شیرانی صاحب کی رخصتی!!

تحریر:خالد ولید سیفی
تین عشرے بلا شرکت غیرے جے یو آئی بلوچستان کے صوبائی امیر رہنے والے مولانا محمد خان شیرانی صاحب کے متعلق 2000؁ء کی دہائی میں انور ساجدی نے لکھا تھا کہ ”شیرانی بادشاہ نہیں، بادشاہ گر ہیں“
یہ بلوچستان میں ان کی سیاست کا معراج تھا، شیرانی یہاں کی سیاست کی طاقتور ترین شخصیت تھیں۔ بلوچستان میں جے یو ائی کی سیاست ان کے اشارہ ابرو کی منتظر رہتی تھی، بلوچستان میں حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے میں شیرانی صاحب کا بنیادی کردار ہوتا تھا، سب راستے سب قافلے انہی کے لیے تھے، شیرانی صاحب خود کیا تھے، نہ سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔۔۔ایک سراپا طلسم! یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ سیاستدان ہیں، علمی شخصیت ہیں یا فلسفی زماں۔۔۔۔
سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، بیشتر اوقات مرکز کے فیصلوں کو نظر انداز کرنے، سفارشات کو درخور اعتناء نہ سمجھنے کے باوجود بھی وہ بلوچستان کے امیر ” منتخب ” ہوتے رہے، شہرت کی بلندیوں کو چھونے کے بعد شاید وہ اس زعم میں مبتلا ہوئے کہ اب اس کی شخصیت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ صوبائی سیاست کے سیاہ و سفید سے نکل کر مرکزی سیاست کے سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں۔۔خواہش کو کوشش میں بدل دیا گیا، کچھ جتن ہوئے، کچھ جدوجہد ہوئی، کچھ ہاتھ مارے گئے اور کچھ پاؤں بھی۔۔۔۔ کوششوں کا نتیجہ ہمیشہ خواہشوں کے برعکس نکلا!
دراصل شیرانی صاحب یہ ادراک نہ کرپائے تھے کہ وہ بادشاہ گر نہیں ہیں، جے یو آئی بادشاہ گر ہے۔شخصیات کی تنہائی اس اینٹ کی تنہائی کی طرح ہوتی ہے جب وہ عمارت سے الگ ہوکر کسی رہ گزر کی دھول بن جائے۔
شیرانی صاحب کے دور میں تنظیمی سیاست کم اور شخصیاتی سیاست پر زیادہ توجہ ہوتی تھی۔
ان کا جو ”حلقہ یاراں ” تھا، ان میں کچھ لوگ عجیب تھے اور کچھ غریب تھے۔ یہ عجیب و غریب لوگ رکن سازی کرتے تھے جو ” خیانت سے پاک ” ہوا کرتی تھی، شیرانی صاحب کے یہ عجیب و غریب لوگ پارٹی کے صوبائی انتخابات میں بنیادی ” کردار ” ادا کرتے تھے۔ اس وقت سب کچھ ٹھیک تھا۔۔2014ء تک دستور میں کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی کہ اسے لے کر بات کا بتنگڑ بن جائے۔۔جیسے ہی صوبائی انتخابات ہوئے شیرانی صاحب امارت کے انتخابات ہار گئے تو اب زمین وہ زمین نہ رہی، آسمان وہ آسمان رہا۔ پلک جھپکتے ہی سب کچھ بدل گیا اور شیرانی صاحب جماعت سے دور ہوتے گئے۔
خدا کرے کہ معاملات بہتر ہوجائیں لیکن شاید معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ ہی گئے ہوں گے۔
بلوچستان میں جے یو آئی کا جو مخلص حلقہ تھا انہوں نے نہ صرف شیرانی صاحب کو سنا ہے بلکہ سننے سے زیادہ سہا ہے۔ سیاست نہ علمی موشگافیوں کا نام ہے، نہ خشک فلسفے کی یکسانیت کا میدان ہے۔ سیاست بصیرت ہے، حکمت ہے، دانائی و بینائی ہے۔
شیرانی صاحب کا مسئلہ نہ ف ہے، نہ ج ہے، نہ م ہے، نہ اپوزیشن تحریک ہے اور نہ ہی اسرائیل پر وارفتگی ہے، بلکہ وہ مرکزی امیر بننے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ مرکزی امیر کا انتخاب مرکزی مجلس عمومی کرتی ہے، مرکزی انتخابات لڑکر امیر بن جاتے، اس قدر تماشہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
دور کے کچھ لوگ اگر یہ سمجھتے ہیں کہ شیرانی صاحب نے بغاوت کردی ہے تو اتنی معروف شخصیت کی بغاوت سے جے یو آئی دو دھڑوں میں تقسیم ہوگی۔تو یہ لطیفہ ہے۔
جن قوتوں کی سیاست میں مداخلت کو مولانا نے چیلنج کیا ہے اگر وہ یہ سوچتی ہیں کہ مولانا کے مقابل کا بندہ ہاتھ لگا ہے، اب صحیح سینگ پھنسا لیں گے، تو یہ خام خیالی ہے، وقت کا ضیاع ہے اورتوانائیوں کی فضول خرچی ہے۔۔البتہ کچھ وقت میڈیا کو غذا ضرور فراہم ہوتی رہے گی۔
شیرانی صاحب بڑی شخصیت ہیں لیکن جے یو آئی کا ورکر مولانا کا ہے، یہ نہیں کہ مولانا کا ورکر ریوڑ ہے یا مولانا کے پاس ہجوم ہے، جے یو آئی کا ورکر شعور و ادراک سے بھر پور ہے، ان کی جڑت مولانا سے شعوری ہے۔ جے یو آئی سے نظریاتی ہے اور ورکر جانتا ہے کہ شیرانی صاحب کا اختلاف نظریاتی نہیں ہے محض خواہشاتی ہے۔
اگر مولانا غلط راستے پر ہیں، مولانا کی پالیسیوں سے جماعت کو نقصان ہورہا ہے، جمعیت کی سیاسی طاقت و قوت ختم ہوچکی ہے، اس کی شناخت باقی نہیں رہی ہے تو پھر سو بسم اللہ، آپ الگ شناخت کے ساتھ میدان عمل میں کود چکے ہیں، باقی کام تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں، دیکھتے ہیں کون تاریخ بناتا ہے اور کون تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے۔
شیرانی صاحب کے اظہاریہ سے زیادہ اس کی ٹائمنگ اہم ہے۔حالت جنگ میں قافلے سے الگ ہونا بے وفائی نہیں دھوکہ سمجھا جاتا ہے۔ شیرانی صاحب ہمارے لیے پہلے بھی قابل احترام تھے، سو اب بھی ہیں، البتہ قابل اعتماد نہیں ہیں کیونکہ وہ میدان جنگ میں قافلے سے الگ ہوئے ہیں۔۔۔پھر اعتماد کیسا!!
سو باتوں کی ایک بات!
شیرانی صاحب اور مولانا کا تقابل
زمین اور آسمان کا تقابل ہے۔
جمعیت کا قافلہ اپنے نظریاتی ورکرز کے جلو میں رواں دواں ہے۔ کھٹن راستے ہیں، سخت حالات ہیں، بھونچال بھی آتے ہیں، آندھیاں بھی چلتی ہیں، لیکن۔۔سفر جاری ہے اور جاری رہے گا۔۔۔
شیرانی صاحب نے جے یو آئی کے لیے قابل قدر خدمات انجام دئیے ہیں، اس لیے اگر وہ رخصت لینا چاہتے ہیں تو جے یو آئی کی قیادت اور ورکرز بصد احترام انہیں رخصت کردیتے ہیں، اس دعا کے ساتھ کہ جہاں رہیں۔۔ خوش رہیں، شاد رہیں، آباد رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں