بند گلی

تحریر: انور ساجدی
سوشل میڈیا پر افواہوں کی بھرمار ہے پی ڈی ایم حکومت اور نوازشریف کے بارے میں طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے مثال کے طورپر کہاجارہا ہے کہ نوازشریف بہت جلد سعودی عرب جائیں گے جہاں وہ کچھ عرصہ قیام کریں گے اس افواہ کی وجہ حکومت پاکستان کا وہ دباؤ ہے جو وہ برطانوی حکومت پرڈال رہی ہے حالانکہ ابتدائی طور پر وہاں کی وزیرداخلہ پریٹی پٹیل نے نوازشریف کو بے دخل کرنے کامطالبہ مسترد کردیا تھا اس کے باوجود وزیراعظم عمران خان بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ کسی بھی طریقے سے نوازشریف بے دخل ہوجائیں اس سلسلے میں نوازشریف نے طویل قانونی جنگ کی تیاری کرلی ہے انکے صاحبزادوں نے قابل اور مہنگے وکلا کی خدمات حاصل کرلی ہیں جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے تو ولی عہد محمد بن سلمان ذاتی طور پر عمران خان سے ناراض اور نالاں ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے قرضہ حسنہ کی رقم واپس لے لی ہے سنا ہے کہ ولی عہد چاہتے ہیں کہ عمران خان رخصت ہوجائیں اس مقصد کیلئے وہ اپنے طریقے سے دباؤ ڈال رہے ہیں عالمی مبصرین کے مطابق پاکستانی مقتدرہ بہت زیادہ عرصہ تک موجودہ صورتحال برداشت نہیں کرسکتی لہٰذا آئندہ چند ماہ کے دوران کچھ بھی ہوسکتا ہے اور پاکستان میں روایات کے مطابق قبل ازوقت تبدیلی آسکتی ہے اس صورتحال کو بھانپ کروزیراعظم نے ایک چُومکھی لڑائی کی تیاری شروع کردی ہے۔انہوں نے اپنے مختلف انٹرویو میں اس لڑائی کااشارہ دیدیا ہے وزیراعظم کو ابھی تک غلط فہمی ہے کہ پاکستان کے عوام اور خاص طور پر نوجوان اسکے ساتھ ہیں اور وہ طیب اردگان کی طرح عوامی طاقت کے ذریعے اپنے خلاف سازش کو ناکام بناسکتے ہیں لیکن پاکستان اورترکی کے حالات میں زمین آسمان کافرق ہے یہاں کے زمینی حقائق مختلف ہیں یہاں پر ہر الیکشن کے بعد دھاندلی کاالزام عائد کرنا سیاسی روایات کاحصہ بن چکا ہے حالیہ برسوں میں اس روایت کو خود عمران خان نے مہمیز دیا تھا اور 2013ء کے انتخابات کیخلاف اسلام آباد میں طویل دھرنا دیا تھا یہ جو دھرنا کلچر ہے اس کے بانی عمران خان ہیں مخالفین یہ ہتھیار خود عمران خان کیخلاف استعمال کررہے ہیں اگر حالات یہی رہے تو روز بنی گالا کی اس پہاڑی کے اردگرد دھرنے دیکھنے کو ملیں گے جن کے اوپرعمران خان کامحل واقع ہے خیر سے وزیراعظم نے غیر قانونی طور پر تعمیرشدہ اپنے محل کو سی ڈی اے سے ریگولرائز کروادیا ہے اور12لاکھ جرمانہ کے طور پر بھی ادا کئے ہیں مخالفین کہنا شروع ہوگئے ہیں کہ جرمانہ ادا کرنے اور سی ڈی اے پر دباؤ ڈال کر اپنے محل کو جائز قرار دلوانے کااقدام ناجائز ہے جس کے بعدوہ آئین کی دفعہ62اور63 کے تحت صادق اور امین نہیں رہے اس سلسلے میں بعض مخالفین سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرسکتے ہیں جس کے ایک سابق چیف جسٹس ثاقب نثارآرائیں نے عمران خان کو ازراہ خیرسگالی صادق اور امین قراردیا تھا ایک افسوس اور خود غرضی کی بات یہ ہے کہ بنی گالا میں ایک لاکھ مکانات ہیں ان کی بھی وہی پوزیشن ہے جو عمران خان کے محل کی ہے یہ کیا بات ہوئی کہ وزیراعظم نے اکیلے اپنے محل کو قانونی بنالیا اور باقی خلق خدا کو اپنے حال پر چھوڑدیا وزیراعظم کے یک طرفہ اقدام سے یہ ضرور ہوگا کہ باقی مکانات بھی ریگولرائز ہونگے یا وزیراعظم اور سی ڈی اے حکام کوعدالتوں میں طلب کیاجاسکتا ہے کیونکہ یہ اتنا سادہ معاملہ نہیں ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وزیراعظم کو خلق خدا اور اپنے ووٹروں کی کتنی فکر ہے ان سے یہ بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ عہدہ کے دوران انہوں نے دوسری عمارت کیسے تعمیر کروائی جس کا نقشہ منظور نہیں تھا اس سلسلے میں انہوں نے حلف نامہ داخل کروایا ہے وہ بھی ایک مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ اسے اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیاجائیگا سوشل میڈیا ہی کی اطلاعات ہیں کہ حکومت نے بذریعہ نیب مولانا کی گرفتاری کا فیصلہ کیا ہے اہم مشیروں کے اجلاس میں اس بات پرغور کیا گیا کہ مولانا کی گرفتاری کا ردعمل کتنا سخت ہوگا طویل بحث کے بعد نتیجہ اخذ کیا گیا کہ جب نوازشریف،شہبازشریف،مریم نواز اور آصف علی زرداری کی گرفتاریوں پر کوئی ردعمل نہیں ہوا تو مولانا کی گرفتاری سے صرف اتنا ردعمل آئیگا کہ اسے کنٹرول کیاجاسکے اس سلسلے میں وزیرداخلہ شیخ رشید اور فواد چوہدری نے اپنی ماہرانہ رائے کااظہار کیا ہے فواد چوہدری کے مطابق قانون کا نفاذ یکساں ہونا چاہئے مولانا سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ورنہ قانون کی بالادستی قائم نہیں ہوسکتی وزیرداخلہ کاخیال ہے کہ مولانا کی گرفتاری کاردعمل پشتونخوا اوربلوچستان میں شدید ہوگا لیکن صوبائی حکومتیں ایف سی اور رینجرز طلب کرکے مظاہرین پر قابو پاسکتی ہیں جبکہ راولپنڈی،اسلام آباد سمیت پنجاب کے شہروں میں کوئی خاص ردعمل نہیں ہوگا حکومتی حلقوں کا خیال ہے کہ مولانا کی گرفتاری سے پی ڈی ایم کی تحریک کے غبارے کی ہوا نکل جائیگی جس سے تحریک ٹھس ہوجائے گی سرکاری پروپیگنڈہ مشنری کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ تحریک کے مستقبل سے مایوس ہوکر شہبازشریف کی طرح مولانا خود چاہتے ہیں کہ انہیں گرفتار کرلیا جائے مزید دعوؤں میں کہا گیا ہے کہ زرداری سے جو خفیہ رابطے ہوئے ہیں مولانا ان سے اچھی طرح آگاہ ہیں۔انہیں خدشہ ہے کہ تحریک کے کسی نازک موڑ پر زرداری جُل دے سکتے ہیں جس کے نتیجے میں انکی اتنی سبکی ہوگی کہ نہ جائے ماندن ونہ پائے رفتن کے مصداق وہ کہیں کے نہیں رہیں گے سرکاری حلقوں کادعویٰ ہے کہ مسلم لیگ میں بغاوت شروع ہوگئی ہے سابق اسپیکر ایازصادق اور پرویز ملک نے پارٹی کی لاہور شاخ کی صدارت قبول کرنے سے انکار کرکے اشارہ دیا ہے کہ وہ مریم بی بی کی انتہا پسندانہ پالیسیوں سے متفق نہیں ہیں رفتہ رفتہ یاپی ڈی ایم کی تحریک کے دوسرے مرحلے میں باغی ارکان کھل کر سامنے آجائیں گے جن کی تعداد حیرت انگیز طور پر توقع سے زیادہ ہوگی۔
اگریہ مفروضہ درست ہے کہ نیب نے مولانا کی گرفتاری کا فیصلہ کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک تبدیل شدہ عمران خان اپنے اصلی روپ میں سامنے آرہے ہیں کیونکہ حالیہ دنوں میں وہ مختلف ٹی وی چینلز کے انٹرویو میں نہ صرف پی ڈی ایم کودھمکیاں دے رہے ہیں بلکہ وہ کنٹرول ٹاور کے سگنلز کو بھی رد کررہے ہیں سما ٹی وی کو ایک طویل انٹرویو میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ فوج انکے نیچے ہے اورجمہوری حکومت کا ساتھ دینا اس کی آئینی ذمہ داری ہے عمران خان کی اس بات سے مئی1977ء کو پی این اے کی تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کادوریادآتا ہے جب جنرل ضیاء الحق سمیت تینوں مسلح افواج کے سربراہوں نے ایک مشترکہ بیان میں کہا تھا کہ وہ جمہوری حکومت کے ساتھ ہیں مسلح افواج کے سربراہوں کواس بیان کیلئے وزیراعظم بھٹو نے مجبور کیا تھا لیکن یہ بیان تھا بہت ہی ٹیکنیکل بھٹو جیسے جہاندیدہ شخص بھی اسے سمجھ نہ سکا اصل میں فوجی سربراہوں نے کہا تھا کہ وہ منتخب حکومت کے آئینی اقدامات کے ساتھ ہیں یعنی اگر حکومت غیر آئینی اور غیر قانونی کارروائی کرے تو وہ اس کا ساتھ نہیں دیں گے بھٹو کی طرح عمران خان کو بھی خوش فہمی ہے کہ فوج ان کا ماتحت ادارہ ہے یااس کے نیچے ہے اگر پی ڈی ایم کی تحریک چل پڑی اورزورپکڑ گئی تب عمران خان کو پتہ چل جائیگا کہ کون نیچے اورکون اوپر ہے لگتا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کی تاریخ کازیادہ مطالعہ نہیں کیا وہ غالباً واقف نہیں کہ7اکتوبر1958ء کوصدرسکندرمرزا نے دباؤ میں آکر مارشل لاء لگایا۔وہ بے خبر تھے کہ آئندہ دس دنوں میں انکے ساتھ کیا ہونے والا ہے چنانچہ17اکتوبر کی نصف شب کو جنرل شیخ اورغلام عمر (اسدعمر کے والد) سمیت چند جرنیل کراچی کے ایوان صدر پہنچے (آج کاگورنرہاؤس) جہاں انہوں نے صدر سکندرمرزا کوگہری نیند سے جگایا اور پہلے سے ٹائپ شدہ کاغذ انکے سامنے رکھا ان سے گن پوائنٹ پردستخط لے لئے گئے اگلی صبح ایک خصوصی طیارے کے ذریعے سکندرمرزا اور ان کی اہلیہ ناہید مرزا کوکوئٹہ روانہ کردیا گیا جہاں انہوں نے کچھ دن قیدی کی حیثیت سے گزارا جس کے بعد ایوب خان نے حکم دیا کہ سکندر مرزا اوران کی اہلیہ کا تعلق چونکہ ایران سے ہے لہٰذا انہیں خصوصی طیارے کے ذریعے تہران بھیجا جائے حالانکہ سکندر مرزا کے اباؤ اجداد سینکڑوں سال پہلے انڈیا گئے تھے اور مغربی بنگال میں مرشد آباد کے مقام پر سیٹل ہوگئے تھے ان کے دادا کے پردادا میرجعفرتھے جس نے جنگ پلاسی کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی کے کمانڈر لارڈ کلائیو کے ساتھ ساز باز کرلی تھی اسی کی سازش کی وجہ سے نواب سراج الدولہ کو شکست ہوگئی تھی جس سے ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔
ایران میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد سکندر مرزا نے برطانیہ میں جاکر پناہ لی اور اپنے آخری ایام بہت ہی تنگ دستی اور کسمپرسی میں گزارے۔
لہٰذا کسی حکمران کا یہ بھروسہ کرنا کہ طاقت کے سارے ستون ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے رہیں گے سراسر غلط فہمی ہے کم از کم1958ء کے بعد جو روایت پڑی ہے اس کے بعد ایسا سوچنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
جہاں تک پی ڈی ایم کی تحریک کا تعلق ہے تو وزیراعظم سے بالاخفیہ مذاکرات کاسلسلہ جاری ہے اس بات چیت کی وجہ سے وزیراعظم اچھے خاصے پریشان ہیں لیکن ابھی تک واضح نہیں کہ پی ڈی ایم میں کتنی جان ہے اور آیا ان کالانگ مارچ کامیاب ہوگا کہ نہیں بہرحال صورتحال دلچسپ رخ اختیار کررہی ہے اگرتحریک کاحتمی مرحلہ شروع ہوا تو دونوں میں سے ایک فریق ضرور بند گلی میں جائے گا ویسے تو وزیراعظم نے بہت آسان چیلنج دیا ہے ایک ہفتہ کا دھرنا کوئی مشکل کام نہیں یہ الگ بات کہ سردیوں کے موسم میں بارش بھی ہوئی تو مشکلات پیش آسکتی ہیں دوسری مشکل سینیٹ کے انتخابات ہیں اگر اپوزیشن نے استعفیٰ دے کر ان انتخابات کاراستہ نہیں روکا تو یہ حکمران جماعت کیلئے واک اور ہوگا جس کے نتیجے میں لازمی طور پر اپوزیشن بندگلی میں جائے گی دیکھنا ہے کہ اپوزیشن کونسی کارگرچال استعمال کرتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں