بینظیر کی قلندری اور زمینی حقائق

تحریر: انور ساجدی
چونکہ ریاست کے جملہ معاملات کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے اس لئے اس کی سیاست معیشت اور دیگر معاملات پرکوئی تجزیہ کرنا بہت ہی مشکل کام ہے ایک دائمی عدم استحکام چلا آرہا ہے معیشت کبھی ٹھیک نہیں ہوئی عوام کو کبھی انسان نہیں سمجھاگیا چنانچہ وقتاً فوقتاً جب بھی سیاسی بحران آتے ہیں تو اکثر تجزیہ نگاروں کی نگارثات غلط ثابت ہوجاتی ہیں کیونکہ کرنٹ افیئرز بے سمت چلتے ہیں لہٰذا ایک غیر جمہوری ریاست میں کوئی پیشنگوئی کرنا یا تجزیہ کرنا کسی کے بھی بس کاکام نہیں ایک واحد حقیقت یہی ہے کہ یہاں پر سیاست ہمیشہ کنٹرول ہوتی رہی ہے اور بیشتر سیاستدان گماشتے کاکردارادا کرتے رہے ہیں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد ضیاء الحق نے شیخ رشید،نوازشریف،مولانا عبداللہ خلجی اور عبدالکریم نوشیروانی جیسے لوگوں کو انٹری دی تھی کہاجاسکتا ہے کہ سب سے دبنگ انٹری میاں نوازشریف کی تھی جو2008ء تک ضیاء الحق کے سیاسی جانشین اور انکے نظریات پرکاربند رہے اس کے بعد انہوں نے توبہ تائب کرلیا اور ریاست کے سیاستدانوں اور سیاسی قوتوں نے ان کی توبہ کوقبول کرلیا اگرچہ میاں صاحب کا ماضی کوئی زیادہ شاندار نہیں آج کے بیشتر بحرانوں کا تعلق میاں صاحب کے آمرانہ اور سیاسی خود غرضی کا نتیجہ ہے لیکن ایک مرتبہ جب وہ راہ راست پر آگئے تو مقتدرہ کے سابق لاڈلہ معتوب ٹھہرے اور ایسے معتوب ہوئے کہ آج انہیں حکومتی خود اسکے غلام گردشوں سے آئے روز غدار انڈین ایجنٹ اور مودی کے یارکے القابات سے نوازا جارہا ہے حکومتی وزراء کل سے آسمان سرپراٹھائے ہوئے ہیں کہ محترمہ بینظیر کے آلام ومصائب کے ذمہ دار نوازشریف کی صاحبزادی بی بی مریم نوڈیرو کیوں گئی ہیں اور انہوں نے بھٹو صاحب اور بینظیر کی قبروں پرحاضری کیوں دی ہے حالانکہ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے محترمہ کی شہادت کے بعد میاں صاحب نے خود بھی گڑھی خدا بخش میں حاضری دی تھی سرکاری حلقے کئی بار طعنہ دے چکے ہیں کہ مریم بینظیر کی نقل کررہی ہیں یا بینظیر بننے کی کوشش کررہی ہیں لیکن اس بات میں کوئی سچائی نہیں ہے بینظیر ایک شہرہ آفاق شخصیت تھیں ان سے متاثر ہونا کوئی معیوب بات نہیں ہے مریم نے اپنی زندگی میں پہلی بار نوڈیرو ہاؤس میں ایک رات گزاری وہاں پر انہوں نے محترمہ کی تصاویر کا جائزہ لیا اور اس سادہ گھر کے درودیوار دیکھے جو بہت سادہ ہے اور یہ گھر بینظیر کی بڑی والدہ شیرین امیر بیگم کی ملکیت تھا جو انہوں نے اپنی حیات میں بینظیر کو تحفہ میں دیا تھا انہوں نے اپنی زرعی اراضی بھی محترمہ کے نام کردی تھیں مریم بی بی کو اندازہ ہوا ہوگا کہ بینظیر کتنی سادہ شخصیت تھیں اور کس سادگی سے رہتی تھیں سادہ زندگی گزارنا انہیں بھٹو صاحب سے ورثہ میں ملا تھا بھٹو صاحب نے اپنی پوری زندگی میں کوئی مکان تعمیر نہیں کیا لاڑکانہ کاالمرتضیٰ اور کراچی کا70کلفٹن سرشاہنواز نے بنائے تھے جن میں بھٹو صاحب نے اپنی زندگی گزاری انہوں نے ان مکانات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی بھٹو صاحب کو اچھا لباس اچھی کافی اچھے سگار اور اچھی وہسکی پسند تھی انہیں محلات تعمیر کرنے کا شوق نہیں تھا بینظیر نے اپنا بچپن انہی مکانات میں گزارا تاہم شادی کے بعد انہوں نے بلاول ہاؤس تعمیر کی مگر ہوا یہ کہ انہوں نے سادگی کی وجہ سے مار کھایا انہوں نے اپنے جاننے والے بلڈرز سے کہا کہ وہ بلاول ہاؤس بنائیں بلڈر نے اچھا ڈیزائن نہیں کیا تعمیرات بھی عام درجے کی تھیں جس کی وجہ سے مکان اچھا نہیں بنا جس کی وجہ سے اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں کرنا پڑتی ہیں۔
میں نے کئی بار نوڈیرو ہاؤس دیکھا ہے اس میں بھٹو صاحب اور بینظیر نے کوئی اضافہ نہیں کیا البتہ آصف علی زرداری نے کافی اضافے کئے ہیں جہاں تک زرداری کاتعلق ہے تو انہیں شاندار مکانات تعمیر کرنے کا جنوں کی حد تک شوق ہے انہوں نے نوابشاہ میں محل تعمیر کیا لاہور کے بحریہ ٹاؤن میں زبردست محل بنوایا جو کئی ایکڑوں پر مشتمل ہے یہ رائے ونڈ محل کے بعد لاہور کا دوسرا بڑا مکان ہے۔اسلام آباد کا بلاول ہاؤس بختاور ہاؤس اور پشاور کا مکان کافی کشادہ مکانات ہیں آصف کے مقابلے میں ہمارے ہر دلعزیز چاچا حاکم علی زرداری زیادہ نفیس طریقے سے رہتے تھے انہوں نے بمبینو اور اسکالا تھیٹر کے منافع میں سول لائنز میں بہت خوبصورت مکان1960ء کی دہائی میں خریدا زرداری نے ایک مرتبہ یہ مکان بیچ دیا تھا لیکن کچھ عرصہ کے بعد دوبارہ حاصل کرلیا جسے گراکر ملک ریاض فلیٹوں کی ایک عالیشان عمارت تعمیر کررہے ہیں جس کا کام کافی عرصہ سے رکا ہوا ہے چاچا حاکم علی نے بعدازاں اولڈ کلفٹن میں دوشاندار مکانات بنائے جبکہ انہوں نے پیرس کے قریب ایک شاندار محل بھی خریدا تھا انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام اسی محل میں گزارے تھے میراخیال ہے کہ میرحاکم علی اور آصف زرداری کی شخصیتوں میں بہت فرق ہے ان میں بلوچی وضح داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جبکہ آصف سیاسی مصلحتوں کے شکار ہیں۔
بہر حال مریم بی بی کا نوڈیرو جانا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے یہ ایک سمبالک عمل ہے اور اس کے دو پہلو ہیں مخالفین کہہ رہے ہیں بھٹو کے جانی دشمن گڑھی خدا بخش میں اکٹھے ہیں جبکہ بھٹو خاندان کا کہنا ہے کہ جن لوگوں نے ہمیں تکلیف پہنچائی وہ آج اس خاندان کی قبروں پرحاضری دینے پر مجبور ہیں اور یہی ذوالفقار علی بھٹو اورمحترمہ بینظیر کے افکار ونظریات کی جیت ہے لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے مریم بی بی اس کے ذریعے سندھ میں انٹری دے رہی ہیں ان کے والد سندھ کی سیاست میں ناکام رہے تھے لیکن مریم میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ اپنی جماعت کو معقول حد تک پروموٹ کریں تاکہ یہ صحیح معنوں میں ایک قومی جماعت کہلاسکے۔
مریم اور مولانا میں یہ فرق ہے کہ مولانا نے گڑھی خدا بخش کے جلسہ میں شرکت سے اس لئے گریز کیا کہ مولانا راشدسومرو شرکت کیخلاف تھے اور مولانا سندھ میں اپنے اس لیفٹیننٹ کوناراض نہیں کرسکتے تھے خالد محمود سومرو نے لاڑکانہ سمیت بالائی سندھ میں جے یو آئی کو پھیلانے کیلئے سخت محنت کی تھی اور انکے صاحبزادہ اس کام کو آگے بڑھارہے ہیں وہ آئندہ انتخابات میں لاڑکانہ کی نشست پر خود کوبلاول کے حریف سمجھ رہے ہیں۔جے یو آئی ہی کی بدولت گزشتہ انتخابات میں اس نشست پر پیپلزپارٹی کوشکست ہوئی تھی اور مولانا سومرو نے پیپلزپارٹی کے مخالفین کے ساتھ مل کر ہوجمالو کیا تھا میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ آئندہ انتخابات میں بالائی سندھ میں جے یو آئی اور پیپلزپارٹی کا بڑا ٹاکرا ہوگا ایک سوال یہ ہے کہ مولانا ایک نشست کیلئے اتنے سنجیدہ ہیں جبکہ انکو توقع ہے کہ پیپلزپارٹی ان کا بھرپور ساتھ دے کر نہ صرف عمرانی حکومت کاخاتمہ کرنے میں مدد دے بلکہ آئندہ انتخابات میں انکے اقتدار میں آنے کااہتمام بھی کرے میراخیال ہے کہ مریم کو لاڑکانہ بلاکر بلاول نے سیاسی غلطی کی ہے ویسے بھی آئندہ انتخابات میں اگر ن لیگ نے کامیابی حاصل کرلی تو مرکزی حکومت وہی بنائے گی اس دوران مریم کی کوشش ہوگی کہ سندھ خالی نہ جائے اور یہاں پر بھی اس کی نمائندگی کا کچھ نہ کچھ اہتمام ہوجائے۔
مریم کی شخصیت اور سیاست میں عوامی کشش موجود ہے جبکہ پیپلزپارٹی سندھ میں اپنی سحر کھوتی جارہی ہے یہ جماعت سابقہ ادوار کو چھوڑ کر 13برس سے حکومت میں ہے لیکن اس نے سندھ کے عوام کی حالت بدلنے میں کوئی کامیابی حاصل نہیں کہ بلاول کے واویلا کے باوجود وزیراعلیٰ مراد علی شاہ من مانی کررہے ہیں اور انہوں نے اپنے خفیہ تعلقات مضبوط کرلئے ہیں پنجاب کے بعد سندھ کا دوسرا بڑا بجٹ ہے لیکن معلوم نہیں کہ یہ بجٹ کہاں خرچ ہورہا ہے کراچی اور لاڑکانہ سمیت شہروں کا براحال ہے دیہی عوام کا تو کوئی پرسان حال نہیں ہے خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات میں اگر ن لیگ نے زورمارا تو وہ پیپلزپارٹی کواچھی خاصی ڈینٹ دینے میں کامیاب ہوجائے گی کیونکہ پنجاب میں بہر حال ن لیگ کی حکومت نے بہتر کارکردگی کامظاہرہ کیا ہے جس کا ایک بڑا ثبوت ملتان سے سکھر تک شاندار موٹروے کی تعمیر ہے پیپلزپارٹی کے دور میں کراچی کھنڈرات میں تبدیل ہوا لیکن لاہور نے ترقی کی اس کارکردگی کی بنیاد میں مسلم لیگ کو پذیرائی مل سکتی ہے۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں کے نظریات کاتعلق ہے تو اس وقت کسی بھی جماعت کا کوئی نظریہ نہیں ہے پیپلزپارٹی طویل عرصہ سے ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ کی قربانیوں کو کیش کررہی ہے لیکن زمینی حقائق بدل چکے ہیں عوام کو معاشی بہتری چاہئے اپنے بچوں کا اچھا مستقبل چاہئے بھٹو اور بینظیر کی قربانیاں اپنی جگہ لیکن وہ ایک محض استعارے کی حیثیت رکھتی ہیں عوام کو کب تک بھٹو کے نعرے پر جذباتی بنایا جاسکتا ہے زرداری اور بلاول کو چاہئے کہ وہ جدید دور کے مطابق اپنے منشور اور پروگرام بنائیں اور انہی کی بدولت عوام کے پاس ووٹ مانگنے جائیں کوئی شک نہیں کہ بینظیر ایک قلندر کی حیثیت حاصل کرگئی ہیں گوکہ یہ قلندری ایک مشعل راہ ضرور ہے لیکن عوام کے مصائب اور دکھوں کا مداوا نہیں ہے اس کیلئے ایک اورراستہ اختیار کرنا پڑے گا ورنہ پیپلزپارٹی سندھ کھونے کیلئے تیار رہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں