی اے اے کے فضل الحق کو غدار قرار دیدیا جب مولوی صاحب مسلم لیگ کے سب سے بڑے لیڈر تھے تو شیخ مجیب الرحمن مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر تھے جوبعد میں غدار قرارپائے بنگال کے دوسرے بڑے لیڈر مولانا عبدالحمید خان بھاشانی غداری کے الزام سے اس لئے بچ گئے کہ وہ دراصل بنگالی نسل سے تعلق نہیں رکھتے تھے انہیں چین کی پشت پناہی حاصل تھی انکے اباؤ اجداد سنتوش نامی علاقہ میں آکر آباد ہوگئے اس لئے1970ء کے انتخابات سے وہ دست بردار ہوگئے تھے کیونکہ اس وقت بنگالی عوام غصے میں تھے اور وہ آر یاپار کرنے کے موڈ میں تھے انہیں پاکستان کا قبضہ ہر صورت میں چاہئے تھا لیکن یحییٰ خان بھٹو قیوم خان اور مولانا مودودی کی سربراہی میں مغربی پاکستان کی اشرافیہ نے اقتدار کی منتقلی کی مخالفت کردی اگرتاریخ کے ادراق کاجائزہ لیا جائے تو یہ بیانات ملیں گے کہ ان تمام رہنماؤں نے اقتدار کی منتقلی کی بجائے طاقت کے استعمال کی حمایت کردی تھی 25 مارچ 1971ء سے16دسمبر تک پورے9ماہ میں جو کچھ ہوا وہ جنگ عظیم کے بعد بدترین مظالم تھے اور ان کا ثبوت حمودالرحمن کمیشن میں تفصیل کے ساتھ موجود ہے پنجاب سے تعلق رکھنے والے بنگال سے ناواقف اہل کار مسلمان اور ہندو کی پہچان کیلئے دھوتی کھول کر اندر جھانکتے تھے رائٹرنیوزایجنسی نے ایک ایسی دلخراش تصویر محفوظ کررکھی ہے جو دودن پہلے کسی نے فیس بک پر ڈالی تھی۔
بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے رولنگ ایلیٹ کا مائنڈ سیٹ آج تک تبدیل نہیں ہوا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے4اپریل 1979ء کی نصف شپ کو جب ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی توضیاؤ الحق کا پہلا حکم تھا کہ بھٹو کی برہنہ لاش کی تصاویر اتاری جائیں کرنل رفیع کے مطابق اس کا مقصد یہ دیکھنا تھا کہ بھٹو مسلمان تھے کہ نہیں یہ کام ان لوگوں نے کیا جو راجہ رنجیت سنگھ کے زوال کے بعد مشرف بہ اسلام ہوئے تھے جبکہ سندھی 12سوسال سے مسلمان تھے۔
قیام پاکستان کے بعد پنجاب کی اشرافیہ اسلام اور نظریہ پاکستان کی علمبردار بن گئی حالانکہ اس اشرافیہ نے کبھی مسلم لیگ کا ساتھ نہ دیا تھا اور نہ ہی یہاں پاکستان کی تحریک چلی تھی حتیٰ کہ14اگست1947ء تک یہاں پر کانگریس اور یونسیٹ پارٹی کی حکومت تھی اور سرخضر حیات اس مخلوط حکومت کے وزیراعظم تھے اس کے باوجود اس نام نہاد اشرافیہ نے ریاست پر قبضہ کرلیا بنگالیوں کو علیحدگی پر مجبور کیا گیا اکثریت کے جدا ہونے کے بعد اگرچہ ایک آئین بنالیا اور صوبے تشکیل دیئے گئے لیکن پنجاب کی اشرافیہ نے صوبوں کی حیثیت کبھی تسلیم نہیں کی اور انہیں ہمیشہ مفتوحہ اور تابع یا باجگزار سمجھا دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بنگال کی اکثریت تھی تو انہوں نے پیریٹی کانظام بناکر اس اکثریت کو نہیں مانا جونہی پنجاب کی اکثریت ہوگئی تو انہوں نے اپنے تشکیل کردہ آئین میں قراردیا کہ تمام وسائل آبادی کی بنیاد پرتقسیم ہونگے اگر یہی فارمولہ پہلے اپنایا جاتا تو بنگال کی علیحدگی کا سانحہ رونما نہ ہوتا تشویش کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ نے گزشتہ50برس کے واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا بلکہ اسکے وہی اطوار ہیں جو قیام پاکستان کے وقت تھے۔
اب جبکہ صوبے موجود ہیں آئین نافذ ہے مرکز انکی آئینی حیثیت تسلیم نہیں کررہا ایک خاص منصوبے کے تحت عمران خان کو لایا گیا تاکہ 1973ء کے آئین کوداخل دفتر کیاجائے اور1956ء کی طرح ایک وحدانی طرز حکومت رائج کی جائے پی ڈی ایم کا اور کوئی فائدہ ہو نہ ہویہ فائدہ ضرور ہے کہ وہ ان غیرجمہوری اور غیر آئینی منصوبوں کے سامنے رکاوٹ بن گئی ہے بے شک وہ حکومت کاتختہ نہ الٹ سکے کم از کم صدارتی اور وحدانی نظام حائل نہیں ہونے دے گی ایک اور اطمینان کی بات ہے کہ پنجاب سے بھی ان منصوبوں کیخلاف آواز اٹھ رہی ہے اور پہلی مرتبہ مقتدرہ کو چیلنج کیاجارہا ہے لہٰذا اداروں اور پنجاب کی اشرافیہ کی نمائندہ جماعت تحریک انصاف کیلئے ممکن نہیں ہے کہ وہ موجودہ آئین کو منسوخ یا معطل کرے اگرچہ سندھ اور بلوچستان میں مداخلت بڑھ گئی ہے خاص طور پر بلوچستان کے ساحل ووسائل کو مال مفت سمجھ کر وفاق کے تصرف میں لایاجارہا ہے لیکن کوئی بھی ان اقدامات کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے ان منصوبوں کیخلاف دوطرفہ مزاحمت جاری ہے پی ڈی ایم بھی سیاسی طور پر آواز اٹھارہی ہے۔
مذاق سے قطع نظر پی ڈی ایم کی تحریک سنجیدہ نوعیت کی ہے اس کا ایک مقصد تو اقتدار کا حصول ضرور ہے لیکن بنیادی ہدف آئین کی بالادستی اورریاست کو اسکے مطابق چلانے کا ہے اگراس کی تحریک ناکام بھی ہوجائے تو بھی یہ ممکن نہیں کہ صدارتی یا وحدانی نظام لایاجائے کیونکہ حکومت کو ایک اورسخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔16دسمبرکاایک اورسانحہ اے پی ایس پشاور پر پراسرار حملہ ہے جسے6سال پورے ہوچکے ہیں اگرچہ اس سانحہ کی تحقیقاتی رپورٹ ابھی تک منظرعام پر نہیں آئی لیکن وہ مائیں جن کے لخت جگر اس حادثہ کا شکار ہوگئے بے چینی اور اضطراب کا شکار ہیں اور وہ اس بات کی منتظر ہیں کہ کب ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائیگا گوکہ ان کی آس رفتہ رفتہ ٹوٹ رہی ہے لیکن وہ اپنی حیات تک اسے بھولنے کیلئے تیار نہیں سانحہ اے پی ایس توسقوط ڈھاکہ سے بھی زیادہ دلخراش اور حساس نوعیت کا تھا کیونکہ اتنے سارے پھول جیسے بچے ناحق دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ گئے تمام تر حکومتی وضاحتوں اور یقین دہانیوں کے باوجود متاثرین یقین کرنے کو تیار نہیں۔واقعہ کی رات طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی کوئی دوسال پہلے موصوف نے سرنڈر کیا تھا لیکن پھر وہ اہل خانہ سمیت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔سوشل میڈیا کی ایک غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق موصوف آج کل ترکی میں براجمان ہیں جہاں اس نے انویسمنٹ کے ذریعے شہریت حاصل کررکھی ہے جب تک احسان اللہ کو دوبارہ گرفتار کرکے اصل حقائق سامنے نہیں لائے جاتے عوام مطمئن نہیں ہونگے انکی دیدہ دلیری کایہ عالم ہے کہ چند ماہ قبل اس نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کودھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم جلد آپ کو آپ کی والدہ کے پاس بھیج دیں گے جنرل پرویز مشرف نے بینظیر کی شہادت کے بعد کہا تھا کہ اس میں طالبان ملوث ہیں اور ہوسکتا ہے کہ کچھ سابق اہلکار بھی ملوث ہوں احسان اللہ احسان کے بیان سے ظاہر ہے کہ اس کا دہشت گردوں سے رابطہ ہے اور وہ مزید کارروائیاں کرسکتاہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں