سب گڑ بڑہے

تحریر: انور ساجدی
سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں لیکن اندرونی طور پر جنہیں خفیہ کہا جاسکتا ہے حکومت کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم دبڑدھوس ہوگیا ہے اور وہ اس قابل نہیں رہا کہ اپنی تحریک کے ذریعے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کو ہٹاسکے سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کاعمل جاری ہے اس کی سب سے زیادہ شکار مولانا کی جے یو آئی ایف ہے اس کے چار سابق شاہ سوار جنہیں مولانا نے ”پیادہ“ بنادیا تھا وہ پیادے مقتدرہ کے تعاون سے دوبارہ شاہ سوار بننے کی کوشش کررہے ہیں ان میں سابق سینیٹر اسماعیل بلیدی بھی شامل ہوگئے ہیں آئندہ چند دنوں میں ان ارکان کی تعداد میں اچھاخاصہ اضافہ ہوگا جس طرح کہ مولانا نے گزشتہ روز ان کی پارٹی رکنیت ختم کردی ہے اسی طرح یہ لوگ مل کر مولانا کی امارت سے برطرفی کا اعلان کریں گے سرکار اور میڈیا کی طرف سے ان کی خوب آؤ بھگت ہوگی ہر ٹی وی چینل پر بیٹھے ہونگے اور مولانا کے ان جرائم کی تفصیل بتائیں گے جن میں یہ خود بھی شریک تھے۔
حافظ جی نے توبتادیا ہے کہ ہم مولانا فضل الرحمن سے پہلے پارٹی میں تھے ہم بانی اراکین میں سے ہیں ہمیں مولانا نہیں نکال سکتے۔
دوبڑوں سے ملاقات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اعلان فرمایا کہ پی ڈی ایم اپنی موت آپ مرچکا غالباً انہیں ایسی بریفنگ دی گئی ہوگی جس سے وزیراعظم کی جان میں جان آگئی ہوگی نئی توانائی ملنے کے بعد ہی انہوں نے پی ڈی ایم کے تمت باالخیر کی نوید سنائی جہاں تک پی ڈی ایم کے اندرونی حالات کاتعلق ہے ن لیگ ایک طرف اسمبلیوں سے استعفیٰ دینے پر مصر ہے دوسری جانب اس نے بھی ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کاعندیہ دیاہے۔
کہاجاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے مرشد آصف علی زرداری نے طویل ٹیلی فون کالز کے ذریعے میاں نوازشریف کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر ہم نے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا تو موجودہ اسمبلیاں اور پارلیمنٹ 1985ء کی طرح ہوجائیں گی اسی طرح اگر ہم نے سینیٹ کے انتخابات کابائیکاٹ کردیا تو تحریک انصاف کو ”واک اور“ مل جائیگا جس کے نتیجے میں وہ آئین میں ترمیم کرکے صدارتی طرز حکوت لے آئے گی جس کے نتائج انتہائی بھیانک ہونگے یعنی زرداری نے اپنے پہلے موقف سے یوٹرن لیا ہے شیخ رشید کے مطابق آصف علی زرداری نے منفی سیاست پر پی ایچ ڈی کرلی ہے انکے داؤ پیچ سمجھنا بہت مشکل ہے اگر لوگوں کو یاد ہوتو 2008ء کے انتخابات کے موقع پر بھی نوازشریف نے انکے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا تھا اس وقت بھی زردای نے انہیں سمجھایا تھا کہ یہ مقتدرہ کے آگے سرنڈر اورگھاٹے کا سودا ہوگا جس کی وجہ سے ن لیگ نے انتخابات میں حصہ لیا اور پنجاب کی حکومت حاصل کرلی اگرن لیگ انتخابی ٹرین میں نہ بیٹھتی تو2013ء میں پورے ملک میں برسراقتدار نہ آتی اگر دیکھا جائے تو یہ مشورہ دراصل زرداری کی غلطی تھی اگر اس وقت ن لیگ انتخابی سیاست سے آؤٹ ہوتی تو ایک خلا پیدا ہوجاتا جسے پیپلزپارٹی پنجاب ہی پر کرسکتی تھی گزشتہ دو انتخابات میں پیپلزپارٹی سکڑ کر سندھ کی جماعت بن گئی ہے جبکہ پنجاب میں اب بھی ن لیگ کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور پیپلزپارٹی وہاں سے آؤٹ ہے لیکن آثار بتارہے ہیں کہ ن لیگ کے ساتھ دوطرفہ ہاتھ ہورہا ہے ایک اسکے ارکان توڑے جارہے ہیں دوسری طرف اسے جذباتی کرکے غیرحقیقت پسندانہ فیصلے کروائے جارہے ہیں اسے زرداری کاکمال کہہ سکتے ہیں کہ وہ حریفوں کو پہلے غلطی کرنے دیتے ہیں انکے بعد ہی اپنے پتے کھیلتے ہیں اس وقت عمران خان کو جس طرح دن میں تارے نظرآرہے ہیں اور وہ اپنی غلطیوں کا اعتراف کررہے ہیں ان میں زرداری کی چالوں کا اچھا خاصہ عمل دخل ہے زرداری نے بلاول کی زبان سے سلیکٹڈاورسلیکٹرز کی اصطلاح استعمال کرکے مقتدرہ اور عمران خان کو دفاعی پوزیشن پر لے آئے وہ اس وقت بڑے سکون سے بیٹھے نہایت خاموشی کے ساتھ سیاسی گیم کھیل رہے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کس کے ساتھ ہیں اور کس کے مخالف ہیں یہ تسلیم کرنے کی بات ہے کہ وہ منفی سیاست کے پیش امام ہیں دراصل ان کے لئے ایک اور لفظ استعمال کرنے کے لائق ہے چونکہ وہ بہت سخت ہے اس لئے میں ”منفی سیاست“ کالفظ استعمال کررہا ہوں ویسے تو زرداری نے ابتداہی میں کہا تھا کہ کپتان اناڑی ہیں سیاست کے ابجد سے بھی ناواقف ہیں اس لئے وہ ملک کوڈبو دیں گے چنانچہ ان کی یہ بات تو سچ ثابت ہوئی لیکن تمام تر ناکامیوں کے باوجود انکو برقرار رکھا جارہا ہے کیونکہ سلیکٹرز کیلئے اور کوئی راستہ نہیں ہے اس لئے وہ آنے والے ہر طوفان کارخ موڑ کر اپنے سلیکشن کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کب تک وہ حکومت کی پتلی حالت سے اچھی طرح واقف ہیں اور معیشت کا جو حال ہے ان سے زیادہ کون واقف ہوگا لیکن ان کی بڑی مجبوری یہ ہے کہ انکے بقول ریاست اس وقت ”حالت جنگ“ میں ہے مودی نے سرجیکل اسٹرائیکل کی تیاری کرلی ہے ایسے میں تبدیلی لانا تباہ کن ثابت ہوگا حالانکہ وہ مولانا کو گزشتہ دھرنے کے موقع پر نئے انتخابات کی یقین دہانی کرواچکے تھے غالباً یہ یقین دہانی لولی پاپ تھا تاکہ مولانا خیریت سے واپس جاسکیں اور حیرت ہے کہ اس دفعہ کے صاف دھوکہ کے باوجود مولانا نے ن لیگ اور پیپلزپارٹی پر ایک بار پھر اعتبار کرلیا نتیجہ ایک اور دھوکہ کی صورت میں نکلنے والا ہے کیونکہ زرداری نے اپنے اوپر ہاتھ ہولا رکھوانے کیلئے یہ گیم کھیلی ظاہر ہے کہ مقتدرہ اور حکومت کو بہ یک وقت تینوں جماعتوں سے تو لڑنے سے رہی اس لئے اس نے درپردہ زرداری سے تعلقات استوار کرلئے ہیں اور انہیں نیوٹرل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی اس وقت اگرچہ زرداری کیخلاف مقدمات چل رہے ہیں لیکن کوئی سخت گیری نہیں پارٹی کے ایک بڑے رہنما خورشید شاہ جیل میں ہیں انہوں نے بھی جیل میں رہ کر اپنے حالات بہتر کرلئے ہیں البتہ نیب سلیم مانڈوی والا کے پیچھے پڑا ہے اس کی وجوہات بھی غیر سیاسی ہیں تاہم اگر زرداری نے کنٹرول ٹاور کے احکامات سے انحراف کیا تو ان کے مقدمات میں تیزی لائی جائے گی اور ہولاہاتھ سخت کردیا جائیگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کنٹرول ٹاور سے تمام سیاسی جماعتوں کو ہدایات جارہی ہیں لیکن ہر ایک کو الگ الگ ہر ایک کو جدا خوش فہمی میں ڈالا جارہا ہے تاکہ سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
بظاہر تو نیت یہی نظر آرہی ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے اور نئے سیاسی جھمیلے کھڑے نہ ہوں اگروہ چاہیں تو یہ حکومت ایک منٹ کی مار ہے صرف ایک اتحادی جماعت الگ ہوجائے یہ دھڑام سے گرجائے گی مثال کے طور پر ایم کیو ایم باپ میں اور ق لیگ میں سے کوئی ایک جماعت علیحدہ ہوجائے تو اس کی اکثریت اسی دن ختم ہوجائے گی اگر یہ نہیں کرنا تو بنی گالا کے محل کامعاملہ خود کپتان کو تخت سے اتارنے کیلئے کافی ہے اگر کسی نے بنی گالا کے معاملہ کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کردیا تو دفعہ62اور63 کے تحت کپتان فیصلہ کے دن ہی اترجائینگے یا فارن فنڈنگ کافیصلہ آگیا تو نہ صرف حکومت ختم ہوجائے گی بلکہ تحریک انصاف صفحہ ہستی سے مٹ جائیگی فارن فنڈنگ کیس میں ہوش ربا تفصیلات ہیں آج تک کسی سیاسی جماعت کواتنے غیر ملکی فنڈز نہیں ملے جو تحریک انصاف کو ملے ہیں لیکن یہ اربوں روپے فنڈز کہاں خرچ کئے گئے اس کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ہے مستقبل کا سب سے بڑا اسکینڈل یہی ہوگا جسے اعلیٰ عدالتوں میں لڑنے کیلئے کپتان نے بڑی تیاری کرلی ہے کیونکہ یہ ان کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے یعنی ان کا اقتدار کنٹرول ٹاور کے مرہون منت ہے اگر ان کی نظر کرم پھرجائے تو ایک منٹ میں دھڑن تختہ ہوسکتاہے۔
فی الحال مولانا اور پی ڈی ایم کے مستقبل کاسوال درپیش ہے مولانا کو چاہئے کہ وہ ایک مرتبہ پی ڈی ایم میں شامل قائدین کو بٹھاکر ان سے کوئی حتمی فیصلہ کروالیں اس کے بعد ہی تحریک کا فیصلہ کریں کیونکہ جنووری فروری میں لانگ مارچ ہوا تو یہ جلد اختتام پذیر ہوجائیگا جبکہ پیپلزپارٹی دھرنے کیخلاف ہے جبکہ سب سے کارگر نسخہ دھرنا ہے جس کے بغیر حکومت اور مقتدرہ دباؤ میں نہیں آئیں گے اگر لانگ مارچ سینیٹ کے انتخابات کے بعد تک موخر ہوا تو دوبارہ تحریک شروع کرنا ممکن نہ ہوگا گویا اس وقت مولانا اور پی ڈی ایم سخت ترین بحران اور آزمائش کاشکار ہیں وہ صرف ایک کارگر اور اچھی حکمت عملی اپنا کر ہی اس صورتحال سے نکل سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں