مولانا کے ساتھ کیا ہونے والا ہے؟
تحریر: انورساجدی
میں پہلے ہی اشارہ دے چکا ہوں کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ سیاسی طور پر کچھ برا ہونے والا ہے اس برائی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب حافظ حسین احمد اور مولانا محمدخان شیرانی نے بغاوت کا اعلان کیا تھا پی ڈی ایم کی تحریک کی ابتداء ہی میں مولانا نے خود بتایا تھا کہ گزشتہ دھرنے کے موقع پر ان سے کہا گیا تھا کہ اگر آپ نے ہماری بات نہیں مانی تو آپ تنہا ہوجائیں گے اگرچہ مولانا نے اس وقت دھرنا ختم کردیا تھا لیکن موجودہ حکومت کو چلتا کرنے کی ان کی حسرت باتی تھی چنانچہ انہوں نے پی ڈی ایم بنایا متعدد جلسے کئے اور جنوری میں لانگ مارچ کا اعلان کیا گوکہ اے پی سی پیپلزپارٹی نے بلائی تھی مسٹر بلاول کی کوششوں سے پی ڈی ایم کا قیام بھی عمل میں آیا لیکن کسی کو یقین نہیں تھا کہ مسٹرزرداری آخر تک تحریک کا ساتھ دیں گے چنانچہ یہی ہوامسٹرزرداری نے مولانا کوصاف بتادیا ہے کہ اگردھرنے کافیصلہ ہوا تو وہ ساتھ نہیں دیں گے اسی طرح پیپلزپارٹی نہ تو سینیٹ سے استعفیٰ دے گی اور نہ ہی ضمنی انتخابات کابائیکاٹ کیاجائے گا ان کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات کے بعد ہی استعفوں کا فیصلہ کیاجائے گا گویا زرداری صاحب نے عین موقع پر ہاتھ دکھایا اور پراسرار طور پر جل دے گئے اگراپوزیشن 8حلقوں کے ضمنی انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو بھی اس کا فائدہ حکومت کوپہنچتا ہے اور سینیٹ سے استعفیٰ نہیں دے گی بلکہ ان میں حصہ لے گی تو اس عمل سے تحریک انصاف کی حکومت کو نئی زندگی مل جائے گی اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسٹرزرداری نے مسٹرعمران خان کو ریسکیو کرلیا ہے یہ ایک طرح ان کی حکومت کو دوم بخشنے کا ادنیٰ ساہدیہ ہے اس صورتحال میں مولانا ن لیگ یا دیگر چھوٹی جماعتیں کیا کرسکتی ہیں وہ توبیچ بھنور میں پھنس چکی ہیں یہ تو سب کو معلوم تھا کہ زرداری کے ساتھ خفیہ مذاکرات چل رہے ہیں لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ زرداری پوری کشتی کو ڈبو دیں گے پارٹی کے سینٹرل پنجاب کے صدر قمرالزمان کائرہ گزشتہ رات ایک ٹی وی پرگرام میں واضع کررہے تھے کہ ہم مولانا کے گزشتہ دھرنے کیخلاف تھے اور مجوزہ دھرنے کے حق میں بھی نہیں ہیں پیپلزپارٹی کا اگریہی فیصلہ ہے تو سمجھو کہ پی ڈی ایم کی تنظیم اور اور تحریک کو شدید نقصان پہنچے گا جس کے نتیجے میں تنظیم کا آئندہ اجلاس انتہائی دھماکہ خیز ہوگا زرداری کے فیصلے سے پارٹی چیئرمین بلاول کو بھی شدید دھچکہ لگے گا کیونکہ کوئی بھی آئندہ انکے اعلانات اور تندوتیز بیانات پریقین نہیں کرے گا اور غالباً بلاول بھی آئندہ پنجابی فلموں والا سین نہیں کریں گے انہیں چاہئے کہ وہ پہلے اباحضور سے پوچھ لیا کریں اسکے بعد ہی بولا کریں اگرپیپلزپارٹی نے فیصلہ نہ بدلا تو مولانااور ن لیگ کو اکیلے تحریک چلانا پڑے گی جولازمی طور پر موثر ثابت نہیں ہوگی۔مولانا اگرچہ مضبوط اعصاب کے مالک ہیں لیکن وہ پارٹی کے اندر اور باہر سے آنے والے بے پناہ دباؤ کا مقابلہ کیسے کریں گے۔مولانا شیرانی تو مولانا سے الگ ہونے کے بعد مخالف کیمپ سے جاملے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعت میں اپنے الگ دھڑے کااعلان نہیں کریں گے بلکہ جیسے کہ ہدایت دی گئی ہے وہ حافظ صاحب کو ملاکر پارٹی پرقبضہ کی کوشش کریں گے ایسا قبضہ جماعت اسلامی پربھی چند سال پہلے ہوا تھا جب ”منورحسن“ کو اچانک امارت سے نکال کرسراج الحق کوامیر بنایا گیا تھا اگرچند لوگ مل کر یہ اعلان کریں کہ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی جگہ مولانا شیرانی کوامیر منتخب کرلیا ہے تو کون روکے گا؟سارا میڈیا جسکو حال ہی میں سوفیصد نکیل ڈال دیا گیا ہے بنجمن سسٹرز کی طرح ہم آواز ہوکر مولانا شیرانی کے حق میں پروپگنڈہ شروع کردے گا اسی دوران نیب کے کیسز بھی کھل جائیں گے اگرچہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ وہ نیب میں پیش نہیں ہونگے لیکن بہرحال انہیں پیش ہونا پڑے گا اگرپیش نہ ہوئے تو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا جب تک الزامات ثابت ہوں مولانا کاایسا میڈیا ٹرائل ہوگا کہ دنیا عش عش کراٹھے گی ممکن ہے کہ مولانا کے چاہنے والے ان الزامات کی صداقت پریقین نہ کریں لیکن سرکار کی فوج ظفرموج باتوں کواتنا اچھالے گی کہ خلق خدا پر ضرور اس پروپیگنڈے کااثر ہوگا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ مولانا شیرانی اور حافظ حسین احمد نے انتظار کیا تو کس وقت کا کیا ایسے موقع پر جب مولانا کشتیاں جلاچکے تو انہوں نے پیچھے سے رسہ کھینچ لیا اوپر سے پیپلزپارٹی بھی خنجر لئے پیٹھ پر گھونپنے کیلئے تیار ہے اگرحالات وواقعات اسی طرح جاری رہے تو مولانا حکومت کے خلاف تحریک کیا چلائیں گے بلکہ اپنی جان بچانے میں لگ جائیں گے البتہ اس دوران مولانا کو اپنی صحت کاخاص خیال رکھنا ہوگا بسیار خوری اور بدپرہیزی سے احتراز برتنا ہوگا انکی حد درجہ کوشش ہونی چاہئے کہ وہ اسپتال نہ جائیں اگرخدانخواستہ انہیں کرونا لگ جائے تو بھی وہ گھر پررہیں۔
جہاں تک مولانا شیرانی کاتعلق ہے انکے مولانا سے کافی عرصہ سے تعلقات خراب ہیں حالانکہ1990ء کی دہائی سے کم وبیش20برس تک وہ مولانا کے چہیتے رہے ہیں وہ ایم این اے کے علاوہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین بھی رہے لیکن بلوچستان میں مسٹرعبدالغفور حیدری عرف مولانا حیدری کی وجہ سے انکے تعلقات خراب ہوگئے کیونکہ مسلسل ڈسپلن کی خلاف ورزی پرمولانا نے شیرانی کی بجائے غفورحیدری کوآگے کیا اسی طرح کی صورتحال کاسامنا حافظ حسین احمد کو بھی درپیش ہوئی اگر میں کہوں کہ مولانا شیرانی دراصل مسٹر محمدخان شیرانی ہیں توبے جانہ ہوگا کیونکہ وہ عالم ضرور ہیں لیکن مولانا نہیں ہیں وہ ابتدائی دور میں سرکاری ملازم تھے اور کمال خان شیرانی کی پشتون موومنٹ سے متاثر ہوکر انہوں نے قوم پرستی کا لبادہ اوڑھا لیکن انتخابی طاقت کی خاطر انہوں نے جے یو آئی میں شمولیت کا فیصلہ کیا وہ طویل عرصہ تک حکومت اور عوامی نمائندگی کا لطف لیتے رہے انہیں سیاست اورعصری علوم پر اچھا خاصا عبور حاصل ہے۔1990ء کی دہائی میں روزنامہ ڈان نے ان کی تعریف میں ایک مفصل مضمون بھی شائع کیاتھا۔
ایک حیرانی کی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف اور اس کی حکومت کی حمایت کرتے کرتے وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی تجویز بھی دے چکے۔اگرچہ جے یو آئی نے یہودی قوم کے بارے میں کبھی ناپسندیدگی کااظہار نہیں کیا بلکہ نوازشریف کے دور میں پارٹی کے اہم رہنما مولانا اجمل نے اسرائیل کا خفیہ دورہ بھی کیا تھا لیکن اس کا ظاہری موقف کبھی یہ نہیں رہا کہ فلسطینی مسئلہ کو ترک کرکے اسرائیل کی حمایت کی جائے مسٹر محمدخان شیرانی کے حالیہ حیران کن بیان سے لگتا ہے کہ ان کا ایک اہم ایجنڈا ہے جس کا کھل کر اظہار وہ آئندہ کچھ عرصہ میں کریں گے عین ممکن ہے کہ اہم امریکی اوراسرائیلی لابی مسٹرشیرانی کی دستگیری کریں اور سیاسی کیریئر کے اس آخری حصے میں انکوکسی اونچے مرتبے پرپہنچانے کااہتمام کریں لگتا ہے کہ اسرائیل کی حمایت کرنے پر مسٹرشیرانی کوداخلی طور پر بھی اہم کواٹرز کی حمایت حاصل ہے جو سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب یواے ای،اومان اور مراکش کے بعد اسرائیل کوتسلیم کیا جائے تاکہ ریاست کے معاشی مسائل کم ہوسکیں اہم حلقے لاکھ انکار کریں لیکن وہ اسرائیل سے تعلقات بنانے کیلئے ان دنوں سرگرم ہیں۔عین ممکن ہے کہ ترکی اس سلسلے میں اہم کرداراداکرے کیونکہ طیب اردگان نے کافی ساری بڑھکیں مارنے کے بعد اسرائیل سے ازسرنو تعلقات استوار کرلئے ہیں پہلے کہاجاتا تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کوتسلیم کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا ہے لیکن فی الحال سعودی عرب سے تعلقات اچھے نہیں ہیں س لئے قیاس کیاجاتا ہے کہ یہ کام ترکی انجام دے گا۔
میراخیال ہے کہ مسٹرمحمدخان شیرانی کی دیکھا دیکھی کئی دیگرعلماء بھی اسرائیل سے تعلقات کے حق میں بیانات دیں گے حکومتی مشیر مولانا طاہراشرفی تو پہلے سے اسرائیل کادورہ کرچکے ہیں وہ سرکاری منصب کی وجہ سے کھل کر اسرائیل کے حق میں مہم نہیں چلارہے ورنہ شیرانی سے پہلے تو موصوف ہی یہ مہم چلاتے۔
دیکھنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نئی آزمائشوں سے کس طرح نبردآزما اورعہدہ برا ہوتے ہیں انہیں اپنی سیاسی زندگی میں اتنے بحران کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا۔