پی ڈی ایم تحریک۔اہداف۔ معیارات!

تحریر: ر احت ملک
قیام پاکستان کے بعد ملک کے سیاسی نظم میں وقوع پذیر ہونے والے مختلف واقعات نے حتمی طور پر سیاسی اداروں کی بالادستی اور استحکام کی راہ روکی۔بھارت نے آزادی ملنے کے فوری بعد اپنا آئین تشکیل دیا جب کہ پاکستان میں آئین سازی کا عمل 1956 تک زیرالتواء رہا۔التواء کی وجوہات میں نمایاں طور پر سیاسی اقتدار پر براجمان زعماء کی عدم مقبولیت اور انتخابی حلقوں سے محرومی ایک اھم وجہ تھی نیز نو مولود مملکت میں کمزور سیاسی نظم وقیادت کو فیصلہ سازی کے مرکز ی دھارے سے پیچھے دھکیل کر سول بیورو کریسی۔یا ماہرین کی بالادستی جیسے نظریات کی عملی صورتگری نے بھی بڑا منفی کردار ادا کیا تھا۔ جنرل گیریسی کے بعد فوج بالخصوص ایوب خان ہوس اقتدار کی علامت بن چکے تھے۔جنہیں سودیت یونین کے خلاف حصار بندی کی کوششوں میں واشنگٹن کی آشیر باد میسر تھی۔فوجی سربراہی کے ساتھ وزیر دفاع کا عہدہ حاصل کر کے ایوب خان کابینہ کے سب سے طاقتور رکن بن گئے۔گورنر جنرل سکندر مرزا ملک کے صدر بننا چاہتے تھے۔اور آئین کے نفاذ کے بعد 1958میں دستور ساز اسمبلی کے انتخابات ہونے تھے۔ جنرل سکندر مرزا ان انتخابات کا التواء چاہتے تھے توبہت سے اراکین ٍ دستور ساز اسمبلی بھی ان کے ہمنوا تھے کیونکہ انہیں انتخابات میں کامیابی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔جنرل ایوب کے لئے منظر نامہ انتہائی امید افزاء تھا۔صدر سکندر مرزا نے مارشل لاء کے نفاذ اور انے ااقتدار کی خاطر قلات میں فوجی آپریشن کرایا۔ریاست قلات پر حملہ کیا گیا۔الزام عائد ہوا کہ خان آف قلات بیرونی ممالک کی مدد سے ریاست قلات کی آزادی کا اعلان کرنے والے تھے۔جناب راؤ رشید اور بعض دیگر جو اقتدار سنگھاس کی راہداریوں میں موجود تھے لکھتے ہیں کہ ” سکندر مرزا نے خان قلات کو خفیہ پیغام بجھوایا تھا کہ اگر وہ اعلان آزادی کریں تو حکومت پاکستان آزاد ریاست قلات کو تسلیم کرے گی ” مگرطیہ تو سر ا سر ورغلانے والی سازش تھی۔بہر حال قلات میں شورش کے نام پر ملک میں سکندر مرزا کے حکم پر آرمی چیف ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کیا اور چند دنوں کے بعد صدر سکندر مرزا کو جلا وطن کر کے اقتدار پر مکمل قبضہ کرلیا۔تب سے ابتک پاکستان کا اقتدار اعلیٰ جمہوری حکمرانی سے محروم و عاجز چلا آرہا ہے۔سقوط مشرق پاکستان اس کا ایک خمیازہ تھا بعد ازاں جناب بھٹو نے جنرل یحییٰ سے اقتدار حاصل کر کے آئینی جمہوریت اور پارلیمانی وفاقی نظام کی تشکیل کی ابھی اس ڈھانچے کی پشتہ بندی جاری تھی کہ پی این اے کے ذریعے انتخابی نتائج کے خلاف تحریک چلی جس کی سرپرستی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے کی۔ملک میں مارشل لاء نافذ ہوا جنرل ضیاء نے جمہوری سربراہ حکومت کو گرفتار کیا ھر ایک مشکوک مقدمے کے نام پر انکا عدالتی قتل کیا اور جناب بھٹو شہادت کا رتبہ عطا کردیا۔
ایوب خان کے دور سے 1971ء تک قائم ہونے والے سیاسی اتحاد جگتو فرنٹ اوردیگر کو اسٹیبلشمنٹ کا تعاون دستیاب نہیں تھا لیکن اس کے بعد بننے والے سیاسی اتحاد طاقت کے مرکز کی منشاء اوراشارے کا اعجاز رہے۔ماسوا ایم آر ڈی اور اب پی ڈی ایم۔
ایسے سیاسی اتحاد ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے خلاف ہیں۔ایم آر ڈی کے تحریکی کارکنوں بالخصوص پی پی کے جیالوں نے فوجی عدالتوں سے پھانسیوں اور کوڑوں کی سزائیں پائیں تاہم ایم آر ڈی کے بیانیے میں ماورائے مملکت وریاست حاکمیت اور آئین کے منافی سیاسی عمل میں کھلی مداخلت کے خلاف زیادہ تلخ نوائی موجود نہیں تھی۔پی ڈی ایم اس اعتبار سے واضح امتیاز رکھتی ہے کہ اس نے شراکت اقتدار کے فارمولے۔ انتخابی عمل میں مداخلت۔اور آئین وپارلیمان کی بے توقیری کرنے والوں پر علی اعلان تنقید کی ہے بلکہ انہیں آئین پارلیمان کے ساتھ اپنی سرکاری ملازمت کے وقت دیے گے حلف کی پاسداری کر نے کے مطالبات کیے ہیں۔حالیہ سیاسی کشیدگی یا مخاصمانہ فضا دراصل ملکی سیاسی تاریخ کے متذکرہ صدر ٹھہراؤ میں جست کا حامل واقعہ ہے۔ جو 2018ء کے مشکوک انتخابات کی اساس پر سامبے آیا ہے ی ڈی ایم تحریک وزیراعظم کے استعفیٰ اور نئے آزادانہ انتخابات کا مطالبہ آگے بڑھا رہی ہے۔
کیا ایک امر واقعہ کے طور پر پی ڈی ایم کی تحریک کا ہدف صرف عمران حکومت کا خاتمہ ہے؟یا وہ اس مطالبے کے ذریعے ایسے اہداف تک فاتحانہ رسائی چاہتی ہے تاکہ ملک میں آئین و پارلیمان۔ وفاقیت جمہوری استحکام معاشی ترقی اور عوام واقوام کی آسودہ حال اجتماعی زندگی کے امکانات روشن کر کے ملک میں قومی تشکیل کے منجمد شدہ عمل کی بحالی ممکن ہوسکے؟
یہ بہت صاف بات ہے کہ اگر پی ڈی ایم کے دباؤ کے نتیجے میں وزیراعظم کابینہ سمیت مستعفی ہوجائیں تو اسے پی ڈی ایم کی حتمی کامیابی تسلیم نہیں کیا جائے گا۔سوال یہ ہے کہ قومی اسمبلی برقرار رکھتے ہوئے اگر جناب عمران خان یا پی ٹی آئی اقتدار چھوڑ دے تو کیا پس پردہ قوت پی ڈی ایم کو نئی حکومت سازی کے لئے آزادانہ مواقع مہیا کریگی؟اگر متذکرہ صدر مجوزہ حکومت وسیع البنیاد بھی ہو جس میں پی ٹی آئی کو بھی شریک اقتدار دی جائے تب بھی کیا اسٹیبلشمنٹ حکومت بنانے کے عمل سے الگ رہنے پر رضا مند و آمادہ عمل ہوگی۔؟
میرے خیال میں پی ڈی ایم تحریک کی کامیابی کا مظہریاتی اظہار صرف جناب عمران خان کے استعفے میں مضمر نہیں بلکہ جمہوری عمل جمہوریت آئین و پارلیمان کی بحالی کے لئے ٹھوس اقدامات وضمانتوں کا قابل بھروسہ حصول ہی اس تحریک کی کامیابی کا حقیقی مظہر ہوگا چنانچہ اس منزل تک رسائی کے کئی مراحل ہونگے۔مثلاً جناب عمران خان کے استعفے کے ساتھ انتخابات پر اثر انداز ہونے والے دیگر افراد کی عہدوں سے رخصتی بھی ناگزیر ہوگی۔اس کے علی الرغم ایک مناسب متبادل یہ بھی بعیداز قیاس نہیں کہ طاقت کا مرکز شدید عوامی دباؤ کے سامنے خود سپر انداز ہونا قبول کرے اور اسے اپنی انا کے منافی خیال کرنے کی بجائے آئین پاکستان کی فتحمندی قرار دے کر خود کو دفاع وطن کے کردار منصبی فرائض کی ادائیگی تک خود کو محدود کر نے پر از خود عملاً رضامندی ظاہر کر دے۔اگر ایسا مرحلہ آتا ہے تو اسے پی ڈی ایم دستور ٍ پاکستان اور جمہوریت کی کامرانی سمجھا جائے گا۔ نہ کہ کسی کی شکست یہ منظر اصلاّ پاکستان میں قیام ٍ پاکستان کے اساسی خوابوں کی جیت ہوگی۔
اس خوش گمان مگر ناگزیر صورتحال میں سیاست تصادم سے مفاہمت میں بدل سکتی ہے جس کے لیے تمام فریقین۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں دو فرائض ادا کر نے ہونگے۔
الف۔ مختصر ومحدود عرصے کے لئے وسیع البنیاد حکومت کی تشکیل۔۔
ب۔ ملک میں سیاسی آلودگی کے خاتمے،آئین و پارلیمان کی بالا دستی کے غیر مشروط اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے اسمبلی سے مطلوب قانون سازی،آئینی ترامیم اور سیاسی میثاق پر اتفاق رائے کا حصول۔
مذکورہ طے شدہ امور پر نئی بننے والی وسیع البنیاد حکومت مختصر مدت میں عمل درآمد یقینی بنائے۔
مردم شماری کی توثیق نئی حلقہ بندیاں،آزاد وخود مختار الیکشن کمیشن کی فعالیت کے ساتھ پارلیمانی استحکام کی خاطر عدلیہ میں ججز کی تعیناتی اور فوج کے اعلیٰ عہدوں مثلاً میجر جنرل سے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدوں پر ترقی کا حتمی اختیار سینیٹ کی عدلیہ اور دفاعی کمیٹیوں کے ذریعے توثیق سے مشروط کردیا جانا مناسب ہوگا۔
نئے مجوزہ میثاق جمہوریت کے تحت طے کیا جائے کہ آئندہ ہونے والی کورکمانڈر کانفرنس کی صدارت وزیر دفاع کیا کرینگے اور سیکرٹری دفاع کی وساطت سے ہی فوجی سربراہان وزیر دفاع،وزیراعظم اور دیگر غیر ملکی وفود سے ملاقات کرسکیں گے۔اگر ان کا تعلق براہ راست عسکری امور سے ہوتو۔
قومی اسمبلی میثاق جمہوریت کے ذریعے ماضی کے غلط اقدامات / فیصلوں کی مذمت کرے لیکن عام معافی کا اعلان بھی کردے تا کہ انتقام پسندی کے منفی جذبات ورجحانات سر نہ اٹھا سکیں۔
متذکرہ اقدامات کے بعد آزادانہ منصفانہ شفاف عام انتخابات ہوں۔جو پارٹی اکثریت حاصل کر ے اسے مکمل اختیارات کے ساتھ اقتدار منتقل ہو۔ اور،شراکت اقتدار یا اختیار واقتدار کی رائج تقسیم ختم کردی جائے۔
قومی اسمبلی پبلک آفس ہولڈر سمیت تمام محکموں،اداروں کے لئے احتساب کا مستحکم اور یکساں نظام رائج کرے تمام استثنات ختم کئے جائیں نیز ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کو دوبارہ سرکاری ملازمتیں مہیا کرنے کا سلسلہ مکمل طور پر ختم کردیا جائے تاکہ نئی نسل کو روز گار کے نئے مواقع ملیں۔میری رائے میں پی ڈی ایم کی تحریک کی کامیابی کے معیارات مندرجہ بالا ہیں محض عمران خان حکومت سے نجات کی کوئی افادیت ہے نہ اہمیت۔