میرے پیا گھرآئے

تحریر:جمشید حسنی
جی ہاں سینیٹ کے سوارکان میں سے 52گھر جائیں گے ہمارے خالد بزنجو،سرفراز بگٹی،منظور کاکڑ،عثمان کاکڑ،مولانا عبدالغفور حیدری،کلثوم پروین گھر جائیں گے۔رحمان ملک،فاروق نائیک،سسی پلیجو،شیری رحمن گھر جائیں گے،شیری رحمن اب اپنی کاروں سے دل بہلائیں گی،انہیں کاروں کا شوق ہے۔شبلی فراز کی نوکری میں بھی دوبارہ سے کم عرصہ رہ گیا ہے۔ذیشان خانزادہ جماعت اسلامی کے سراج الحق ان کی جگہ کون آئے گا انحصار اس بات پر ہے کہ پارٹیاں کن کو ٹکٹ دیتی ہیں۔
پارلیمانی جمہوریت میں دو ایوان ہوتے ہیں امریکہ میں صدارتی نظام ہے مگر سینیٹ بھی ہے۔اٹلی میں سینیٹر تاحیات ہوتا ہے قانون اسمبلی کے بعد منظوری کے لئے سینیٹ میں جاتا ہے فرانس میں صدارتی نظام ایک ایوان ہے۔ہندوستان،برطانیہ،پاکستان بہت سے پارلیمانی نظام والے ممالک ہیں۔دو ایوان ہوتے ہیں۔سینیٹ کا انتخاب قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں بیلٹ خفیہ ہوتی ہے اور عام طور پیسہ چلنے کی شکایات ہوتی ہیں۔عمران خا ن کہتے ہیں خفیہ بیلٹ کی بجائے کھلے عام ہا تھ اٹھا کر انتخاب ہوگا اس میں آئینی تحفظات ہیں عمران خان کہتے ہیں سپریم کورٹ سے رہنمائی لوں گا۔ہمارے نمائندوں کی دلچسپی قانون سازی سے زیادہ ترقیاتی فنڈ رمیں ہوتی ہے۔مقامی حکومتوں کے نظام کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے یہ بد بخت ضیاء الحق کے دور سے چلی اس نے غیر جماعتی ضلعی چیز نہیں۔مجلس شوریٰ میں بٹھا کر انہیں قومی اسمبلی کے متبادل کے طور پر استعمال کیا۔ممبروں کو فنڈ دیئے۔حالانکہ ترقیات مقامی حکومتوں کا معاملہ تھا۔جنرل مشرف نے ناظموں کو اپنے ریفرنڈم کے لئے استعمال کیا۔عام آدمی رہا عمران خان کہتے ہیں مارچ کے بعد بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔فی الحال تو وہ سینیٹ کے الیکشن کے معاملہ کو نبھائیں۔
حزب اختلاف اجتماعی استعفوں اور لانگ مارچ کا کہہ رہی ہے حکومت مارچ سے پہلے فروری میں سینیٹ کا انتخاب کرانا چاہتی ہے فاٹا کے چار جمعیت کے دو پی ٹی آئی کے پی کے سات ایم کیو ایم چار نیشنل پارٹی دو جماعت اسلامی ایک مینگل گروپ ایک پیپلزپارٹی کے سات اسلا م آباد سے چار رکن فارغ ہوں گے۔قومی اقتصادی کونسل نے فیصل آباد میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے لئے 7ارب 25کروڑ دیئے۔بلوچستان کے لئے صرف31کروڑ 30لاکھ ہیں 16ڈیم بنیں گے۔دریاتو ہے نہیں پہاڑی ندی نالوں پر بنیں گے۔پشاور DIK،360کلو میٹر موٹر وے بنے گی۔
ہم اسی حال میں رہیں گے بد سکونی نہیں کرتا پورے صوبے میں نہ دریا نہ کارخانہ دو ضلعوں میں نہر سندھ نے دیا ہے پانی آتا ہے وہاں بھی بڑے جاگیر دار ہیں محنت مزدوری کراچی کا رخ کرو،تعلیم صحت سہولتوں روزگار کے مواقع کا فقدان ہے۔
قیادت روایتی سردار،نواب،ملا یہ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہوتے ہیں یہاں تو (ر)جنرل عبدالقادر بنے بھی اپنے سردار کے وقار کے لئے سیاست قربان کردیئے ہیں۔45سالہ سیاست میں ڈاکٹر حئی بلوچ کو کبھی عوامی عہدہ نہیں ملا۔ملا دین اور قوم پرست قومیت کے نام پربرسراقتدارہے۔کس کو موقع نہیں ملا جام کمال ان کے والد جام یوسف دادا جام غلام قادر وزیراعلیٰ رہے۔عطاء اللہ مینگل،اختر مینگل،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ،تاج جمالی،ظفر اللہ جمالی،احمد خان باروزئی،نواب اکبر بگٹی،سردار زہری،نواب اسلم رئیسانی،ذوالفقار مگسی وزیراعلیٰ رہے۔نواب مگسی گل محمد خان جوگیزئی،غوث بخش بزنجو،نواب اکبر بگٹی،عبدالقادر بلوچ گورنر رہے۔اسلم رئیسانی کے دور میں تو وزارتیں پرچون میں دی گئیں۔کابینہ پچاس سے اوپر تھی۔عام آدمی کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوا۔اب بھی معاملات یونہی چلتے رہیں گے صوبہ کو ایف سی چلائے گی گزارہ کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں