وائے ناکامی حسرت

تحریر: ر احت ملک
کسی نا اہل اور کم استعداد کار رکھنے والے شخص کو جسے کسی بھی سبب سے کسی اعلیٰ ترین عہدے پر فائز کردیا جائے تو بھی شخص مذکورہ کے ذھن میں استعدادکار سے متعلق اسکی خود آگہی ایک طرح کا خلجان پیدا کرتی رہتی ہے یہ ذہنی خلجان اور ناکامیوں کا خوف اس شخص کے دماغ میں ایسا عمل و کشمکش پیدا کرتی ہے جو جلد یا بدیر اپنی معینہ حدوں کو تو ڑ کر باہر پھوٹ نکلتی ہے اور پھر کسی بھی بہانے وہ چھپائے نہیں چھپتی۔ دباو¿ کے کسی خاص مرحلے پر خود بخود طشت از بام ہوجاتی ہے اسے بلاارادہ اظہار پانےکا عنوان دینا مناسب ہے کیونکہ یہ گہری داخلی مخاصمت،ناکامی و صلاحیت ٍ کار کی عدم موجودگی کی درون ٍ ذات کشمکش کا فطری بیانیہ ہوتا ہے جس کی تازہ ترین مثال پارٹی ارکین وزراءمشیران ومعاونین خصوصی کی فوج ظفر فو ج سے وزیراعظم جناب عمران خان کے سوموار22دسمبر کے روز خطاب میں سامنے آئی ہے۔جناب عمران خان نے بظاہر دانشورانہ انداز میں ( اور بالعوم وہ گفتگو کے لیے یہی انداز اپناتے ہیں) بڑے بھول پن سے فرمایا کہ
” کسی حکومت کو اقتدار ملنے کے بعد پہلے تین ماہ صرف معاملات سمجھنے اور آگہی کے لئے دینے چاہیے۔ بغیر تیاری کے کسی جماعت کو اقتدار میں نہیں آنا چاہےے۔ ( ان کا رویے سخن شید اپنی جماعت کی طرف تھا)
جناب عمران نے حکومتی امور مملکت کو کرکٹ کا پانچ روزہ ٹیسٹ سمجھا کہ میچ(حکمرانی)شروع ہونے سے پہلے ٹیمیں ایک دو روز تک نیٹ پریکٹس کیا کرتی ہیں۔۔۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ وزیراعظم بننے کے تین ماہ تک تو انہیں گورننس کے امور سمجھنے میں لگ گئے۔بقول ان کے اقتدار سے باہر رہتے ہوئے جو کچھ وہ سمجھ پارہے تھے وہ ان حقیقی حالات و امور سے قطعی مختلف نکلا تھا۔یہاں دو نکات کا اعادہ مناسب الحال ہے۔
ان کا مسلسل دعویٰ رہا ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کے برعکس جمہوریت کو سب سے زیادہ بہتر طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں کہ بطور کرکٹر ان کی زندگی کے کئی سال برطانیہ میں گذرے تھے۔خان صاحب اس دعویے میں یہ نکتہ نظرانداز کرجاتے رھے کہ برطانیہ کے جمہوری ڈھانچے میں تو حزب اختلاف شیڈو کابینہ بانتی ہے اور اس عرصہ میں حکومت کے علی الرغم متبادل پالیسیوں کی تشکیل کرتی رہتی ہے۔یوں ان کے پاس بر سر اقتدار آنے کے بعد تین ماہ تک امور ملکت کو سمجھنے اور پھر انہیں چلانے کی ناتجربہ کاری کا بحران موجود نہیں ہوتا یقینا قیام انگلستان میں کرکٹ کھیلتے اور جوانی کے معروف رنگین شب وروز بسر کرتے ہوئے وہ برطانیہ کی جمہوری سیاسی روایت کو درست طور پر سمجھ ہی نہیں پائے تھے اسی لیے وزیراعظم کا حلف لینے سے اب تک تجربہ حاصل کرتے کرتے جو جو کام کیے ہیں ان سے ملک کی معیشت،سیاست،وفاقیت، پارلیمان اور امور مملکت کو گہری تاریک کھائی کے آخری کنارے تک پہنچا دیا ہے۔خان صاحب آپ کی ناتجربہ کاری متکبرانہ عمل وتدبیر کی نرگیست کی قیمت پاکستان کے مستقبل اور عوام کی بدحالی نے بہت ادا کردیتی ہے۔براہ کرم ملک کو درست سمیت چلنے دیں کسی اہل تجربہ کار سیاستدان کی راہ کا پتھر بننے کی بجائے سامنے سے ہٹ جائیے کہ آ نے ہماری آنکھوں میں اپنے ناتجربہ کار کھوکھلے ذہن سے تشکیل دیئے کھو کھلے بے معنی مگر سنہری سپنے ہمیں دکھائے تھے ہم ان کی بھیانک تعبیر سے دل برداشتہ ہوچکے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ وزیراعظم بنتے وقت آپ نے ہی فرمایا تھا کہ ” یہ بہت اچھا ہوا کہ پی ٹی آئی کو2013ءمیں ملک کا اقتدار نہیں ملا تھا تب تو ہم ناتجربہ کار تھے مگر اب 2018تک ہم نے صوبہ کے پی میں حکمرانیکے ذریعے معقول تجربہ حاصل کرلیا ہے۔خان صاحب یہ باتیں ارزان کرتے ہوئے آپ کسی سہانے خواب وخیال کی مخمور دنیا میں کھوئے ہوئے تو نہیں تھے۔؟وہ تجربہ تو اب ہوا سے بھرا غبارہ نکلا وہ اعتراف یافہ۔۔تجربہ اور ناتجربہ کاری کے متعلق آپ کے متضاد خیالات وبیانات میں سے کسے شعور ودانش کی ہوشمند حالت کا درست فرمان تسلیم کیا جائے؟
جناب عمران خان کی خود اعتراف کردہ نااہلی اور امور مملکت سے مکمل نا آشنائی کی باز گشت ہر طرف سنائی دے رہی مخالفین اسے چارج شیٹ جبکہ اسران ٍدام خیال ٍ و غفلت کے حلقہ یاراں میں اسے سچ بولنے کا عمل کہہ کر سراہا جارہا ہے جو مزید ستم ظریفی اور آپ کے ساتھ بھیانک مذاق کے مترادف عمل ہے۔سطور بالا خانی اعتراف میں پوشیدہ مگر مسلمہ کم آگہی کے اسباب کو میں نے واضع کیا ہے کہ یہ اچانک لبوں پر آجانے والا جملہ نہیں بلکہ اس نقطے کی نشاندہی یا امکان اکا شارہ ان کے سیاسی اتالیق جناب ہارون رشید نے عمران خان کی کتاب”میں اور میرا پاکستان“کے دیباچہ لکھتے ہوئے 2011میں کردیا تھا۔وہ رقمطراز ہیں ” تمام انداے یہ ہیں کہ ابھی وہ ( عمران خان) غلطیاں کرے گا”۔(ص vii) سب دوسروں کی طرح۔ہارون رشید توضیح کرتے ہیں ” وہ اسی وقت غلطی کا ارتکاب کرتا ہے کہ جب اپنے خیال کے سحر میں مبتلا ہوجائے۔یہاں لفظ سحر بہت وسیع معنی دے رہا ہے۔نفسیات کی اصطلاح میں اسے نرگسیت کہتے ہیں تاہم سحر انگیزی کی کیفیت بھی بہت عیاں ہے۔جناب ہارون رشید کا ایک جملہ اور بھی دیکھئے محض تفنن طبع کئیلئے۔۔
”بنی گالہ کا وسیع مکان بن گیا تو خان نے دوستوں کی مجلس میں کہا۔اتنا بڑا گھر؟تو ایک وزیراعظم ہی کو زیبا ہے۔ تو جواباً میں نے کہا ” تاریخ میں شاید پہلی بار ہوگا کہ ایک مکان کی خاطر کسی شخص کو وزیراعظم بنایا جائے گا“
ستم ظریفی دیکھئے یہ بات درست نکلی مگر ذرا مختلف پیرائے میں۔شاید تاریخ میں پہلی بار کسی کو اپنے نوتعمیر شدہ مکان کو ریگولیٹ کرانے کے لئے وزیراعظم بننا پڑا کہ ناجائز تعمیر کو قانونی بنانے کے لئے قانونی ترمیم کی ضرورت تھی۔ حالانکہ اسی عہد ستم میں اسی شہر اقتدار میں تعمیرات کے نقشے سے انحراف یا تجاویز پر سینکڑوں مکان اور پلازے مسمار کردیے گئے ہیں۔ کیا ثابت کرنے کے لیے۔۔
یہ کہانی پھر سبہی۔۔
بطور حکمران عمران خان صاحب کی ناکامیون،اناہلیوں کے بر ملا اعتراف سے آگاہ ہونے کے بعد میرے لئے اب اہم سوال جناب عمران خان کی لاعلمی کے اعتراف کا نہیں بلکہ ان کی تعلیم کے متعلق ہے انکی مذکورہ کتاب کے صفحہ 43کا اقتباس نقل کرتا ہوں۔
شاید یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں کہ اوکسفرڈ یونیورسٹی میں میرا بہترین دوست ایک ہندوستانی تھا۔وکرم مہتا۔۔۔ میری طرح وہ بھی ایک قدامت پسند خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔اس نے بھی انگریزی سکول سے تعلیم پائی تھی۔ہم تین آدمی قریب آگئے۔وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظر بھٹو۔۔ میں۔اور وکرم، صرف اس لئے نہیں کہ ہمارا ایک ہی پس منظر تھا بلکہ اس لیئے بھی کہ ہمارے مضامین بھی ایک تھے۔ہم سب اقتصادیات اور پولیٹکل سائنس کی تعلیم حاصل کرنے میں مصروف تھے۔۔۔ (ص 43)
جناب وزیراعظم نے پرسوں جس نااہلی کم فہمی اور لاعلمی کا اعتراف کیا ہے اس میں رموز مملکت کے ساتھ معاشی مسائل اور معیشت کی رمزیات کا تذکرہ بھی کیا گیا۔ایک شخص جو اوکسفرڈ یونیورسٹی سے اقتصادیات اور پولیٹکل سائنس کا فارغ التحصیل ہو اس کے منہ سے علم الاقتصاد اور سماجی،سائنسی ریاستی امور کی پیچیدگی سے ناواقفیت کا اعتراف محض اس شخص اور اس کی جماعت و ٹیم کے لئے ہی نہیں میرے خیال میں اوکسفرڈ جیسی ممتاز درس گاہ کے لئے بھی ندامت کا معقول سامان رکھتا ہے تاہم اس پس منظر میں یہ سوال اور عقدہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ وزیراعظم موصوف نے کابینہ کے علاوہ مختلف امور کے متعلق معاونین خصوصی مشیران کرام اور میڈیا کی ایک فوج ظفر موج کیوں رکھی ہوئی ہے؟۔۔سیدھا سادہ جواب ہے کہ حاکم وقت جس منصب جلیلہ پر براجمان ہے وہ ذھنی طور پر اس کا مستحق ہے نہ ہی اہل۔ اسے تبدیلی سرکار کے انقلابی نعرے یعنی میرٹ پر تعیناتیوں کا پہلا قتل شمار ہونا چاہیے۔درست عہدے کے لئے درست و اہل فرد کی تقرری کے دل کش کن نعرے کا قتل۔
2018ئ کے عام انتخابات سے قبل ذرائع ابلاغ میں خود خان صاحب نے متعدد بار یہ دعوے کئے تھے کہ وہ ٹیم منتخب کرنے میں بہت زیادہ ماہر ہیں۔صرف دو سو افراد کی ایک ٹیم چاہیے۔مختلف ماہرین کی جو اس ملک کے سارے مسئلے مہینوں میں حل کردے گی۔اور حامد میر میں تمیں بتاو¿ں کہ میں نے ابھی سے ایسی ایک بہترین ٹیم تشکیل دے دی ہے ان کو ان کی ذمہ داریاں بھی بتادی ہیں (سوشل میڈیا پر مذکورہ گفتگو کے کلپس خان صاحب کی زبانی سنے جا سکتے ہیں۔)
کمال یہ ہوا کہ سہانے سپنوں کی مسمریزم پختہ تر بنانے کے لئے ملک کے ممتاز یا معروف اہل صحافت سے ایسے ایسے کالم سپرد قلم کرائے گئے جن میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک اور بیرون ملک میں موجود مختلف شعبہ ہائے زندگی کے ماہرین کی ایک ٹیم اپنا ہوم ورک مکمل کر کے تیار بیٹھی ہے کہ ادھر خان کو حکومت ملے اور ادھر وہ دوسو افراد اگلے ہی روز اپنی ذمہ داریاں سنبھال کر ملک کو بحران کی دلدل سے نکال کر اسے ترقی وخوشحالی اور استحکام کی منزل کی جانب گامزن کردیں گے۔ "بس ایک بار عمران خان کو اقتدار دے کے دیکھ لو۔”
اہل حرف وقلم کے ان کلمات پر عمران خان نے کتنے ووٹ لیے ہونگے؟ یہ اب متعلقہ سوال نہیں رہا کہ فرشتوں نے ان کے بیلٹ بکس بھرنے میں جو روحانی کرامات دکھاکر مدد کی تو پھر 25جولائی2018 کا سورج پی ٹی آئی کے لئے حکمرانی کی نوید کے ساتھ طلوع ہوا۔حکومت سازی کے لئے اراکین اسمبلی کی کمی پوری کرنے کے لئے شوگر ملز والا جہاز اور دیگر متبرک وسائل و ذرائع متحرک ہوگئے۔عمران خان صاحب وزیرعظم بنے۔تقریب حلف برداری سے لیکر 24دسمبر 2018ئ تک وہ مسلسل اپنی نااہلی۔ بچگانہ حرکات اور کھوکھلے نعروں کے ساتھ ملک کو زوال کی گہرائی میں لئے جارہے ہیں فرشتے مسکرا رہے ہیں عوام کلبلا رہے ہیں مگر خان صاحب فرما رہے ہیں کہ میں کیا کروں؟؟؟؟
عمران حکومت کی اڑھائی سالہ کارکردگی کئے معاشی اثرات بد کے متعلق سٹیٹ بینک کی رپورٹ سے چند حوالے دیکھتے ہیں۔رپورٹ گزشتہ ہفتے شائع ہوئی ہے
1) پاکستان کی جی ڈی پی کا مجموعی حجم2008(مشرف دور کے آخری سال)میں 134.ارب ڈالر تھا۔
2) 2020 میں کرونا نموداری سے قبل مجموعی جی ڈی پی 264 ارب ڈالر تھی جبکہ
2020 سے قبل مجموعی جی ڈی پی 264ارب ڈالر تھی جبکہ
3). 2008 سے 2018 تک کے "کرپٹ اداروں” میں جی ڈی پی کی مجموعی مالیت315ڈالر تھی۔
نتیجہ۔۔سابقہ دور کی بدعنوان حکومت کے دور میں 315ارب ڈالر کی جی ڈی ایم کی سطح .صادق وامین و تبدیلی سرکار کے عہد میں سکڑ کر264ارب ڈالر ہوگئی۔یعنی ڈیڑھ سال میں 51ارب ڈالر جی ڈی پی میں کی آئی یا پھر لائی گئی تھی۔
4) 2018 میں
درمیانی آمدن رکھنے والے پاکستانیوں کی تعداد جو انفرادی طور پر 300ڈالر ماہوار کماتے تھے ایک کروڑ ساٹھ لاکھ تھے2020میں مذکورہ تعداد سکٹر کر 56لاکھ رہ گئی ہے گویا کہ دو سال کی نااہل حکمرنی کے نتیجے میں ایک کروڑ چار لاکھ افراد 300ڈالر ماہانہ کمانے والوں کی صف سے باہر ہوگئے ہیں وہ آگے نہیں بڑھے نچلی سطح میں آن گرے ہیں
5) یاد رہے کہ خاک وطن کے قسمت کے مارے چوبیس اعشاریہ تین فیصد افراد پہلے ہی خط افلاس،غربت کی لیکر کے نیچے زندگی بسر کررہے تھے جن کی مجموعی تعداد مرکزی ریاستی بینک نے ساڑھے پانچ کروڑ بیان کی ہے۔
6) یو این ڈی پی نے بتایا ہے کہ پاکستان امسال انسانی ترقی کے پیمانے میں دو درجے نیچے چلا گیا ہے پہلے تنزلی کی فہرست میں ملک کا نمبر52تھا جو اب خیر سے 154ہوگیا ہے
6)، 1990 میں جب انسانی ترقی کی شمارہ بندی کا عالمی سطح پر آغاز ہوا تھا تو پاکستان 135ویں نمبر پر تھا۔
8) ملکی معاشی ترقی کی رفتار بھی سال رواں میں 0.5فیصد بتائی گئی ہے پڑوسی ملک میں اسکی شرح 5.4رہی
9) 2018 میں پاکستان کی شرح نمو پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد تھی۔ افراء زر کی صورتحال بھی غیر خوش کن ہے پاکستان میں یہ شرح 12فیصدہے اور دشمن ہمسایہ بھارت میں 3فیصد سالانہ ہے۔
چند نکات بطور مثال ناکامیوں اور نااہلیوں کی تائید کیلئے درج کیئے ہیں جن کی روشنی میں حتمی طور پر کہا جاسکتا ہے فی الواقع ھی جناب عمران خان اپنی تعلیمی قابلیت کے بلند بانگ حوالے اور پرجوش دعوو¿ں اور بہترین کپتان ہونے کے غوغا تلے کہیں کھو گئے ہیں اور ان کا یہ کہنا درست ہے کہ "ہمیں تین ماہ تک تو گورننس کے رموز سمجھنے میں لگے ڈیڑھ سال معیشت کے معاملات جاننے میں صرف ہوگئے”۔لہذا انہوں نے یہ نسخہ تجویز کیا ہے کہ کسی جماعت کو بھی تیاری کے بغیر اقتدار میں نہیں آنا چاہیے۔ مگر اس تجویز و اعتراف کے باوجود وہ اقتدار چھوڑنے پر آمادہ نہیں تو یہ قیامت کی ہی نشانی ہے۔اگرخان صاحب سابقہ دور میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں متواتر شرکت کرتے جس کی وہ تنخواہ وصول کرتے رھے ہیں اور بحیثیت رکن اسمبلی مختلف قائمہ کمیٹیوں کے رکن بن کر کارروائیوں میں شریک رہتے تو شاید آج انہیں انتہائی خجالت کے ساتھ اعتراف شکست و ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑتا۔۔سڑکوں پر تماشہ لگائے رکھنے اور126 روز کا دھرنا بطور حکمران ان کے کسی کام نہیں آیا۔
سیاست محض احتجاج کا عمل نہیں۔ یہ تجربے سے مکالمے سے اور مدلل مباحثے سے سیکھنے سکھانے کا بھی نام ہے خان صاحب نے ثانی الذکر عمل سے کنارہ کش رہ کر اپنی سیاست سمیت اپنے چاہنے والوں کے خواب بھی چکنا چورکئے ہیں تاریخ انہیں اسی حوالے سے یاد رکھے گی۔ لیکن میں مکرر عرض کر دوں جو کچھ رونما ہوا ہے یہی سرپرستوں کا ایجنڈا اور منشا تھی۔۔ کی سیاست سے طبقہ اولا اور تعلیم یافتہ افراد کو برگشتہ کر دیا جائے تاکہ پھر کوئی بھی تبدیلی انقلاب کے نعرے بلند نہ کرنے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں